پیر، 24 ذوالحج ، 1445ھ،یکم جولائی 2024ء

مکان کے تنازعہ پر دیور نے بیوہ بھابھی اور بھتیجی کو دیوار میں چنوا دیا۔ 
یہ کسی مغل بادشاہ کے دور کی کہانی نہیں جو انارکلی کے نام سے آج تک مشہور ہے۔ یہ اس جدید دور میں ہونے والے بھیانک ظلم کی کہانی ہے جو حیدر آباد میں لکھی گئی جہاں ایک ظالم دیور نے جائیداد کے تنازعہ پر اپنی بیوہ بھابھی اور نوجوان بھتیجی کو کمرے میں بند کر کے اس کے آگے دیوار چنوا دی۔ پہلے دور میں مخالفین کو زندہ دیوار میں چنوا دیا جاتا تھا۔ کئی ظالم تو اینٹوں کی جگہ زندہ انسانوں کو گاڑھ کر دیوار بنائی جاتی تھی۔ ایسی کئی دیواریں آج بھی دیدہ عبرت نگاہ ہیں۔ یہ معاملہ تو چلیں دشمنوں کے ساتھ ہوتا تھا مگر یہ ظلم جو حیدر آباد میں ہوا ہے، اس کی وجہ وہی زن زر تے زمین والی ہی بنی ہے۔ ظالم دیور نے اپنی بیوہ بھابھی اور یتیم بھتیجی کو جائیداد کے تنازعہ پر کمرے میں بند کر کے دروازے پر دیوار بنا دی۔ یوں دونوں ماں بیٹی 12 گھنٹے اس قبر نما کمرے میں بند ہو گئے۔ یہ تو بھلا ہو اس خدا ترس کا کہ جس نے اس کی اطلاع کر دی اور یوں 12 گھنٹے بعد ان کو  نجات ملی۔ اب قانون نافذ کرنے والوں کا فرض ہے کہ وہ متاثرہ خاتون کی درخواست پر سخت کارروائی کریں اور مغل اعظم بن کر دیوار میں چنوانے والے کو نشان عبرت بنا دیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو وراثت اور جائیداد پر عورتوں کا حق مارتے ہیں۔
یہ تنازعہ بھی ایک مکان کا ہی تھا جس کے 3 حصے داروں میں یہ خاتون اور اس کی بیٹی بھی شامل تھی۔ اگر ہمسائے نے وقوعہ نہ دیکھا ہوتا تو خدا جانے کیا ہو جاتا۔ 
٭٭٭٭٭
فواد چودھری حامد خان اور رؤف حسن پر برس پڑے۔

محسوس ہوتا ہے کہ آج کل پی ٹی آئی میں ساون بھادوں کا سیزن چل رہا ہے۔ کہیں کارکن عمر ایوب پر برس رہے ہیں ان سے ہاتھ پائی ہو رہی ہے۔ کہیں موجودہ قیادت سے ناراض ارکان علیحدہ گروپ بنانے کی بات کر رہے ہیں۔ کئی اور رہنما اور سابق پارٹی عہدیدار بھی آج گرجنے اور برسنے کے موڈ میں آ گئے ہیں اور برسات والا ہی نہیں اولے پڑنے والا ماحول پیدا ہو گیا ہے۔ جہاں دیکھو کوئی نہ کوئی اپنی اپنی بولی بول رہا ہے۔ گرج چمک کے ساتھ بارش کا ماحول بنا رہا ہے۔ ایسے میں لے دے کر اسد قیصر ، رئوف حسن اور عمر ایوب ہی رہ جاتے ہیں جو وضاحتیں کرنے اور کارکنوں کو مطمئن کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اب فواد چودھری جو کبھی پی ٹی آئی کے گھن گرج کے ساتھ برسنے والے سب سے بڑے ترجمان تھے ، لگتا ہے ان کا بھی صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے اور وہ نام لے کر حامد خان اور رؤف حسن پر پل پڑے ہیں کہ یہ دونوں پارٹی کے سب سے بڑے دشمن ہیں انہوں نے پارٹی کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ یہ اپنے سے بڑے قد کاٹھ والے کسی رہنما کو برداشت نہیں کرتے۔ اب ان کی باتوں کا جواب وہ دونوں کیا دیتے ہیں مگر اختلافات اور اعتراضات کی یہ فضا شاید بانی کو راس نہیں آئے گی۔ وہ پہلے سے پریشان ہیں اب اور پریشان کرنے کے لیے موجودہ قیادت نے رپورٹ تیار کی ہے کہ اس وقت شیر افضل مروت کارکنوں کو ورغلا رہا ہے۔ قیادت کیخلاف یعنی عمر ایوب کے خلاف مظاہرہ بھی انہوں نے کرایا۔ جس میں عمر ایوب کی کارکنوں سے باقاعدہ ہاتھا پائی تک ہوئی۔ یوں اب بانی نے بحالت اسیری یہ مسائل بھی سلجھانے ہیں۔ وہ چاہتے تھے پارٹی والے انہیں نکالنے کیلئے یکسو ہو کر کام کریں یہاں الٹ ہر ایک اپنی اپنی لیڈری چمکانے پر تلا ہوا ہے۔ 
