ہر زمانہ میر ے حُسینؓ کا ہے۔۔۔
شاہ است حُسینؓ بادشاہ است حُسین ؓ دیں است حُسینؓ دیں پناہ است حُسین سرداد نہ داد دست دَر دستِ یزید حقا کہ بنائے لا اِلٰہ است حُسین ؓتاجدارِ ختمِ نبوت، نورِ مجسم، محبوبِ خدا حضرت محمد مصطفی ﷺ اُم المومنین حضرت اُم سلمیٰ ؓ کے پاس تشریف لاتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ آج ایک فرشتہ آ رہا ہے جو آج سے پہلے کبھی نہیں آیا ۔ آقا کریمﷺ فرماتے ہیں اور کوئی نہ آئے ۔ کچھ دیر میں جنابِ حُسین ؓ دوڑتے ہوئے آتے ہیں اور روکتے روکتے اندر چلے جاتے ہیں ۔ جب آپ اُم المومنین ؓاندر تشریف لاتی ہیں تو عجیب منظر دیکھتی ہیں کہ میرے آقا کریم خاتم النبیین ﷺ اپنے حسین کو سینے سے لگائے ہوئے اشکبار ہیں۔ پوچھا ! کیا ہوا یا رسول اللہ ﷺ ؟ آپ ﷺ فرماتے ہیں وہ فرشتہ میرے حُسین ؓ کی شہادت کی خبر اور یہ کربلا کی مٹی لے کر آیا ہے اور یہ بتا کر گیا ہے کہ میرے حُسین ؓ کی شہادت پر یہ مٹی خون بن جائے گی ۔ وقت گزرتا گیا "گرہ تقدیر کو تدبیر کے ناخن کھولنے سے قاصر ہیں "۔
آقا حُسین ؓ کُوفہ والوں کے ہزاروں خطوط پر مدینہ رسول ﷺ سے روانہ ہوتے ہیں۔ جناب حضرت عباسؓ عرض کرتے ہیں آقا حُسین ؓ ہمارے قافلے کے پیچھے ایک چھوٹا قافلہ ہے جس میں ایک غلام کے ساتھ اُن کا بیٹا بھی ہے۔ ہاتھوں میں رعشہ ہے بوڑھا اتنا ہے کہ گھوڑے پر بیٹھا نہیں جا رہا ۔ جنابِ حُسین ؓ ذوالجناح کا رُخ انکی طرف موڑتے ہیں پوچھتے ہیں کیا ارادہ ہے؟ گھوڑے پہ سوار صحابی رسول ﷺ حضرت ارم غفاری ؓ عرض کرتے ہیں یا حسینؓ آپ چھوٹے تھے آپکے نانا جان خطبہ دے رہے تھے اسی دوران آپ مسجد نبوی میں تشریف لائے آپ کا کُرتہ آپکے پاﺅں تلے آیا اور آپ گِر گئے محبوبِ خدا ﷺ نے خطبہ چھوڑ دیا منبر سے اترے آپ کو گود میں اُٹھایا اور منبر پر ساتھ بٹھا لیا اور کہا کہ ان کو خوب پہچان لو یہ میرا بیٹا حسین ہے اگر یہ وطن چھوڑ رہا ہو اور تم میں سے کوئی زندہ ہو تو میرے حسین کاساتھ دینا۔
جناب حسین ؓ فرماتے ہیں آپ قافلے میں ہمارے ساتھ آجائیں آپ عرض کرتے ہیں پیارے حسینؓ آپکے ساتھ قافلے میں سیّد زادیاں ہیں اُنکے پردے کی وجہ سے میں قافلے سے فاصلے پر چلو ں گا۔ جناب حسین ؓ اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہیں جہاں آپؓ نے یہ ثابت کرنا ہے کہ یزید ظلم کا استعار ہے اور حسین ابنِ علیؓ امن کی علامت ہیں۔ اور یہ اقتدار نہیں اقدار کی جنگ ہے اس کربلا میں ثابت کرنا ہے کہ یزید جبر کا پتلا ہے اور حسین ؓ صبر کے پیکر ہیں جناب حسینؓ حق و صداقت کا نشان ہیں اور کربلا کے تپتے ریگزار وںمیں حسینی یزیدیوں کے سامنے آ کر دنیا کو یہ بتا جائیں گے کہ کائنات کے سارے سجدوں پہ بھاری ہے اک سجدہ حسین ؓ کا ۔
افضل ہے کُل جہاں سے گھرانہ حسین ؓکا نبیوں کا تاجدار ہے نانا حسین ؓ کا اک پل کی تھی بس حکومت یزید کی صدیاں حسینؓ کی ہیں زمانہ حسینؓ کا اور پھر مٹی میں مل گئے ارادے یزید کے لہرا رہا ہے آج بھی پرچم حُسینؓ کا اور وقت نے ثابت کر دیا کہ دریا کے کنارے پانی پینے والے مر گئے اور پیاسے زندہ ہیں اور رہیں گے ۔ میدانِ کر بلا میں حسین ؓ کے نانا کا کلمہ پڑھنے والے گلستانِ زہرہ پر تلوار تیر اور خنجر چلانے کیلئے بے تاب ہیں میں ہمیشہ سوچتا ہوں کہ نورِ خدا کو تڑپانے والے طائف میں پتھر مارنے والوں سے بڑے ظالم ہیں کیوں کہ طائف والوں نے کلمہ نہیں پڑھا تھا ۔یہ تو کلمہ پڑھ کر کلمے کو خنجروں تیروں اور تلواروں سے کاٹ رہے تھے اور ان منافقوں اور مرتدوں کے تیروں سے ننھا علی اصغر بھی محفوظ نہیں رہا۔
جنابِ اکبر وقاسم کی شہادت کے بعد پیارے پیارے ننھے منے علی اصغر بھی بیتاب تھے پیاس کی وجہ سے نہیں بلکہ یزیدیوں کو ذوقِ شہادت میں کہہ رہے تھے کہ ایک تیر میرے گلے پر بھی مارو میں تکمیلِ کربلا میں اپنا خون آسمان کی طرف بھیج کر آج تخلیقِ آدم کے وقت ابلیس کے وعدے کو جھوٹا ثابت کر کے اپنے بابا حسینؓ کی بانہوں میں اپنے رب رحمن کے دربار میں اپنے آقا کریم ﷺ کے سامنے سرخرو ہونا چاہتا ہوں اور آنے والی نسلوں کو بھی پیغام دینا چاہتا ہوں کہ میرے بابا حسینؓ جیسی قربانی دیکر ہی نانائے حسین ؓ کے فرمان "اَلحُسَینُ مِنّی وَاَنَا مِن الحُسین"کہ حسینؓ مجھ سے اور میں حسینؓ سے ہوں ،کا علم بلند کیا جا سکتا ہے اور اس کیلئے ننھے علی اصغر کا خون ضروری ہے اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں اپنے بھائی علی اکبر سے پیچھے رہ جاﺅں ۔ بالآخر وہ گھڑیاں آپہنچیں جن کو عرشِ عظیم سے اللہ کریم اپنے ملائکہ کے ساتھ دیکھ رہے ہیں ۔ نواسہءرسول ﷺ گلستانِ نبوی کے پھولوں اور کلیوں کو کربلا سے چنتے چنتے تھک گئے ۔ بڑھاپے میںا کبر ، قاسم کو اُٹھانا آسان نہیں ہے صاحبِ دِل اولاد والو۔ اور اب جنابِ علی اصغر کے گلے میں تیر پیوست ہے اور امام عالی مقام انھیں میدان سے خیمے تک لارہے ہیں اور اس میدان سے خیمے تک کے سفر میں ان چند لمحوں میں ہی غم کی شدت سے آپکی داڑھی کے بال سفید ہو جاتے ہیں ۔
آج گلستانِ زہرہ کو آپ کے بابا کا کلمہ پڑھنے والے اس طرح نوچ رہے تھے کہ آسمان خون کے آنسو رو رہا تھا اب سوائے بیمار زین العابدین کے کوئی نہیں بچا تھا ۔ اب شہنشاہِ شہدا¿ نے یزیدیت کو ہمیشہ کیلئے دفن کرنے کیلئے میدانِ کربلا میں اترنا تھا۔ چشمِ فلک نے ایسا منظر کب دیکھا ہوگا جب بابا ۔ بابا حسین۔ آقا۔ آقا حسین کہنے والے جنابِ علیؓ کے بچے اپنے بازو اور سر کٹوا کر کربلا کی سرزمین کو اپنے خون سے سیراب کر چکے تھے ابھی پاک جسموں میں تیر پیوستہ ہیں اُدھر جناب حسین ؓ گھوڑے پر سوار ہو کر اپنے نانا سے کیا ہوا وعدہ نبھانے کیلئے تیار ہیں آپ نے سب کو تیار کر کے میدانِ کارزار میں بھیجا مگر آپ کو اب گھوڑے پر سوار کرنے والا کوئی نہیں تھا ۔ میرے آقا حسینؓ کبھی بی بی شہربانو کبھی اُم رباب کو دلاسہ دیتے ہیں ۔ اور پھر سیّدہ زینب ؓ کو صبر کی تلقین کرتے ہیں کہ زینب میرے بعد اس ذمہ داری کو سنبھالنا ہے ۔ اب شہداءاعظم کو جنابِ علی ؓ کی بیٹی گھوڑے پر سوار کرتی ہیں جناب حسین ؓ اتمامِ حجت کیلئے آخری خطبہ دیتے ہیں مگر یزیدی فوج ابنِ زیاد خنزیر کی قیادت میں ہر صورت آپ کے خون کے پیاسے تھے ۔
71لاشے اپنے کلیجے پر لیے علی ؓ کا شیر یزیدیوں پر ٹوٹتا ہے جدھر جاتا ہے گردنیں کٹ رہی ہیں منکروں منافقوں مرتدوں کی یزیدی فوج علی کے شیر کا مقابلہ نہیں کر پا رہی آخر کار تیروں کی بوچھاڑ ہوتی ہے میرے حسین ؓ گھوڑے کی زین سے فرشِ زمین پر آتے ہوئے آہ بھی نہیں کرتے بلکہ کہتے ہیں اللہ حُسین تیری تقدیر پر راضی ہے تو بھی حُسین پر راضی ہو جا۔ (جاری)
جنابِ حسینؓکے جسم پاک پر 32تلوار34نیزے کے زخم تھے ۔ وقت نماز ہے سر سجدے میں جاتا ہے ۔ شمر سجدے میں نواسہ رسول ﷺ علیؓ کے بیٹے سیّدہ فاطمہ الزہرہ کے پھول پر وار کرتا ہے ۔ علی کی بیٹی دیکھ رہی ہیں بھائی کا سر نیزے پر چڑھا دیا جاتا ہے ۔ ابن سعد اور شمر خیموں میں داخل ہو کر پاک بیبیوں کی چادریں کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ علی ؓ کی بیٹی دھاڑتی ہیں ظالمو ہمارے رکھوالے چلے گئے تمھیں پتہ نہیں ہم نبیﷺ کی بیٹیاں ہیں شہیدوں کے سر نیزوں پر اور پاک بیبیو ں کو قیدی بنا کر اونٹوں پر باندھ دیا جاتا ہے ۔
حضرت شہر بانو، حضرت زین العابدین اور حضرت سیّدہ زینب ؓ کو ایک اونٹ پر باندھا جاتا ہے جب قافلہ چلتا ہے تو حضرت زینب ؓ امام حسینؓ کی لاش پر کھڑی ہو کر مدینے کی طرف آقا رسول ﷺ سے فریاد کرتی ہیں ۔ یا رسول اللہ ﷺ یہ دیکھیں آپکا حسین ریت پر پڑا ہے بدن سے کپڑے اتار لیے گئے ہوائیں خاک اُڑا رہی ہیں نانا دیکھیں آپکی بیٹیوں کے ہاتھ باندھ دیے گئے ہیں ۔ راستے میں رات کو قافلہ رکتا ہے رات کے اندھیرے میں ایک عورت کھانا لاتی ہے کہتی میں کبھی سیّدہ فاطمہ ؓ کی خادمہ تھی اس وقت سیّدہ کی گود میں 6ماہ کی بچی تھی جسے زینب کہا کرتے تھے جناب زینب ؓ نے کہا امّاں پہچانتی ہو وہ زینب میں ہی ہوں ۔
ادھر مدینہ میں امّ سلمیٰ ؓ خواب دیکھتی ہیں کہ میرے آقا کریم ﷺ تشریف لائے ہیں ۔ چہرہ اقدس پر دھول پڑی ہے آنکھیں آنسوﺅں سے بھری ہیں سر پر امامہ نہیں تھاگریبان چاک تھا۔اُم سلمیٰ ؓ پوچھتی ہیں یا رسول اللہ ﷺ کیا ہوا ۔ آقا کریم ﷺ فرماتے ہیں میں سارا دن کربلا میں تھا میرے حسین کو کربلا میں بھوکا پیاسا شہید کر دیا گیا۔ اُم سلمیٰ اٹھ کر دیکھتی ہیں کہ بوتل پر پڑی ہوئی مٹی جو فرشتہ لے کر آیا تھا خون بن گئی ہے اور مدینہ میں شور اٹھ گیا لوگو مدینہ اُجاڑ دیا گیا ہے نواسہ رسولﷺ کو شہید کر دیا گیا ہے ۔
آدم کی پوری نسل پہ احسان کون تھا جس پر خدا کو ناز وہ انسان کون تھا کنبے کے ساتھ دین پر قربان کون تھا نوکِ سنّہ پر قاری قرآن کون تھا
اے کربلا بتا تیرا مہمان کون تھا بس یا حسینؓ۔ بس یا حسینؓ۔ بس یا حسین ؓ۔
اس لیے آج ہر ایک زبان پر جاری ہے کہ : ہر زمانہ میرے حسینؓ کا ہے ۔
جس کی خاطر کائنات بنی ایسا نانا میرے حسینؓ کا ہے کوئی پوچھے یہ دور کس کا ہے تم بتانا میرے حسینؓ کا ہے ہر زما نہ میرے حسین ؓ کا ہے