20 جون 2018ءکو میں نے ایک کالم میں شمالی کوریا کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے پر ڈونالڈ ٹرمپ کی تعریف کی تھی ، میرے اس مضمون کا عنوان تھا ”کیا امریکی صدر، ایران کے ساتھ مصالحت کے لئے، شمالی کوریا والی پالیسی اختیار کر سکتے ہیں؟“
میں نے لکھا، ”میری رائے میں صورتحال کو معمول پر لانے اور دونوں ملکوں کے درمیان دوستانہ تعلقات قائم کرنے کے لئے صدر ٹرمپ کی شمالی کوریا کے صدر کم جونگ اون کے ساتھ ملاقات کے بروقت اور دانشمندانہ فیصلے کی تعریف کی جانی چاہئے“ اس کالم میں شمالی کوریا کی جانب امریکی رویے میں تبدیلی کا امریکہ اور ایران تعلقات سے موازنہ کیا گیا تھا۔“ میں نے لکھا ”شمالی کوریا کی صورتحال اس لحاظ سے مختلف ہے کہ جنوبی کوریا نے (شمالی کوریا کا) حریف ہونے کے باوجود خِطے میں تمام ملکوں سے یکساں طور پر دوستانہ ماحول قائم کر رکھا ہے اور اس نے امریکہ کی (شمالی کوریا بارے) بیان بازی کو مفادات کے لئے استعمال کرنے سے اجتناب کیا ہے“ دوسری طرف، ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کی مشرق وسطیٰ کے تمام ملک حمایت کرتے ہیں۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے سخت اقتصادی پابندیوں کے خطرے کے باوجود امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کوکھری کھری سنادیں اور کہہ دیا کہ ایران، امریکی گیدڑ بھبکیوں کو خاطر میں نہیں لائے گا اور امریکہ کا مقابلہ کرے گا۔ اہم بات یہ کہ خطے میں امریکی اتحادی خصوصاً اسرائیل، سعودی عرب اور بعض دوسرے ممالک نہیں چاہیں گے کہ موجودہ صورتحال میں امریکہ، ایران کو بڑی مراعات سے نوازے۔
میں نے کالم میں تجویز کیا تھا کہ امریکہ کو ایران کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے پر غور کرنا چاہئے، بالکل اُسی طرز پر جیسا اُس نے شمالی کوریا سے مذاکرات کے ضمن میں اختیار کی تھی۔ میں نے ا پنا یہ آرٹیکل صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو بھی ارسال کیا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ امریکہ خطے میں اپنے سٹریٹجک اتحادیوں کی ناراضی سے بچنے کے لئے ایران سے علانیہ مذاکرات سے گریزکرے۔
پیپلز پارٹی کے دور حکومت (2008-13) کے دوران میں نے ایران اورسعودی عرب کے درمیان تناﺅ ختم کرنے کے لئے مصالحت کنندہ کا کردار ادا کیا تھا۔ اُن دنوں، دونوں ملک جنگ کے دہانے پر پہنچ چکے تھے۔ ظاہر ہے کہ امریکہ نہیں چاہتا تھا کہ ایران کے ساتھ بالواسطہ یا بلاواسطہ خفیہ مذاکرات کی کسی کو ہوا بھی لگے میں نے ٹھوس اطلاعات کی بنیاد پر جان لیاکہ امریکہ سعودی حکام کو یہ یقین دلا کر جھوٹ بول رہا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات نہیں کر رہا۔ حالانکہ، وہ سوئٹزر لینڈ کی وساطت سے ایران سے خفیہ بات چیت کر رہا تھا، مگر اُس نے سعودی عرب پر ظاہر نہ ہونے دیا۔ پھر دُنیا نے دیکھا کہ سوئٹزر لینڈ کے توسط سے ایران اور امریکہ کے درمیان ”کچھ “طے پا گیا ہے۔جس پر سعودی عرب ہکا بکا ہو کر رہ گیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے اپنی اس اطلاع کو جب سعودی عرب کے مرحوم شاہ عبداللہ کے گوش گزار کیا کہ امریکہ ایران پر بمباری کرنا تو کجا وہ اُلٹا اس سے خفیہ مذاکرات کر رہا ہے اور اس کے نتیجے میں امریکہ ، ایران، معاہدہ دوستی ہونے والا ہے تو مرحوم شاہ اگرچہ بڑے اپ سیٹ ہوئے، لیکن پھر بھی اُنہیں یقین نہیں آ رہا تھا ۔ میں نے جلالتہ الملک کو یہ بھی بتایا کہ امریکہ ماضی میں بھی خفیہ مذاکرات کرتا رہا ہے اور یہی کچھ دوبارہ کر سکتا ہے۔ اگرچہ بہت جلدی نہیں کیونکہ امریکہ مسائل کے حل کے لئے کئی آپشن پیش نظر رکھتا ہے۔