٭٭٭٭٭
گورنر سندھ کی طرف سے عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر لنگر کے لیے  1000 دیگیں۔
 کراچی میں عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر لنگر کی تقسیم کچھ عرصہ قبل سکیورٹی کی وجہ سے بند کر دی گئی تھی۔ اب گورنر سندھ نے ایک بار پھر وہاں لنگر کی تقسیم کی اجازت دیدی ہے۔ گزشتہ دو روز کی طرح آج تیسرے روز بھی ان کے مزار پر گورنر سندھ کی طرف سے 1000 دیگ بریانی لنگر اور شربت و پانی کی سبیل لگائی گئی۔ یوں ان کے مزار پر ایک بار پھر لنگر کی تقسیم شروع ہونے سے ہزاروں غربا اور زائرین کو کھانے پینے کی سہولت مل پائے گی۔ اب کراچی والے اتنے بھی گئے گزرے نہیں کہ گورنر کی طرف سے لنگر نہ آنے کی صورت میں یہاں لنگر کی تقسیم بند ہونے دیں گے۔ کراچی والے تو ویسے ہی صدقہ خیرات کرنے میں نمبر ون رہتے ہیں۔ وہ پہلے کی طرح اب پھر یہاں لنگر کا انتظام خود سنبھال لیں گے۔ یہ خانقاہی نظام دراصل خلق خدا کی خدمت کے لیے ہی کام کرتا ہے۔ یہاں معاشرے کے درماندہ لوگ اور معاشرے کے ستائے ہوئے لوگ آ کر پناہ لیتے ہیں۔ انہیں کھانے پینے اور رہنے کے لیے جگہ ملتی ہے۔ وہ جب تک چاہیں رہتے اور کھاتے پیتے ہیں۔ داتا گنج بخش بابا فرید ، لال شہباز قلندر کی آباد یہ خانقاہیں مخیرحضرات کے دم سے ہی آباد ہیں اور  خداترس لوگ یہاں کھانے پینے اور رہنے کا بندوبست کرکے  نیکی کماتے ہیں۔ خلق خدا کو آرام پہنچانا ، بھوکے کو کھانا کھلانا اور پیاسے کو پانی پلانا بہت بڑی نیکی ہے۔ اسی لیے کراچی میں جگہ جگہ سبیلیں اور لنگر خانے چلتے ہیں اور ہزاروں افراد اس سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ 
٭٭٭٭
شدید بارش سے رام مندر کی چھت ٹپکنے لگی تہہ خانے میں پانی بھر گیا۔ 
نریندر مودی کو رام مندر کی تعمیر کچھ زیادہ راس نہیں آئی۔ نہ تو وہ الیکشن میں اب کی بار 400 پار کا خواب پورا کر سکے نہ ان کی مذہبی شدت پسندی کی آگ بھڑکانے کی پالیسیاں ان کے کام آ سکیں۔ جیت تو گئے مگر 
کچھ میں ہی جانتا ہوں جو مجھ پر گزر گئی 
دنیا تو لطف لے گی میرے واقعات سے
والا حال سب دیکھ رہے ہیں۔ سماج وادی پارٹی کے ایک رہنما نے قدیم مذہبی کتابوں کا حوالہ دے کر اپنے گزشتہ روز کے بیان میں کہا کہ ’’ہم نے پہلے ہی کہا تھا کہ مودی الیکشن کی وجہ سے رام مندر کے افتتاح میں جلد بازی کر رہا ہے۔ ورنہ مذہبی کتب وید اور پوران کے مطابق نامکمل مندر میں مورتی رکھنے کی ممانعت ہے۔‘‘ سو اب نتیجہ بھگت رہے ہیں مودی۔ گزشتہ روز سے دہلی اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں شدید بارش ہو رہی ہے جس کی وجہ سے شہر ڈوب گیا ہے۔ ساون کی بارش نے صرف شہر ہی نہیں رام مندر کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ اس کے تہہ خانے میں پانی داخل ہو گیا جو فرش کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ اسی طرح اس کی چھت ٹپکنے لگ گئی ہے۔ اور  رام مندر کو جانے والی سڑک پر گہرے گڑھے پڑ گئے ہیں۔ کیایہ بے گناہ شہید کی گئی بابری مسجد اور مسلمانوں پر مظالم پر قدرت کی ناراضگی کا اظہار تو نہیں کہ اربوں روپے خرچ کر کے بنایا جانے والا  مندر پہلی بارش بھی نہ سہہ سکا اور اسے نقصان ہو رہا ہے۔ بابری مسجد تو پھر بھی 500 سال تک صحیح سلامت رہی۔ 
٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن