ہفتہ ‘ 18 ذیقعد 1433ھ 6 اکتوبر2012 ئ
نیو اکنامکس فاﺅنڈیشن نے ایک رپورٹ میں دنیا کے ایک سو 51 خوش ممالک کی فہرست میں پاکستان کو سولہویں نمبر پر رکھا ہے جبکہ بھارت 32ویں اور امریکہ ایک سو پانچویں نمبر پر ہے۔
غالب کا فارمولا آخر سچ ثابت ہوا....
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
سعدی نے ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ میں نے ارادہ کیا کہ اس دنیا میں کوئی خوش بھی ہے‘ اس مشن پر نکل کر چپہ چپہ چھان مارا کوئی خوش نہ ملا‘ بالآخر تھک کر ایک شاہی محل کی فصیل کی چھاﺅں میں بیٹھ گیا۔ اندر سے قہقہوں کی آوازیں آنے لگیں۔ میں نے شکر کیا کہ شاید اس محل کے لوگ خوش ہیں‘ کسی طرح فصیل پر چڑھا اور چھپ کر اندر جھانکا تو دیکھا کہ ایک بادشاہ کو سونے کے جھولے میں دوشیزائیں جھولا جھلا رہی تھیں۔ ایک اسکے منہ میں انگور کا دانہ اور دوسری شراب کا گھونٹ اتارتی تھی اور بادشاہ مخمور و مست لطیفے سن کر لوٹ پوٹ ہو رہا تھا۔ میں نے سوچا چلو ایک شخص تو خوش نکلا۔ کسی چوبدار کی مجھ پر نظر پڑ گئی‘ پکڑ کر بادشاہ کے روبرو پیش کر دیا۔ بادشاہ نے پوچھا تمہیں ہمارے محل سرا میں اندر آنے کی جرا¿ت کیسے ہوئی؟ میں نے عرض کیا‘ جان کی پناہ پاﺅں تو عرض کروں کہ میں نے دنیا میں کسی کو خوش نہ پایا‘ آپ کو دیکھ کر اطمینان ہوا کہ ایک تو ایسی ہستی ہے جو واقعی خوش ہے۔ بادشاہ مجھے باغ کے ایک کونے میں لے گیا اور کہا‘ میں نے محبت کی شادی کی‘ بیوی بیمار ہو گئی اور صحت مند ہی نہیں ہو رہی تھی۔ میں نے اسے تسلی دی اور اپنی محبت کا یقین دلایا کہ تو نہ رہی تو میں بھی نہ رہوں گا۔ ملکہ نے کہا تم مردوں کی محبت پاک نہیں ہوتی۔ میں نے اسے یقین دلانے کیلئے جوش جذبات میں اپنی محبت کو پاک ثابت کر دکھایا۔ اور کہا اب تمہیں میری محبت کا یقین ہو گیا‘ اسکے بعد وہ بالکل روبصحت ہو چکی ہے۔ اب وہ بھی ہے‘ میں بھی‘ پاک محبت بھی ہے اور کچھ بھی نہیں۔ کہئے مجھ سے بڑھ کر رنجیدہ کون ہو گا۔ پاکستان سولہویں نمبر کا خوش ملک ہے‘ یہ اسکی اپنے حکمرانوں سے پاک محبت ہی کا نتیجہ ہے۔
٭....٭....٭....٭
یوسف رضا گیلانی کہتے ہیں‘ ایوان صدر چھوڑ دیا‘ پارلیمنٹ برائے نام ہے۔ فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں۔
میرے کچھ پر عدلیہ کچھ بیورو کریسی نے کاٹے جبکہ چیف جسٹس نے کہا ہے‘ آئی ایس آئی کی طرح ایوانِ صدر میں بھی سیاسی سیل نہیں ہونا چاہیے۔
گیلانی صاحب قبلہ یہ فرمائیے کہ آپ نے ایوان صدر چھوڑ دیا یا ایوان صدر نے آپ کو چھوڑ دیا؟ اور وہ پارلیمنٹ جسے آپ نے اپنی سب سے اونچی فصیل سمجھا تھا‘ وہ بھی برائے نام رہ گئی‘ جب آپ اتنے اکیلے تھے تو جان چھڑانے والوں کو جپھے کیوں مارے‘ حالانکہ آپ تو ذات کی کوڑھ کرلی نہ تھے‘ پھر شہتیروں کو جپھے کیوں مارے؟ اب تو ایوان صدر سے ایک ہی آواز ان کو سنائی دیگی‘ جارے جا! بلموا جارہے جا! یہ صدارتی بالم بڑے ظالم ہوتے ہیں‘ یہ پتہ گیلانی صاحب کو تب چلا جب....ع
چھاپ تلک سب چھین لی رے موسے نیناں ملائی کے