اب ڈونالڈ ٹرمپ نے ایرانی صدر کو پیشکش کی ہے کہ وہ کسی بھی وقت جب وہ (ایرانی صدر) چاہیں غیر مشروط ملاقات کے لئے تیار ہیں۔ اس پیشکش نے امریکہ اور ایران کے درمیان مذاکرات کا ماحول سازگار ہونے کی اُمید پیدا کر دی ہے۔تاہم قبل ازیں ایران کی طرف سے امریکہ کو بڑا سخت اور سفارت کاری کی روایات سے عاری جواب دیا گیا تھا۔ ایران کے میجر جنرل قاسم سلیمانی نے اپنے بیان میں صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو سخت الفاظ میں خبردار کیا تھا کہ ”اگر امریکہ نے ایران پر حملہ کرنے کی جسارت کی تو پھر اُسے ایسا کرارا جواب دیا جائے گا کہ اُس کا جو کچھ بھی ہے تباہ و برباد ہو جائے گا۔ بحیثیت سپاہی میرا فرض ہے کہ میں آپ کی دھمکیوں کا جواب دوں۔ صدر (حسن روحانی) کی بجائے مجھ سے بات کرو۔ ہمارے صدر کے وقار کے منافی ہے کہ وہ تمہیں جواب دیں۔ ہم تمہارے اتنے قریب ہیں کہ جہاں آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ ذرا آﺅ تو سہی، ہم تیار ہیں۔“
میرا عاجزانہ مشورہ ہے کہ ایران کو انکار کی بجائے مذاکرات کی امریکی پیشکش قبول کر لینی چاہئے۔ ایران کو مشرق وسطیٰ میں مستقبل کے لئے پائیدار امن کے منصوبے کے ساتھ آگے بڑھنا چاہئے۔ امریکہ کو بھی سمجھ لینا چاہیے کہ مشرق وسطی میں امن صرف اسی صورت قائم ہو سکتا ہے۔ کہ خطے کے تمام سٹیک ہولڈرز ایک پیج پر لائے جائیں۔ ضروری ہے کہ سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات، ایران کم از کم مل بیٹھ کر اپنے اختلافات دور کرنے اور مسائل حل کرنے پر آمادہ ہو جائیں ۔ ایران کو بھی ان دونوں ملکوں کے خلاف سخت رویہ ترک کرنا ہوگا، کیونکہ امریکہ ایران مذاکرات کا تمام تر دارو مدار مشرق وسطی کے تمام سٹیک ہولڈرز کے اجتماعی طور پر مرتب کردہ ، جامع امن پیکج پر ہوگا، یہ ایک ایسا پیکج ہونا چاہیے جس کے اندر تمام فریقوں کی ایک دوسرے کے خلاف شکایات کے ازالے کا طریق کار موجود ہو۔
مجھے امید ہے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی یہ کوشش کامیاب ہوگی اور مشرق وسطیٰ میں مستقل اور پائیدار امن کی بحالی کی طرف پہلا قدم بھی ۔ اس میں کوئی شک نہیں ڈونلڈ ٹرمپ کو پہاڑ جتنی بڑی مشکل مہم درپیش ہے۔ لیکن اسے نتیجہ خیز بنانا نا ممکن نہیں۔ اس حوالے سے چند تجاویز پیش خدمت ہیں، امید ہے کہ ان پر عمل سے تمام فریقوں کو ایک میز پر لانے میں مدد ملے گی۔
1۔ صدر ٹرمپ، ایران کے دورے سے پہلے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کو اعتماد میں لیں ۔
