پیر محمد راشد شاہ المعروف روزہ دھنی سرکارؒ
عزیز ظفر آزاد ۔۔۔
محمد بن قاسم کی دیبل پر لشکر کشی کے بعد سندھ میں پہلی مرتبہ اسلام کا باب کھلااور یہ خطہ اولیاءاللہ و صوفیا ءعظام کے فیض و برکات سے دین الٰہی کا گہوارہ نظر آنے لگا ۔ انگریز کی آمد سے قبل ٹھٹھہ اور خیر پور جیسے علاقوں میں خانقاہوں او ر مدارس کی تعداد سینکڑوں سے تجاوز کر چکی تھی جہاں علمائے حق طالبان دین کو حدیث و شریعت کے علم کے ساتھ تزکیہ نفس اور جہاد فی سبیل اللہ کی تربیت میں بھی مصروف عمل تھے ۔انہی بزرگان دین میں سید محمد بقا شاہ شہید کا شمار ہوتا ہے جو رسول پور سائید ے سے کوچ کرکے رحیم ڈنوکلہوڑا موضع فرید آباد آبسے ۔ سید بقا شاہ 1135ءمیں پیدا ہوئے اور 1198ءمیں ڈاکوﺅں کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔ دوران سفر لٹیروں نے کتب کو مال دنیا جان کر آپ پر حملہ کر دیا ۔ سید بقاشاہ کا سلسلہ نسب سید صدرالدین شاہ لکیاری اور سید علی مکی جیسے بزرگان دین کے توسل سے حضرت امام حسینؓ ؓسے جا ملتا ہے ۔حضرت سید بقاشاہ نے سید عبدالقادر خامس سے قادری اور مخدوم اسمٰعیل پریا لوی سے نقشبندی طریقت میں بیعت کی ۔حضرت سید محمد بقا شاہ کے فرزند اکبر سید محمد راشدشاہ المعروف روزہ دھنی سرکار کی پیدائش 6رمضان 1171ءکو رحیم ڈنو کلواڑا میں ہوئی ۔آپ کی ولادت پر آپ کے والد مکرم خیر و برکات کی دعا کرانے کےلئے اپنے استاد مخدوم اسمٰعیل کی طرف جا رہے تھے ۔دوسری جانب سے مخدوم صاحب حضرت بقاشاہ کی سمت چلے آئے ۔ دونوں کی ملاقات راستے میں ہوئی یہ وہ مقام ہے جہاں آج درگاہ عالیہ پیر جو گوٹھ ہے ۔ حضرت مخدوم اسمٰعیل نے صاحبزادے کو دیکھ کر پہلی نظر میں پہچان لیا اور بچے کی انگلی تھام کر دعا فرمائی اور فرمایا کہ یہ وہی بندہ خدا ہے جس کے فیض و کرم سے خطہ سندھ کا بڑا حصہ گلزار ہوجائے گا ۔ سید محمد راشد شاہ پیدائشی ولی تھے ۔ حضرت غوث الاعظم کی طرح رمضان کے مہینے میں پیداہوئے اور دن بھر شیر مادر سے پرہیز کرتے ۔ بعدازاں مغرب والدہ کا دودھ پیتے ۔ اس نسبت سے روزہ دھنی کہلائے ۔ ابتدائی تعلیم والد بزرگوار کے علاوہ میاں محمد اکرم ، حافظ زین العابدین کے ہاں حاصل کی بعد ازاں مخدوم سید بقاپر والے پھر مولانا فقیر اللہ علوی نقشبندی کے پاس شکار پور میں کچھ عرصہ سلسلہ تعلیم رہا ۔آپ نے اپنے ولی صفت والد حضرت پیر محمد بقاشاہ کے دست مبارک پر بیعت فرمائی جو نجیب الطرفین حسنی حسینی سید تھے۔حضرت سید محمد راشد شاہ ستائیس سال کی عمر میں مسند نشین ہونے کے بعد مزید چھتیس سال طریقت و شریعت کے احیائے کے لئے سرکرداں رہے۔حضرت روزہ دھنی تریسٹھ سال کی عمر میں جہان فانی سے عالم بقا کی سمت کوچ کر گئے ۔یکم شعبان کو آپ کا200واں یوم وفات منایا جاتا ہے۔