گیلانی صاحب کو ایوان صدر سے پارلیمنٹ سے عدلیہ بیوروکریسی سے اتنی گھن آنے لگی ہے تو وہ بھی فرانس چلے جائیں‘ اگر انکے بہن بہنوئی کے اخراجات‘ رہائش فرانسیسی حکومت برداشت کرتی ہے تو وہ بھی وہاں موج کرینگے۔ ویسے بھی پیرس میں ایک شام‘ ایک صدی کی خوشیوں کے برابر ہوتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی گلہ کیا ہے کہ میرے کچھ پَر عدلیہ‘ کچھ بیوروکریسی نے کاٹے۔ جو مرغا گھڑی گھڑی اڑ کر ہمسایوں کو تنگ کرے‘ اسکے پر کاٹ دیئے جاتے ہیں۔ یہ سماجی بہبود کا مسئلہ ہے اس لئے گلہ بنتا نہیں۔ البتہ انکی ٹانگیں سلامت ہیں‘ وہ چاہیں تو موسیٰ پاک شہیدؒ کے مزار تک جا کر مجاوری سنبھال سکتے ہیں۔ شاید ان کا وقت صوفی کے پہلو میں اچھا کٹ جائے۔ مرشد پاک کو وزارت عظمیٰ کے بعد ایوان صدر سے بھی باہر نکل کے احساس ہوا ہے کہ فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں‘ جاتے جاتے ایوان صدر میں جھانک تو لیں کہ سارے فیصلے کہیں اِدھر سے ہی تو نہیں ہو رہے؟ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے بھی شاید اسی تناظر میں باور کرایا ہے کہ صدر صاحب اپنے ایوان اور آئی ایس آئی کو سیاسی سیل بنانے سے پرہیز کریں۔ کیونکہ بدپرہیزی سے سیاسی ڈائریا ہو سکتا ہے۔ پھر جانا پڑیگا امریکہ علاج کرانے۔ کیونکہ علاج ”انکا“ ”انکے“ چارہ گر کے پاس نہیں۔
٭....٭....٭....٭
اوباما پہلے صدارتی مباحثے میں مٹ رومنی سے ہار گئے‘ مٹ رومنی نے کہا آپ دوبارہ آئے تو متوسط طبقہ برباد ہو جائیگا۔
امریکہ نے اپنا گھر کتنا پرامن اور جمہوری بنا رکھا ہے اور اپنا سارا کوڑا مسلمانوں کے دروازے کے سامنے پھینک دیا۔ کاش! ہمارے ہاں بھی سیاسی مباحثے ہوتے‘ امن ہوتا‘ ووٹرز باشعور ہوتے‘ بینرز کو برادریوں کو ووٹ نہ دیتے‘ ہمارے متوسط اور امریکہ کے متوسط طبقے میں اتنا ہی فرق ہے جتنا پاکستان کے امیر اور غریب میں۔ اسکے باوجود بھی مٹ رومنی نے ثابت کیا ہے کہ اوباما کی دوبارہ آمد سے متوسط طبقہ برباد ہو جائیگا حالانکہ مٹ رومنی نے یہ نہیں کہا کہ اوباما!
ترا آنا مسلمانوں کا مٹ جانا اس لئے کہ مٹ رومنی نے بھی مسلمانوں کو مٹا کر اپنے متوسط طبقے کے حالات درست کرنے کیلئے اوباما فارمولے پر عمل کرنا ہے اور یہ فارمولا ہر امریکی سربراہ کو ورثے میں ملتا ہے۔ امریکہ میں انتخابات کا موسم آنے کو ہے‘ پاکستان میں بھی انتخابات رُت کی فضا بن رہی ہے‘ ادھر وہ آئےگا‘ جو امریکیوں کے من کو بھائے گا اور ہمارے ہاں وہی سہاگن جو پیامن بھائے....ع ”ببیں تفاوت رہ ازکجا است تا بکجا“ (ذرا فرق ملاحظہ کریں کہ کہاں سے کہاں تک ہے) اوباما اور مٹ رومنی کے ناموں پر غور کیا جائے تو دونوں رنگ و آہنگ سے محروم ہیں‘ البتہ آویزش و جنگ سے معمور ہیں۔ کسی کے ایجنڈے میں سپرپاور ہونے کی جھلک نہیں‘ البتہ دھونس ضرور ہے۔ امریکہ اور پاکستان کو تبدیلی کی بہت ضرورت ہے۔ ادھر تو شاید ہی آئے لیکن امریکی ممکن ہے کوئی تبدیلی لے آئیں‘ جو وہ ابھی ظاہر نہیں کر رہے۔ ہماری سیاسی پارٹیوں کے سربراہ اپنے اپنے سنگھاسنوں پر بیٹھے انتظار میں ہیں....ع
لٹ الجھی سلجھا جا رے بالم‘ میں نہ لگاﺅں گی ہاتھ رے