جو جتنا جھوٹ بولے گا اتنا ہی سوشل میڈ یا پر فروخت ہو گا : چیف جسٹس

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ میں صحافیوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس  نے کہا ہے کہ جو جتنا زیادہ جھوٹ بولے گا اتناہی سوشل میڈیا پر بِکے گا۔ غلط خبریں چلائی گئیں کہ میری اہلیہ فل کورٹ میٹنگ میں میرے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں۔ کیا ہم سارا دن بیٹھ کر وضاحتیں جاری کرتے رہیں؟۔ کیا ایسی خبریں چلانے والوں کو نوٹس جاری نہیں ہونا چاہیے۔ چیف جسٹس  نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلاتے ہوئے استفسار کیا کہ کیا وکیل حیدر وحید والی درخواست کا کوئی پٹیشنر عدالت میں موجود ہے۔ کیا اس طرح کی درخواست عدالت کا غلط استعمال نہیں؟۔ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ بالکل یہ پراسس کا غلط استعمال ہے۔ کیا ایسی درخواستیں عدلیہ کی آزادی یقینی بناتی ہیں یا اسے کم کرتی ہیں؟۔ اس پٹیشن کے تمام درخواست گزاروں کو نوٹس کر کے طلب کیوں نہ کریں؟۔ جس پر اٹارنی جنرل نے درخواست گزاروں کو نوٹس کرنے کی حمایت کردی۔ چیف جسٹس نے پوچھا وکیل حیدر وحید کہاں ہیں؟۔ جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ وہ میڈیا ریگولیشن سے متعلق اپنی درخواست واپس لینا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا مگر وہ عدالت بھی نہیں آئے۔ کیا ان کی درخواست آزادی اظہار کو یقینی بناتی یا مزید روکتی؟۔ ان کے کیس میں درخواست گزار کون تھے؟۔ 2022 سے یہ درخواست کس بنیاد پر دائر کی تھی، کیا ان کامقصد پورا ہو گیا۔ درخواست گزاروں میں کوئی چکوال کوئی اسلام آباد کا تھا۔ کون سا مشترکہ مفاد تھا جو ان درخواست گزاروں کو ساتھ لایا تھا؟۔ میڈیا میں بڑی منتخب رپورٹنگ ہوتی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اب یہ رپورٹ نہیں ہو گا یہ 6 درخواستگزار غائب ہو گئے۔ اسی لیے ہم نے کہا کہ ہم اپنا یوٹیوب چینل چلائیں گے۔ بیرسٹر صلاح الدین نے مؤقف اختیار کیا کہ عوامی مفاد کی درخواست واپس نہیں ہو سکتی۔ آرمی چیف کی توسیع سے متعلق ریاض حنیف راہی والی درخواست بھی واپس نہیں لینے دی گئی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل اگر میں ایک کیس کو اوپن اینڈ شٹ کہوں تو وہ مطیع اللہ جان کیس کا ہے۔ آپ کے پاس اس واقعے کی ویڈیو ہے۔ حکومت اخبار میں اشتہار کیوں نہیں دیتی ان لوگوں کی تلاش ہے۔ اگر کچھ نہیں کرتے تو ایسا آرڈر آئے گا جو آپ کو پسند نہیں آئے گا۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا زیادہ ری ٹوئٹس، لائیکس سے پیسے کمائے جارہے ہیں؟۔ بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ ہتک عزت کا قانون پاکستان میں اتنا مضبوط نہیں اس لیے یہ سب ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا صحافیوں نے اپنے ممبر کیخلاف کارروائی کی؟۔ یہ سب ٹریڈ یونین بن گئی ہیں۔ ہم نے تو آپ کو اپنے ادارے میں کر کے دکھایا، آپ بھی کر کے دکھائیں۔

ای پیپر دی نیشن