صادق فقیر… ایک خوبصورت آواز جو خاموش ہوگئی
لوک راگی کی برسی پر ایک تحریر
سفر تھا مٹھی کا… جو ضلع تھر کا صدر مقام ہے اور راستے میں ویگن کے ڈرائیورنے ایف ایم ریڈیو لگایا تو ایک خوبصورت آوازدل کے تاروں پر سروں کے رنگ بکھیر گئی… ایاز گل کا خوبصورت گیت ’’توکھان تھیندے دھار‘ کھلندے کھلندے یار‘ لڑک لڑی پیالا ر کرے‘‘ اس سے قبل بھی کئی بار سنا تھا لیکن اس روز آواز کا کمال تھا یا تھر کا دل کش ماحول یاپھر چند گھنٹوں قبل کچھ دوستوں سے بچھڑنے کی کیفیت… اس لئے کم و بیش سب رفقاء کی آنکھیں نم ہوگئیں۔
یہ صادق فقیر سے ہوا کی لہروں کے دوش پر پہلا تعارف تھا۔ مٹھی پہنچے تو کچھ ساتھی ’’اوڑھنیاں‘‘ خریدنے چل دئیے جسے وہاں لوئی کہتے ہیں اور بعض نے ’’رلی‘‘ لینے کی ٹھانی جوکپڑوں کے رنگ برنگے ٹکڑے جوڑ کربنائی جاتی ہے اور اسے فرش پر بچھائیں تو قوس و قزح کے منظر بکھر جاتے ہیں باقی مور کے پروں سے بنے پنکھے اور دیگر سوغاتیں خریدنا چاہتے تھے لیکن ہمارارخ آڈیو سینٹرکی سمت تھا جہاں سے صادق فقیر کے کلام کی سی ڈی اورالبم ملنے کا یقین تھا اور ہوا بھی یہی۔
’’سکھی پیا کھے ملیں تہ چئجاں‘‘
’’سندھ دیس جی دھرتی توں تے پنھجو سیس نوایاں‘‘
’’رومال مھارو‘ رگیو‘‘
جیسے گیت‘ وائیاں‘ غزلیں اور نغمے سننے کو ملے تو صادق فقیر کا نیا روپ سامنے آیا۔ 20 مارچ 1946ء کو پیدا ہونے والے صادق فقیر نے رخصتی کا سمے بھی فروری کی 26 تاریخ کو چنا‘ جب بہار کی آمد آمد ہوتی ہے۔ نصیر مرزا کہتے ہیں کہ تھرکی شناخت صادق فقیر تھے‘ بلاشبہ کارونجھر کا پہاڑ‘ ماروی کی محبت‘ چینی مٹی کے ذخائر‘ قدرتی حسن مور اور لاتعداد مندر‘ مساجد اور دیگر تاریخی آثار بھی تھرکاتعارف ہیں لیکن سندھ کی لوک موسیقی میں صادق فقیر اپنا بھرپور اور موثر نام اور کام رکھتے تھے۔
دو برس قبل وہ حجاز مقدس گئے تھے کہ عمرہ ادا کرسکیں‘ فروری کی 26 تاریخ کو میدان عرفات سے واپسی پر ان کی گاڑی سامنے سے آنے والی گاڑی سے ٹکرا گئی وہ موقع پر ہی چل بسے‘ البتہ اہلیہ ا وربرادر نسبتی زخمی ہوئے۔ سندھی اخبارات نے درست لکھا کہ لوک موسیقی کا ستارہ ڈوب گیا۔ صحرائے تھرکے قصبے ڈیپلو میں بہار کا پہلا سورج دیکھنے والے صادق نے راگ کے اسباب اپنے ماموں حسین فقیر سے لئے اور عام عشقیہ شاعری کے برعکس تھر کے لوک گیت‘ ایاز گل اور شیخ ایازسمیت جدید شعراء کا کلام گایا اور پیشہ کے اعتبار سے کالج لیکچرر تھے۔ ان کی آواز میں سوز و گداز تھا اور یہ درد کی کیفیت ہی انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی تھی۔ ان کی وفات پر ایاز لطیف پلیجو‘ عبدالواحد آریسر اور قادر مگسی جیسے سیاستدانوں‘ محکمہ ثقافت کے سابق سیکرٹری عبدالقادر منگی‘ صنم ماروی‘ دیباسحر‘ ضامن علی‘ اقرار وحید‘ ذوالفقار علی‘ استاد امیر علی‘ مظہر علی‘ شمن میرالی‘ معروف براڈ کاسٹر کوثر برڑو‘ یاسر قاضی‘ سمیع بلوچ‘ لطیف یونیورسٹی کی شیخ ایاز چیئر کے سربراہ مونس ایاز سمیت سینکڑوں اہم شخصیات نے اظہار افسوس کیا۔ سب متفق تھے کہ ان کی اچانک حادثاتی موت نے لوک موسیقی کو وہ نقصان پہنچایا ہے جس کا ازالہ ممکن نہیں وہ صرف اچھے گائیک ہی نہیں بلکہ ایک خوبصورت انسان بھی تھے۔ ان کی انفرادیت یہ تھی کہ وہ اپنی نفیس طبیعت کے باعث ہر چھوٹے بڑے فنکار کو اپنائیت کے ساتھ ملتے تھے‘ ورنہ تو آج جس کے چند البم آجائیں وہ کسی کوخاطر میں نہیں لاتا لیکن صادق فقیر دنیاوی مراتب‘ کامیابیوں اوراعزازات کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ گیت‘ سنگیت اورسر کا علم رکھنے والے ان کی معصومیت کا ا عتراف کرتے ہیں‘ویسے بھی تھر کے باشندے عاجزی‘ انکساری اور نیازمندی کا پیکر ہوتے ہیں‘ ارباب نیک محمد سے لے کر لیاقت جونیجو ‘رسول بخش ا حمدانی‘ کھاٹائوجانی اور نندلعل تک جس سے ملاقات ہو وہ آپ کو گرویدہ بنا لیتا ہے کہ اپنائیت کا وصف تھر کی پہچان ہے۔
صادق نے اپنے ساتھ فقیر کا جو لاحقہ جوڑا تھا وہ زندگی کی آخری ساعتوں تک ان کے نام کا حصہ رہا‘ جیتے جی انہوں نے دلوں پرراج کیا۔ زندگی کی آخری سانسیں مکہ میں بسرکیں‘ جہاں عمرہ کی ادائیگی کے لئے گئے ہوئے تھے‘ ارض مہران میں ان کی موت کا غم شدت سے محسوس کیا گیا تھا۔ صوبے کے چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں میںبہترین فنکار اورالبیلے راگی کی یاد میں تعزیتی اجتماعات منعقد ہوئے تھے ۔ضلع تھر میں وفات کے اگلے روز عام تعطیل تھی‘ پورا سندھ سوگوار تھا کہ ایسے فنکار روز روز پیدا نہیں ہوتے‘ ایسا نہیں کہ صادق نے صرف سندھی گیت ہی گائے اس کے ا یک اردو گیت ’’نگاہوں کی ملاقاتیں‘ ہمیں سونے نہیںدیتیں‘‘ پر کتنے ہی لوگ آب دیدہ ہوجاتے ہیں ۔ ایسا ہی اس کی حادثاتی موت کی خبر سن کر ہوا تھا۔ ایک خوبصورت آواز خاموش ہوگئی لیکن وہ دلوں میں موجود ہیں کہ ان کی گائیکی امر ہے‘ کانوں میںان کی آواز گونج رہی ہے۔
’’سکھی…! پیاسے ملو تو کہنا…!!‘‘