زندگی وطن کیلئے وقف کر چکا : ڈاکٹر مجید نظامی‘ امریکہ کی ڈکٹیشن قبول نہیں : سعد رفیق
زندگی وطن کیلئے وقف کر چکا : ڈاکٹر مجید نظامی‘ امریکہ کی ڈکٹیشن قبول نہیں : سعد رفیق
لاہور (خصوصی رپورٹر) تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن، ممتاز صحافی و چیئرمین نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ ڈاکٹر مجید نظامی نے کہا ہے ادریس جانباز جیسے بچوں کو مائیں خال خال ہی جنم دیتی ہیں‘ وہ صحیح معنوں میں جانباز ثابت ہوئے۔ میں اپنی زندگی اپنے وطن کیلئے وقف کرچکا ہوں‘ میں نے ہمیشہ آزاد صحافت کی ہے اور اپنا فرض نہایت ایمانداری کے ساتھ انجام دے رہا ہوں۔ اس ملک کو قائداعظمؒ اور علامہ محمد اقبالؒ کا پاکستان بنانے کیلئے اپناکردار ادا کریں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایوان کارکنان تحریک پاکستان، شاہراہ قائداعظمؒ لاہور میں ممتاز مسلم لیگی کارکن محمد ادریس جانباز مرحوم کی 11 ویں برسی کے سلسلے میں منعقدہ خصوصی نشست کے دوران اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔ اس نشست کے مہمان خاص وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق تھے۔ نشست کا اہتمام نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ نے تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے اشتراک سے کیا تھا۔ پروگرام کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک نعت رسول مقبول اور قومی ترانے سے ہوا۔ قاری امجد علی نے تلاوت کلام پاک کی سعادت حاصل کی جبکہ معروف نعت خواں سرور حسین نقشبندی نے بارگاہ رسالتماب میں ہدیہ¿ عقیدت پیش کیا۔ پروگرام کی نظامت کے فرائض سید عابد حسین شاہ نے انجام دئیے۔ ڈاکٹر مجید نظامی نے کہا میرے بڑے بھائی حمید نظامی مرحوم شعبہ¿ صحافت کی وجہ سے 47 سال کی عمر میں ہی اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے‘ اسی طرح ادریس جانباز بھی جوانی میں ہی اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے۔ ادریس جانباز جیسے بچوں کو مائیں خال خال ہی جنم دیتی ہیں۔ وہ صحیح معنوں میں جانباز ثابت ہوئے اور اس مجلس میں لوگوں کی کثیر تعداد کو دیکھ کر یقین ہوگیا ہے وہ ہر دلعزیز جانباز نوجوان تھے۔ ادریس جانباز کا انتقال ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ہوا تھا جبکہ حمید نظامی مرحوم بھی ہارٹ اٹیک کا شکار ہوئے۔ میں بھی تین بار بائی پاس کرا چکا ہوں اور ایک بار بائی پاس کا مطلب ہے آپ کلینکلی ڈیڈ ہوگئے ہیں، اس لحاظ سے یہ میری چوتھی زندگی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے صحت دی، میری آپ سے گزارش ہے پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی جمہوری مملکت بنائیں۔ اس ملک کو قائداعظمؒ اور علامہ محمد اقبالؒ کا پاکستان بنانے کیلئے اپناکردار ادا کریں اور ادریس جانباز کی بھی یہی خواہش تھی۔ میری دعا ہے اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا میں نے ادریس جانباز کے ساتھ کئی ماہ و سال گزارے ہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب غلام حیدر وائیں مسلم لیگ کی تنظیم سازی میں لگے ہوئے تھے اور پارٹی کے اندر بھی ایک کشمکش پائی جاتی تھی جبکہ بہت سے سیاسی کارکن اپنے مستقبل کی بازی ہار گئے تھے۔ غلام حیدر وائیں آمریت کے نقار خانے میں حق کی آواز بلند کرتے رہے اور ادریس جانباز ان کے ساتھی تھے۔ ادریس جانباز شریف النفس انسان تھے۔ وہ مسلم لیگ میں نئے آنیوالوں اورپرانی قیادت کے درمیان پل کا کام کرتے تھے۔ فوجی آمریتوں کے کئی گناہ ہیں‘ ان میں سے ایک بڑا گناہ یہ ہے کہ آمروں نے پاکستان کی مادر جماعت مسلم لیگ اور اس کے نظریے کی بار بار بے حرمتی کی۔ آمروں نے جبر کے نتیجہ میں کنگز پارٹی بنانے کیلئے مسلم لیگ کو بار بار منتشرکیا اور منزل کو گہنایا گیا۔ ہمارا المیہ یہ ہے مسلم لیگ کو بار بار لوٹا گیا حالانکہ مسلم لیگ ایک تحریک کا نام تھا۔ قائداعظمؒ نے مسلم لیگ کو ایک عقیدہ اور نظریہ بنادیا تھا لیکن سیاسی بونوں اور مارشل لاﺅں کے پیدا کردہ مصنوعی لیڈروں نے اسے کئی بار استعمال کیا۔ مسلم لیگ اور پاکستان لازم وملزوم ہیں۔ میں کہتا ہوں جو مسلم لیگ اقتدار کیلئے اپنا سر جھکا دے وہ اصل مسلم لیگ نہیں۔ پارٹی کے بننے یا بگڑنے میں سیاسی کارکن برابر کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ افسوس کی بات ہے جب پارٹی پر برا وقت آتا ہے تو کارکنوں کی بڑی تعداد بھاگ جاتی ہے اور حالات صحیح ہونے پر واپس آجاتی ہے۔ سیاسی جماعتوں پر اچھا برا وقت آتا رہتا تھا لیکن کارکنوں کو پارٹی نہیں چھوڑنی چاہئے‘ آپ اپنی بات جماعت کے اندر کرتے رہیں لیکن اپنے طبقے سے بے وفائی نہ کریں۔ میں نے بھی بطور کارکن لاہور کی دیواروں پر اپنی جماعت کے پوسٹر لگائے ہیں۔ ایک سیاسی کارکن کو کبھی بھی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہی اس کا اصل سرمایہ ہوتے ہیں، ہم اصولوں کو پامال کرتے اور پھر نوحہ کناں بھی ہوتے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ سمیت ملک کی تمام سیاسی جماعتوں میں اصلاحات کی ضرورت ہے‘ ہمیں اپنی اصلاح کرنی چاہئے۔ پاکستان بھی ایک سیاسی تحریک کے نتیجہ میں سیاسی کارکنوں نے ہی قائم کیا تھا۔ ادریس جانباز جمہوری سیاست کا روشن باب اورایسے مینارہ¿ نور تھے جن سے ہمیشہ کرنیں نکلتی ہیں۔ جس جماعت میں ادریس جانباز جیسے کارکن موجود ہوں وہ ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔ ہمیں پاکستان کے مستقبل سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بے شمار نعمتوں سے نواز رکھا ہے۔ ہمارا ملک جغرافیائی اعتبار سے انتہائی اہم جگہ پر واقع ہے اور ہم نے اپنی اس حیثیت کا استعمال نہایت سمجھداری سے کرنا ہے۔ آج پاکستان کی قیادت تمام مسائل حل کرنے کیلئے پر عزم ہے اور اس کیلئے ہم اپنی تمام صلاحیتیں بروئے کار لارہے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم اٹھارہ کروڑ سے زائد افرادی قوت رکھنے والی دنیا کی ایک بڑی ریاست ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے ماضی میں اداروں کو بیدردی سے لوٹا گیا لیکن آپ یقین رکھیں پاکستان آج محفوظ ہاتھوں میں ہے اور ایک ایسی قیادت حکمران ہے جس کی پاکستان کے ساتھ اٹوٹ کمٹمنٹ ہے۔ ہمیں ہر بات پر جذباتی ہونے یا لڑنے کی ضرورت نہیں۔ اب اسٹیبلشمنٹ کی باتیں نہیں چلیں گی۔ میں آپ سے پوچھتاہوں کیا قائداعظمؒ توسیع پسندانہ عزائم رکھتے تھے؟ قائداعظمؒ پاکستان کو ایک ایسا اسلامی فلاحی جمہوری ملک بنانا چاہتے تھے جہاں اقلیتوں کو بھی تمام حقوق حاصل ہوں۔ ہمارے ملک میں علمائے کرام نے بھرپور سیاسی جدوجہد کی لیکن بندوق کے زور پر کبھی قبضہ کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ ہم مذاکرات کے حامی ہیں لیکن کسی کی ڈکٹیشن قبول نہیں کریں گے۔ ہم امریکہ کی ڈکٹیشن بھی قبول نہیں کریں گے۔ ہمارا ارادہ تھا ہم کشکول توڑ دیں گے لیکن جب ہم اقتدار میں آئے اور ملکی خزانے کا حال دیکھا تو وہاں تنخواہیں دینے کیلئے رقم نہیں تھی، ان حالات میں ہم قرض نہ لیتے تو اور کیا کرتے۔ آج دھرنوں سے نہیں بلکہ تدبر اور فہم و فراست سے مسائل حل کرنا ہوں گے۔ پارلیمنٹ بہترین فورم ہے جہاں آکر آپ اپنی بات کریں لیکن سڑکیں بند کر کے ملک کو نہیں چلایا جا سکتا۔ آج پاپولر پالیٹکس کا دور گزر چکا ہے۔ہر وقت بڑھکیں لگانے کی ضرورت نہیں‘ اب لوگ سمجھدار ہو چکے ہیں۔ ہمیں باتوں کی بجائے خود انحصاری حاصل کرنا ہو گی۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کیلئے دھرنوں کی نہیں بلکہ علم، ٹیکنالوجی اورجدید ذرائع اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ پاکستانی قیادت عوامی مسائل کے حل کیلئے بھرپور کاوشیں کررہی ہے اور ہمیں یقین ہے اس کا نتیجہ ضرور نکلے گا۔ آج ہمیں پاکستان کو اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنے کیلئے جدوجہد کرنا ہو گی۔ مجھے یقین ہے پاکستان جیتے گا اور دشمن ناکام ہوں گے۔ ستائیس رمضان المبارک کی مبارک شب معرض وجود میں آنیوالا یہ ملک انشاءاللہ عظیم ترین ملک بنے گا۔ مرحوم کے صاحبزادے ایس پی سول لائن ڈویژن گوجرانوالہ شعیب خرم جانباز نے کہا میں نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ اور ڈاکٹر مجید نظامی کا بے حد مشکور ہوں کہ انہوں نے میرے والد کی یاد میں تقریب کا انعقاد کیا۔ میرے والد قائداعظمؒ کے سچے پیروکار اورحقیقی معنوں میں مسلم لیگ اور پاکستان کے جانباز تھے۔ سابق سیکرٹری سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اسلم زار ایڈووکیٹ نے کہا یہ کارکنوں کی مجلس ہے، کارکن کسی لیڈر کا محتاج نہیں ہوتا بلکہ لیڈر کارکنوں کے محتاج ہوتے ہیں۔ ممبر صوبائی اسمبلی رانا محمد ارشد نے کہا ادریس جانباز پکے مسلم لیگی تھے، آپ زندگی بھر پاکستان اور مسلم لیگ کو مضبوط کرنے کیلئے کوشاں رہے۔ پاکستان مسلم لیگ یوتھ ونگ پنجاب کے صدر غلام حسین شاہد نے کہا ادریس جانباز جیسا شخص برسوں بعد پیدا ہوتا ہے۔ پاکستان کو حقیقی سیاسی کارکنوں کی ضرورت ہے۔ نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشید نے کہا ہم یہاں قائداعظمؒ، علامہ محمد اقبالؒ اور مادر ملتؒ و دیگر مشاہیر تحریک آزادی کی یاد منانے کے علاوہ ان کارکنوں کو بھی یاد کرتے ہیں جنہوں نے پاکستان اور پاکستان مسلم لیگ کیلئے بے پناہ قربانیاں دیں۔ انہی کارکنوں میں ایک قابل قدر نام ادریس جانباز کا بھی ہے۔ وہ اول و آخر مسلم لیگی اور سچے پاکستانی تھے۔ ایسے کارکن جماعتوں کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ حافظ شفیق الرحمن نے کہا ادریس جانباز آج بھی ہمارے دلوں، جذبوں اور خیالات میں زندہ ہے۔ انہوں نے لوگوں کے دلوں میں گھر بنایا۔ عزیز ظفر آزاد نے کہا ادریس جانباز کا طرز فکر و سوچ اور رہن سہن غلام حیدر وائیں جیسا تھا۔انہوں نے مشکل ترین حالات میں بھی مسلم لیگ کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ صبا صادق ایم پی ے نے کہا ادریس جانباز ایک درویش صفت انسان تھے۔ ندیم بھٹی نے کہا ادریس جانباز محب وطن انسان تھے آپ کو علم و ادب سے بڑا لگاﺅ تھا۔ طارق اظہری نے کہا ادریس جانباز مسلم لیگ کی تنظیم سازی کیلئے غلام حیدر وائیں کے شانہ بشانہ بہت کام کیا۔ اس نشست میں جسٹس (ر) منیر احمد مغل، چودھری امجد علی جاوید، اقبال ڈار، معاذ جانباز، وقاص شہباز، عثمان ابراہیم، ثاقب اعجاز، مسلم لیگ یوتھ ونگ پنجاب کے سیکرٹری سردار خالد، چودھری خلیل ورک، سید ساجد مہدی، پیر یوسف ظفر، خالد شاکر، مرزا عبدالقیوم، سرفراز حیدر، ریاض احمد، بیگم نسیم بانو، منور جبین قادری، بیگم حامد رانا، رانا اعجاز حفیظ، سلیم چٹھہ، نور الحسن، ڈاکٹر یعقوب ضیائ، نائلہ عمر، مسلم لیگی کارکنوں، اساتذہ¿ کرام، طلبہ سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔
ڈاکٹر مجید نظامی