قیوم نظامی نے شفقت فرمائی کہ جیسے ہی ان کی کتاب شائع ہوئی، انہوںنے مجھے عطافرمائی مگر کتاب ایسی چیز ہے جس کا کوئی مستقل ٹکانہ نہیں ہوتا، یہ نسخہ میرے بزرگ غلام حسین تہاڑیہ مطالعے کے لئے گائوںلے گئے۔نظامی صاحب نے سمجھا کہ میں نے کتاب کو ہاتھ نہیں لگایا اور ایک نسخہ اور ہدیہ کر دیا، اب میں نے اسے سرہانے کے ساتھ رکھ لیا ہے اور روز دیکھتا ہوںکہ وہیں پڑی ہے یا سرک گئی ہے۔ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ میرا اور اس نسخے کا ساتھ برقرار رہ سکے گا کیونکہ کتاب پہلی ہی نظر میں دل میں اتر جاتی ہے۔یہ عشق کی باتیں ہیںجنہیں انسان بار بار پڑھنا چاہتا ہے اور ہر کوئی پڑھنا چاہتا ہے۔
میںکتاب پر تبصرے کے قابل نہیں کہ یہ اس پاک اور مکمل ہستی کے بارے میں ہے جس پر خدا ا ور اس کے فرشتے ہر وقت درود و سلام بھیجتے ہیں۔میں اس انسان کامل کے پائوں کی دھول پر بھی رائے دینے کے لائق نہیں ہوں ، بس کتاب کھولتا ہوں اور جستہ جستہ واقعات درج کئے دیتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ میرے اور آپ کے معمولات بھی ان کی روشنی سے منور ہو سکیں۔
دنیا کے ہر بادشاہ سے زیادہ تکریم کے لائق میرے نبی ﷺ کا گھر کیسا تھا۔قیوم نظامی نے اس کی تفصیل لکھی ہے۔مسجد کے ساتھ رسول اللہ ﷺ نے دو حجرے تعمیر کروائے۔ ہر حجرہ دس فٹ چوڑا اور پندرہ فٹ لمبا تھا،حجروں کی دیواریں کچی اینٹوں کی بنائی گئی تھیں۔ان پر کھجور کی شاخوں کی چھتیں ڈالی گئیں۔دونوں حجروں کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کے لئے کھجور کی شاخوں کو چن کر دیوار بنا دی گئی۔اور اس پر مٹی کا لیپ کر دیا گیا۔دروازے کے بجائے کمبل کے پردے لٹکائے گئے۔حجروں کی چھتیں اتنی نیچی تھیں کہ ہاتھ اٹھائیں تو چھت کو جا لگتا تھا۔
اور مسجد نبوی کا حال بھی جان لیجئے۔حضور اکرم ﷺ نے خود ایک مزدور کی طرح مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا۔ اینٹیں اور پتھرایک جگہ جمع ہو گئے تو سرکار دو عالم ﷺ نے اپنی چادر اتار دی اور خود اینٹیں اٹھانے لگے۔جب مہاجرین اور انصار نے دیکھا تو سب نے اپنی چادریں اتار کر ایک طرف رکھ دیں اور اینٹیں اور گارا اٹھا کر لاتے۔ انیٹیں اٹھانے سے حضور ﷺ کے شکم مبارک پر مٹی کی تہہ جم گئی۔۔ایک دن حضور ﷺ ایک بھاری پتھر اٹھا کر لا رہے تھے۔اسد بن حضیرؓ نے آپٖؐ سے عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ! یہ پتھر مجھے دے دیجئے۔آپٖؐ نے فرمایا: جائو کوئی اور پتھر اٹھا لائو، تم مجھ سے زیادہ اللہ کی رحمت کے محتاج نہیں۔انصار نے کچھ مال جمع کیا اور عرض کیا کہ ہم کب تک ایک چھپر کے نیچے نماز ادا کرتے رہیں گے، اسے پختہ کر لیتے ہیں۔آپ نے فرمایا: میں اپنے بھائی موسی علیہ السلام کے طرز عمل سے رو گردانی نہیں کرنا چاہتا۔ایسا چھپر کافی ہے ۔
میثاق مدینہ کی تشریح ایک مغربی مصنف جے ویل ہاسن کی زبانی کتاب میں شامل کی گئی ہے۔مدینہ کی آبادی اوس اور خزرج میں تقسیم ہو چکی تھی۔قتل عام روز کا معمول تھا۔کوئی آدمی جان کا خطرہ مول لئے بغیر گھر سے باہر نہ نکل سکتا تھا۔یہاں ایک ایسی ہستی کی ضرورت تھی جو اس لا قانونیت کا خاتمہ کرتی۔اندریں حالات مکہ سے پیغمبر ﷺتشریف لائے۔ گویا کہ آپ کو خدا ہی نے بھیجا۔خون کا رشتہ تعلق باہمی کی بنیاد کے طور پر ناکام ہو چکا تھا ، آپؐ نے اس کی جگہ عقیدے کو رکھا۔آپ اپنے ساتھ اہل ایمان کا ایک گروہ بھی لائے تھے۔آہستہ آہستہ آپؐ نے مدینے میں دولت مشترکہ کی بنیادرکھ دی۔چونکہ مدینے میں کوئی حکمران نہ تھا ، اس لئے آپ نے مذہبی حکمران کے طور پر قیادت سنبھال لی ،یوںمذہب کی قوت ایک سیاسی قوت کے طور پر سامنے آئی۔ریاست کی حاکمیت اعلیٰ ذات الہٰی قرار پائی۔اور تمام معاملات اللہ کی حاکمیت اعلیٰ کے نام پر انجام پانے لگے۔