2۔ سب سے پہلے تو وہ (اس خطے سے متعلق ) بنیادی ایشوز کو ہاتھ میں لیں اور ایران اور مشرق وسطی کے ملکوں کے درمیان پائے جانے والے ان مسائل کو حل کریں۔3۔ مجوزہ اجلاس میں شرکت کے لئے مڈل ایسٹ کے تمام ملکوں کے وزرائے خارجہ پر مشتمل کمشن تشکیل دیا جائے اس میں اقوام متحدہ کے سینئر ارکان مبصر کی حیثیت سے شریک ہوں ۔ امریکی وزیر خارجہ ، اس وزارتی کمشن میں کوآرڈی نیٹر کا کردار ادا کریں ۔ 4۔ مزید برآں صدر ٹرمپ کو ان تمام مراحل کی تکمیل اور وسیع مشاورت کے بعد ایران کا دورہ کرنا چاہیے۔5۔اسی طرح وہ ”افغانستان سے فوجیوں کی واپسی “ کی تقریب کابھی اہتمام کریں ، مجوزہ تقریب کو غیر معمولی حیثیت دینے کے لئے افغانستان اور پاکستان کے اعلیٰ حکام بھی شریک ہوں ۔
یوں صدر ٹرمپ اپنے اس اقدام کی بدولت نہ صرف مسلم دنیا کے دل جیت سکیں گے بلکہ اس طرح بین المذاہب ہم آہنگی کو مضبوط بنیاد فراہم کریںگے۔ انتہا پسندوں ، دہشت گردوں اور انسانیت کے دشمنوں کو بھی سخت پیغام جائے گا۔ اگر تو دونلڈ ٹرمپ ان لوگوں کو مل بیٹھنے اور باہمی معاہدے پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔ تو انہیں نہ صرف مسلم امہ کے دوست کی حیثیت حاصل ہو جائے گی بلکہ طویل عرصہ سے چلے آ رہے مسئلہ فلسطین کے حل کی راہ بھی ہموار ہو جائے گی۔ فلسطین ہمہ تن لہو لہو ہے، دنیا مجرمانہ طور پر اس خونریزی کی طرف سے آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں صدر ٹرمپ کا افغانستان سے فوج واپس بلانے کا عندیہ ، ڈرامائی تبدیلی ہے۔ وہ پہلے ہی فوجیوں کو ہدایات جاری کر چکے ہیں کہ وہ مختلف علاقوںمیں منتشر رہنے کی بجائے شہروں اور آبادیوں میں رہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ فوجی اپنے آپ کو شہروں تک ہی محدود رکھیں۔ دہشت گردی کے خلاف طالبان سے جنگ مشرقی افغانستان کی دشوار گزار پہاڑیوں میں لڑی جارہی ہے ۔یہ وقت ہی بتائے گا کہ امریکی فوجیوں کو طالبان کے مقابلے سے ہٹانا گزشتہ ہفتے قطرمیں امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کا، جنہیں فریقین نے کامیاب قرار دیا تھا، نتیجہ ہے یا کوئی اور ٹیکنیکل وجوہات ہیں۔ اگر ایسا ہوگیا تو افغانستان کے دنیا بھر میں پھیلے بہن بھائی سکھ کا سانس لیں گے۔ پاکستان امریکہ طالبان امن سمجھوتے کا سب سے بڑھ کر خیر مقدم کرے گا۔ اب وہ وقت زیادہ دور نہیں جب امریکہ کے پاس فوجیوں کی واپسی کے سوا کوئی چارا نہیں رہے گا امریکہ اس جنگ میں مزید اربوں ڈالر جھونکنے اور اپنے فوجیوں کے لاشے اٹھا اٹھا کر ان کے خاندانوں تک پہنچانے کا زیادہ متحمل نہیں ہو سکتا۔ امریکی فوجیوں کی بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کے باعث صدر ڈونلڈ ٹرمپ پرفوج واپس بلانے کے لئے دبا¶ بڑھتا جا رہا ہے اگر صدر ٹرمپ فوج واپس بلا لیتے ہیں تو اس سے ان کی عزت، وقار اور شان میں اضافہ ہوگا اور وہ پورے وثوق کے ساتھ یہ دعوی کر سکیں گے اور یہ اس امرکا ثبوت ہوگا کہ وہ بین المذاہب ہم آہنگی میں پختہ یقین رکھتے ہیں۔ اگر وہ مذکورہ بالا دوکام کر جائیں تو پھر وہ یقینا اقوام متحدہ کے ” انٹرنیشنل امن ایوارڈ “ کے مستحق ہوں گے۔ جناب صدر ٹرمپ! یہ کام کر گزریں کہ وقت کا تقاضا ہے۔ صدر ٹرمپ ، آپ اور آپ کی ٹیم کے لئے نیک خواہشات اور کامیابی کی تمنا! ( ترجمہ حفیظ الرحمن قریشی)
اہرام مصر کیلئے بھاری پتھر کیسے لائے گئے ؟ ہوشربا انکشاف
May 18, 2024 | 16:12