مکرمی! محترمہ نصرت بھٹو اپنے خاوند اور بچوں کی جدائی اور جنرل ضیاءالحق کے دور میں جمہوریت کیلئے جدوجہد کے دوران شدید دماغی اور جسمانی اذیتوں سے دوچار ہوئیں جس سے ان کی صحت تباہ ہو گئی اور وہ ایک لمبے عرصے تک دوبئی میں بے ہوشی کی حالت میں موت و زندگی کی کشمکش میں مبتلا رہیں لیکن انہوں نے ایک بیوی اور ماں ہونے کے حوالے سے جس جہد کی بنیاد ڈالی وہ پاکستان پیپلز پارٹی اور ان کے خاندان کے افراد کیلئے مثلِ راہ کا درجہ رکھتی ہے۔ اب جبکہ بھٹو خاندان کی تیسری نسل سیاست کے میدان میں آ چکی ہے تو ان کو محترمہ نصرت بھٹو کی جمہوریت کیلئے قربانیوں کو مدنظر رکھ کر ملک میں حقیقی جمہوریت کیلئے جدوجہد کرنا چاہئے کیونکہ بدقسمتی سے بھٹو خاندان اس وقت مختلف دھڑوں میں بٹا ہوا ہے اور جب تک وہ اپنے اختلافات مٹا کر مل کر صاف ستھری سیاست کی روایت قائم نہیں کرتے اس وقت تک ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ نصرت بھٹو کا ملک میں جمہوریت کے نفاذ کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔(بریگیڈئر (ر) محمود الحسن سید)
جس کی لاٹھی اس کی بھینس
مکرمی! لیبیا کے خلاف مغربی ممالک کا طاقت کا اندھا دھند استعمال تیسری دنیا اور خصوصی طور پر مسلمان ممالک کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ طاقت کے استعمال کی ایک غیر قانونی روایت قائم کر دی گئی جس کے دہرائے جانے کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ علاوہ ازیں لیبیا میں نیٹو افواج کے حملے سے یہ بات بھی عیاں ہو گئی کہ 21 ویں صدی میں بھی تمام ترقی کے باوجود جنگل کا قانون نافذ ہے اور اب بھی غیر ترقی یافتہ دور کی طرح ”جس کی لاٹھی اس کی بھینس“ کا اصول کارفرما ہے۔ اس سلسلے میں غیر مغربی طاقتوں اور خاص طور پر عرب لیگ اور او آئی سی کا کردار نہایت حوصلہ شکن اور قابل مذمت بھی ہے۔ اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ رویہ او اے یو یعنی افریقی اتحاد کی تنظیم کا ہے جس نے اس سانحہ کے بارے میں خاموشی اختیار کئے رکھی۔(ایم ایچ سید - گوجرانوالہ)
جس کی لاٹھی اس کی بھینس
مکرمی! لیبیا کے خلاف مغربی ممالک کا طاقت کا اندھا دھند استعمال تیسری دنیا اور خصوصی طور پر مسلمان ممالک کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ طاقت کے استعمال کی ایک غیر قانونی روایت قائم کر دی گئی جس کے دہرائے جانے کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ علاوہ ازیں لیبیا میں نیٹو افواج کے حملے سے یہ بات بھی عیاں ہو گئی کہ 21 ویں صدی میں بھی تمام ترقی کے باوجود جنگل کا قانون نافذ ہے اور اب بھی غیر ترقی یافتہ دور کی طرح ”جس کی لاٹھی اس کی بھینس“ کا اصول کارفرما ہے۔ اس سلسلے میں غیر مغربی طاقتوں اور خاص طور پر عرب لیگ اور او آئی سی کا کردار نہایت حوصلہ شکن اور قابل مذمت بھی ہے۔ اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ رویہ او اے یو یعنی افریقی اتحاد کی تنظیم کا ہے جس نے اس سانحہ کے بارے میں خاموشی اختیار کئے رکھی۔(ایم ایچ سید - گوجرانوالہ)