دشمنی کا قرض

دشمنی کا قرض

بھارتی لالہ یہی سننا چاہتا تھا، سو اس نے سن لیا، ایک بار نہیں ، دو بار بلکہ بار بار سننے کو ملے گا۔

آرمی چیف کے یوم دفاع کے خطاب نے پاکستانیوںکا ڈھیروں کے حساب سے خون بڑھا دیا۔اور بھارتیوں کا خون خشک کر دیا۔
اس دعوے کی صداقت میںمجھے رتی بھر شک و شبہ نہیں، جنرل راحیل شریف نے جو کہا ہے ، وہ اسے۷ پورا کر کے دکھا سکتے ہیں۔اس پوزیشن میں تو ہم 1987 میں بھی تھے جب جنرل ضیاا لحق نے بھارت جا کر راجیو گاندھی کے کان میںکہا تھا کہ مہاراج! فوجیں سرحد سے پیچھے ہٹاتے ہو یا واپس جا کر نیوکلیئر بٹن دبا دوں، اور دنیا نے دیکھا کہ برا س ٹیکس کے پردے میںجس عیاری سے بھارت نے ہماری سرحدوںپر فوجیںمورچہ زن کی تھی، اسی پھرتی سے اس نے چھاﺅنیوں کی راہ لی۔2002 میں مبینہ ممبئی سانحے کا بدلہ لینے کے لئے بھارت نے ایک بار پھر جارحابہ انداز سے فوجیں سرحد پر لگا دیں،ا س کے وزیر دھمکی دے ہے تھے کہ وہ سرجیکل اسٹرائیک کر سکتے ہیں جس میں کم از کم مریدکے میں جماعت الدعوہ کے دفاتر یااسلام ا ٓباد میں آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹر کو نشانہ بنایا جا سکتا تھا مگر پاکستان نے اس ازلی دشمن کے مذموم عزائم کو خاک میں ملانے کے لئے بزن کا اشارہ دے دیا، ہمارے متوالے ہوا باز چوبیس گھنٹے فضاﺅںمیں پہرہ دینے کے لئے اڑتے رہے،حتی کی بھارتی فوج کو ایک بار پھر خاک چاٹنا پڑی اورا سنے واپسی کی راہ لی، آج 2016 گزرنے کو ہے اور پوری دنیادہشت گردی کی جنگ ہار چکی ہے جبکہ صرف پاکستان فاتحانہ انداز میںمسکرا رہا ہے۔پاک فوج کا لوہا ساری دنیا مانتی ہے مگر بھارت ہمیں ایٹمی بلیک میلنگ کا شکار کررہا ہے،ا سے زعم ہے کہ اگر پاکستان ایٹمی طاقت ہے تو یہ طاقت اس کے پاس بھی ہے، بس جیتے گا وہ جو پہل کرے گا، اور وہ پہل کے لئے پر تول رہا ہے، یہ ہے وہ خناس جو مودی کے ذہن کو خراب کر رہا ہے اور جس نے برصغیر کی ڈیڑھ ارب کی آبادی کی سلامتی کو داﺅ پر لگا رکھا ہے مگر جنرل راحیل نے ایک بار نہیں، کئی بار کہا ہے کہ جیسی جنگ چاہتے ہو، لڑ لیتے ہیں ،اب بھی انہوں نے یہی عزم دہرایا ہے کہ روایتی یا غیر روایتی ہر نوع کی جنگ کے لئے تیار ہیں۔دودن قبل انہوں نے کہا تھا کہ ہر دشمن کو پچھاڑنے کے لئے تیار ہیں۔
جنرل راحیل کی جو نئی بات میرے دل کو لگی ہے ، وہ ہے قرض چکانے کا عزم ۔ میرے ذہن میں وہ سارے قرض گھوم گئے ہیں جو ہم نے بھارتی بنیئے سے چکانے ہیں۔اس نے آزادی کے فوری بعد حیدرا ٓباد دکن اور جونا گڑھ پر قبضہ کیا، پھرا سنے کشمیر میں فوجیں اتار دیں اور جب ہمارے مجاہدین نے اس سے دست پنجہ کیا تو پنڈت نہرو نے سلامتی کونسل کے سامنے داد فریاد کی ا ور جنگ بندی کی قرارداد اس شرط پر منظور کروا لی کہ کشمیر کی قسمت کا فیصلہ آزادانہ ، غیر جانبارانہ استصواب کے ذریعے کروایا جائے گا، یہ وعدہ پورا نہیں ہوا، اب پہلا قرض یہ ہے کہ یا تو استصواب منعقد ہو یا پھر ہم اسے اسی انداز میں کشمیر سے باہر نکالیں جس طرح وہ یہاں گھس آیا تھا، اگر اسے جارحیت کا حق تھا تو ہمیںکیوںنہیں۔
