ریلوے کا کباڑخانہ ۔۔ وزیر ریلوے کے دعوے اور حقیقت
احمد جمال نظامی اور میاں علی افضل ۔۔۔
بیشتر ذمہ داران اور متعلقین ریلوے خاصے پرامید ہو رہے ہیں کہ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق ڈیڑھ، دو سالوں میں ریلوے کو منافع بخش ادارہ بنا دیں گے مگر سابق وفاقی وزیر ریلوے اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اس بات سے متفق نہیں جبکہ خواجہ سعد رفیق کے پاس وزارت ریلوے کا قلمدان سنبھالنے کے بعد بلاشبہ ٹیلی فون پر صحافیوں کے سوالات کے جواب دینے کا ٹائم باقی نہیں رہا، ہماری بیوروکریسی کی طرح ارکان اسمبلی وزیر شذیر بن کر ایسا ہی کیا کرتے ہیں لہٰذا خواجہ سعد رفیق جو میڈ ان میڈیا ہیں انہیں ایسا وطیرہ مبارک ہو۔ پاکستان ریلوے لائن انگریز کی طرف سے بچھائی گئی تھی، دنیا بھر میں پاکستانی ریلوے کا انفراسٹرکچر اپنی مثال آپ ہے مگر 1990-91ءمیں محکمہ ریلوے کی تباہ حالی کا سیاہ باب شروع ہو گیا تھا۔ وہ محکمہ ریلوے جس کا نعرہ تھا ریلوے کی بحالی عوام کی خوشحالی، وہ محکمہ اپنی خوشحالی اور پھر بحالی کو ترسنے لگا۔ اس وقت ریلوے کی کتابوں میں ریلوے کے پاس 465انجن ہیں۔ ان میں سے 46انجن کاغذوں میں تو ہیں مگر تباہ ہو کر کباڑ بن چکے ہیں، ان کی مشینری غائب ہو چکی ہے۔ 23ریلوے انجن زیرمرمت ہیں۔ ڈیڈانجن (جو مختلف سٹیشنوں پر ٹرینوں کے انجن فیل ہوتے ہیں، سٹیشنوں سے جا کر باقاعدہ شیڈ میں ان کی مرمت کرانی ہوتی ہے) ان کی بھی کمی نہیں۔ اس وقت جو مسافر ٹرینیں کام کر رہی ہیں ان کی تعداد 94ہے اور ان میں سے بیشتر خراب رہتی ہیں۔ گڈز ٹرین انجنوں کی تعداد 20 ہے۔ بلاسٹ ٹرین (پتھر، پہاڑیوں سے لانے والے انجن) کی تعداد 7 ہے۔ Inflective انجن جن کے پرزے نہ ہونے کی وجہ سے وہ بلاجواز کھڑے ہیں ان کی تعداد بڑھتی بڑھتی 231 ہو چکی ہے۔ شنٹنگ انجن (جو کوچز کو پلیٹ فارم سے مرمت کے لئے اور واشنگ وغیرہ کے لئے لے جاتے ہیں) ان کی تعداد 37ہے۔ گویا کہ 307ریلوے انجن رپیئرنگ اور محکمہ ریلوے کی غفلت و نااہلی کی وجوہات کے باعث کام نہیں کر رہے۔ 158جو کام کر رہے ہیں ان کو بھی روٹ اور ٹائمنگ کے طرح طرح کے مسائل درپیش ہیں۔ جیساکہ پہلے بیان کیا گیا ہے ریلوے تباہ حالی 1990-91ءمیں اس وقت شروع ہوئی جب روڈ سروس کو پروموٹ کرتے ہوئے ارکان اسمبلی کو نوازا جانے لگا جس کے باعث آج ریلوے جیسا منافع بخش ادارہ 65ارب روپے کے خسارے کا سامنا کر رہا ہے۔ اس کے 307انجن کام کے قابل نہیں۔ 198 انجن برائے نام ورکنگ پوزیشن میں ہیں، ان انجنوں میں مسافر، گڈز، شنٹنگ وغیرہ شامل ہیں جو تیل کی کمی کی وجہ سے اکثر آ¶ٹ آف آرڈر رہتے ہیں۔ ریلوے کی تباہی میں جنرل ضیاءالحق مرحوم کے دور میں وفاقی وزیر ریلوے و مواصلات لیفٹیننٹ جنرل سعید قادر نے بھی کوئی کمی باقی نہیں چھوڑی۔ سعید قادر نے ہی این ایل سی قائم کی اور ریلوے گڈز کا سارا کام این ایل سی کو دلوایا۔ جس کے بعد حکومتوں کی عدم توجہی، سرخ فیتہ، کرپشن اور سرکاری بنیادوں پر بھرتی کے علاوہ ڈی ایم جی گروپ کے لوگوں کی وجہ سے ریلوے تباہی سے بربادی کے آخری دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ خود وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اعتراف کر چکے ہیں کہ ریلوے کباڑ بن چکا ہے۔ ریلوے کی تباہی میں ڈی ایم جی گروپ کے جو لوگ ریلوے کے چیئرمین اور سیکرٹری تعینات ہوتے رہے ان کو ریلوے کی الف ب پ کا علم نہیں ہوتا تھا اور وہ کرپٹ لوگوں کے آلہ کار بنتے رہے۔ اب وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے اعلان کیا ہے وہ کرپٹ لوگوں کو لگام ڈالیں گے۔ انہوں نے ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ ملتان محمد علی راج پر جو کہ فریال تالپور کی سفارش پر ان کے علاقے نواب شاہ سے ملتان میں لگائے گئے تھے ان کو ہٹا کر انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی ہے اور اعلان کیا ہے کہ سرکاری بنیادوں پر محکمہ ریلوے میں ملازمتوں پر پابندی ہے البتہ خواجہ سعد رفیق جتنا مرضی کہیں انہیں ریلوے کی بحالی اور خوشحالی کے لئے وفاقی حکومت سے پیسے تو لینا ہی پڑیں گے۔ پاکستان ریلوے چین سے 58انجن حاصل کرنے کا معاہدہ کر چکا ہے۔ ان میں 29انجن 300ہارس پاور جبکہ 29انجن 2000ہارس پاور ہوں گے جو نومبر دسمبر 2013ءرواں سال آنا شروع ہو جائیں گے اور اگلے سال اپریل تک پہنچ کر فنکشنل کئے جا سکتے ہیں۔ ایچ جی ایم یو۔30 امریکی کمپنیوں کے ذریعے 25ریلوے انجن مغلپورہ لاہور میں درست کروائے جا رہے ہیں ان کے سپیئرپارٹس بیرون ممالک سے امپورٹ کروائے جا رہے ہیں۔ ریلوے ذرائع کے مطابق اپریل سے یہ انجن بھی ریلوے لائن پر آنا شروع ہو جائیں گے اور خالص نیت سے کام کیا جائے تو ہر ماہ اوسطاً ڈیڑھ انجن تک کی درستگی کے مراحل پورے کئے جا سکتے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق نے حال ہی میں ریلوے کے مکمل طور پر کھوکھلا ہو جانے کی بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے ریلوے کو پا¶ں پر کھڑا کرنا اپنے لئے چیلنج سمجھتا ہوں۔ ریلوے کو منافع بخش ادارہ بنا کر رہیں گے۔ اس کے ساتھ ہی خبر ہے کہ آئی پی پیز کو تیل کی سپلائی کرنے کے لئے ریلوے کی مال برداری ٹرینیں دو سے بڑھا کر تین کر دی گئی ہیں جس سے ریلوے کو یومیہ چار کروڑ 20لاکھ روپے آمدن ہو گی۔ وزارت ریلوے کے ذرائع کے مطابق یہ مال بردار گاڑیاں پاکستان سٹیٹ آئل سے تیل لے کر کراچی سے مظفرگڑھ لال پیر آئیں گی۔ ریلوے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ تیل سپلائی بڑھانے کے لئے مال گاڑیوں کی بوگیاں 9 سے بڑھا کر 24کر دی ہیں جس سے ایک مال گاڑی یومیہ 14ملین روپے ریونیو کمائے گی۔ وفاقی وزیر ریلوے کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ مال بردار گاڑیوں میں آمدنی چالیس لاکھ روپے یومیہ سے بڑھ کر ایک کروڑ چالیس لاکھ روپے ہو گئی ہے۔ فریٹ آپریشن کے لئے انجنوں کی تعداد 9 سے بڑھا کر 24کر دی گئی ہے۔ اب تک حکومت تین مال بردار گاڑیاں چلا چکی ہے جبکہ سابق وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے مجھ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریلوے مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے، ریلوے میں بہتری، خوشحالی اور اس ادارے کی مضبوطی کے لئے بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ ابھی تک وزارت ریلوے مال گاڑیاں چلانے میں ناکام ہے پھر کس طرح خواجہ سعد رفیق کہہ سکتے ہیں کہ مال گاڑیوں سے 40لاکھ یومیہ ہونے والی آمدن کو بڑھا کر ایک کروڑ 40لاکھ یومیہ کر دیا گیا ہے حالانکہ موجودہ وزارت ریلوے ایک بھی نئی مال گاڑی نہیں چلا سکی۔ شیخ رشید احمد نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ خواجہ سعد رفیق صرف بیان بازی کر رہے ہیں۔ ریلوے کی کارکردگی قطعی بہتر نہیں بنائی جا رہی۔