اور اب ذکر جنگ احد کا ، میری آنکھیں خون کے آنسو روتی ہیں۔ قیوم نظامی نے اس سانحے کا ذکر یوں کیا ہے:اسلامی لشکر میں حضور ﷺ کی شہادت کی افواہ پھیل گئی جس سے مسلمان بددل ہو کر بھاگنے لگے۔چند جاں نثار آپ ﷺ کے ساتھ رہ گئے۔ایک مشرک نے آپ پر تلوار سے حملہ کیا۔جس سے آپ کا چہرہ مبارک زخمی ہو گیا۔اور دو دانت شہید ہوگئے۔اس جنگ میں ستر مسلمان شہید ہوئے اور اہل مدینہ کے پاس اتنا کپڑا نہیںتھا کہ شہدا کوکفن سے ڈھانپا جا سکتا۔اس جنگ میں حضور ﷺ کے چچا حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ نے دلیری سے لڑتے ہوئے شہادت پائی۔قریش نے ان کی لاش کو مسخ کر کے رکھ دیا۔ان کا پیٹ چاک تھا ، جگر باہر نکلا ہو ا تھا،ناک اور کان کٹے ہوئے تھے۔آپ ﷺ کو حضرت حمزہؓ کی مسخ شدہ لاش دیکھ کر انتہائی رنج ہوا ۔ اسی جنگ کے پس منظر میں یہ آیت نازل ہوئی: اور نہیں ہیں محمد ﷺ مگر ایک پیغمبر اورا ن سے قبل دوسرے پیغمبر بھی تھے جنہوںنے وفات پائی۔اور اگر یہ پیغمبر فوت ہو جائیں یا شہید ہو جائیں تو کیا تم دین سے رو گردان ہو جائو گے۔اور جنگ سے پسپائی اختیار کر لو گے۔
اب میری نظریں آخری خطبے پر مرکوز ہیں۔قیوم نظامی نے حقوق انسانی کے اس چارٹر کا ذکر بڑی تفصیل سے کیا ہے۔
آپؐ نے فرمایا،اگلے سال اور اس کے بعد پھر کبھی شاید میری تمہاری ملاقات نہ ہو سکے۔اے لوگو! تم پر ایک دوسرے کے جان ، مال اور عزت اس دن تک حرام ہیں۔ جب تم اپنے رب سے ملاقات کرو گے۔ اسی طرح یہ دن،یہ مہینہ اور یہ شہر حرام ہیں۔ اے لوگو! میرے بعد مرتد نہ ہو جانا۔کہ ایک دوسرے کے دشمن بن کر قتل کرنے لگو۔میں تم میں دو چیزیں چھوڑ چلاہوں،تم انہیں تھامے رکھو گے تو کبھی نہیں بھٹکو گے ۔ یہ آسان ہیں اور سادہ۔اللہ کی کتاب اور اس کے رسول ﷺکی سنت ۔
میرے لئے سیرت طیبہ کی کوئی کتاب حضور ﷺ کے طائف کے اذیت ناک سفر کے مطالعے کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔قیوم نظامی نے اس سفر کا احوال یوں رقم کیا ہے۔
طائف کے سرداروںنے لڑکوں کو اکسایا کہ وہ آپؐ کو تشدد کا نشانہ بنائیں۔ شہر کے غنڈوں نے آپؐ کے ٹخنوں پر اس قدر پتھر برسائے کہ آپؐ کے نعلین مبارک خون سے بھر گئے۔آپؐ کے ساتھ زید بن حارثہؓ کے بازووں اور سر پر بھی زخم آئے۔ آپؐ طائف کے باہر انگوروں کے ایک باغ میں تشریف لے گئے اور انگور کی ایک شاخ کے نیچے بیٹھ گئے۔ آپ ﷺ کا جسم مبارک زخموں سے چور تھا۔ آپؐ دعا فرمارہے تھے: اے میرے رب! میں اپنی طاقت کی ناتوانی، اپنی قوت عمل کی کمی اور لوگوں کی نگاہوں میں اپنی بے بسی کا ذکر آپ کی بارگاہ میں کرتا ہوں۔ اے رحمن اور رحیم! میں پناہ مانگتا ہوں آپ کی ذات کے نور کے ساتھ کہ جس سے تاریکیاں روشن ہو جاتی ہیں اور دنیا اور آخرت کے کام سنور جاتے ہیں۔میں آپ کی رضا طلب کرتا رہوں گایہاں تک کہ آپ راضی ہو جائیں۔ آپ کی ذات کے بغیر نہ میرے پاس کوئی طاقت ہے اور نہ قوت ہے۔
آج پھر وقت دعا ہے ۔ قیوم نظامی کی مرتب کردہ کتاب ،معمولات رسول ﷺکا مطالعہ یقینی طور پر ہمیں سہارا بخش سکتا ہے۔
پارلیمنٹ کی ’’اجنبی‘‘عمارت
May 16, 2024