قرضے کی فہرست میں پاکستان کو دو لخت کرنا بھی شامل ہے۔بھارت نے مشرقی پاکستان کے لوگوں کو ورغلایا ، انہیں دہشت گردی کی تربیت دینے کے لئے کلکتہ میں کیمپ قائم کئے، اور پھرمکتی باہنی کے دہشت گردوں کے شانہ بشانہ خود بھارتی افواج نے بھی مشرقی پاکستان پر یلغار کر دی اور بزور طاقت پاکستان کو دو لخت کر دیا، ہمیں اس سرینڈر کا بدلہ چکانا ہے۔
بھارت نے 1984 میں چوروں کی طرح سیاچین میں ان موچوں پر قبضہ کر لیا جنہیںپاک فوج سردیوں کے پیش نظر ہمیشہ چھوڑ کر نیچے اترآتی تھی، ا س محاذ پر تب سے لڑائی جاری ہے اور یہ دنیا کا بلند تریں محاذ ہے،نواز شریف نے وزیر اعظم بننے سے قبل کہا تھا کہ ہمیںاپنی فوج وہاں سے نکال لینی چاہئے مگر بھارتی آرمی چیف اڑ گیا کہ پاکستان جائے، ہم نہیں جائیں گے۔اب پاکستان کو یہ قرض بھی اتارنا ہے ۔
ایک قرض کارگل کے شہیدوںکا ہے۔انہوںنے برق رفتاری سے سیاچین کا بدلہ تو اتار لیا، جس طرح بھارت ہمارے متروکہ مورچوںمیں گھس آیا تھا،ا سی طرح ہمارے مجاہدین نے کارگل میں بھارتی متروکہ مورچے قبضے میں لے لئے اور بھارتی فوج نے اگلے موسم میں واپسی کی کوشش کی تو اسے تہہ تیغ کر دیا گیا، یہ تو ہمارے اپنے اندر کی پھوٹ تھی جس نے بھارت کو ایک ہاری ہوئی جنگ میں فتح دلوا دی۔ مگر کرنل شیر خاں نشان حیدر اور لا لک جان نشان حیدر کا خون اب بھی اس قرض کا بدلہ چکانے کا منتظر ہے۔
سندھ طاس نے پاکستان کو کشمیر کے دو دریاﺅں کے پانی کا حق دیا تھا جو وقت کے ساتھ بھارت نے ہم سے چھین لیا اور ان دریاﺅں پرا س طرح کے بند باندھ لیئے کہ ان کاسارا پانی بھارت کے استعمال میں چلا گیا ہے ا ور پاکستان ان دریاﺅں کی بوند بوند کو ترس رہا ہے۔ بھارت کی ا س آبی دہشت گردی کا بدلہ ہم نے نہ چکایا تو وہ وقت دور نہیںجب خدا نخواستہ پاکستان بنجر، بے ا ٓب و گیاہ اور ویران ریگستان میں تبدیل ہو جائے گا۔
اور حالیہ قرض کی فہرست بہت لمبی ہے، یہ ستر ہزار شہدا کے خون کا قرض ہے جو دہشت گردی کی جنگ کی نذر ہوئے اور اب کسی کو شک نہیں رہا کہ دہشت گردوں کے پیچھے بھارت اور ا سکی خفیہ ایجنسی را کا ہاتھ ہے، بھارتی وزیر اعظم نے خود اعتراف جرم کر لیا ہے اور وہ مستقبل کی دہشت گردی کے منصوبوں کو بھی عیاںکر چکا ہے جو بلوچستان، آزاد کشمیرا ور گلگت بلتستان میں شروع کئے جا ئیں گے۔
آرمی چیف نے جو کہا ، اس پر میرا آنکھیںبند کر کے ایمان ہے، ہم یہ قرض اتار سکتے ہیں ۔آج یا کل، راحیل شریف یا ان کا جانشین، نواز شریف یا ان کا جانشین ۔یہ فیصلہ قوم کو کرنا ہے۔