آج پھر 65 جیسے جذبے اور قومی اتحاد کی ضرورت ہے

آج پھر 65 جیسے جذبے اور قومی اتحاد کی ضرورت ہے

51واں یوم دفاع … دشمن جنگ ملک کے اندر لے آیا

1965ء کی جنگ میں افواج پاکستان کی شاندار کارکردگی اور قومی جوش و جذبے کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے آج 6ستمبر کو ملک بھر اور دنیا میں جہاں کہیں پاکستانی ہیں پچاسواں یوم دفاع جوش وجذبے سے منا رہے ہیں۔ سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت صوبائی دارالحکومتوں اور چھوٹے بڑے شہروں میں اس سلسلے میں تقاریب منعقد ہوں گی جن میں 1965ء کی جنگ کے شہداء اور غازیوں کو خراج عقیدت پیش کیا جائیگا۔ لاہور میں سول و فوجی حکام، سیاسی قائدین اور عوام شہداء کی یادگار باٹا پور اور بھیسن گائوں میںحاضری دینگے اور پھولوں کی چادریں چڑھائی جائیں گی۔ 1965ء کی جنگ کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی جائیگی۔شہداء کی روح کو ایصال ثواب کیلئے دعائیہ تقاریب منعقد کی جائیں گی۔ پوری قوم صبح 9 بج کر 29 منٹ پر خاموشی اختیار کریگی۔ ایک منٹ کی خاموشی سے یہ پیغام دینا ہے کہ پوری قوم متحد ہے۔ تمام نشریاتی اداروں پر ساڑھے نو بجے قومی ترانہ پیش کیا جائیگا۔
6؍ ستمبر 1965ء کو بھارتی جارحیت کے ارتکاب کی صورت میں ہم پر مسلط کی گئی جنگ میں بے شک افواج پاکستان نے ہر محاذ پر دفاع وطن کے تقاضے نبھاتے ہوئے دشمن کے دانت کھٹے کئے اور کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرتے ہوئے مکار دشمن کی افواج کو زمینی‘ فضائی اور بحری محاذوں پر منہ توڑ جواب دیکر قربانیوں کی نئی نئی اور لازوال داستانیں رقم کیں جبکہ پوری قوم سیسہ پلائی دیوار بن کر افواج پاکستان کے شانہ بشانہ ملک کی سرحدوں کی حفاظت و پاسبانی کے تقاضے نبھاتی رہی۔ اس جنگ نے ہی قوم میں ’’پاک فوج کو سلام‘‘ کا بے پایاں جذبہ پیدا کیا تھا جسکے نتیجہ میں ملک کی مسلح افواج نے اپنے سے تین گنا زیادہ دفاعی صلاحیتوں کے حامل مکار دشمن بھارت کی فوجوں کو پچھاڑ کر انہیں پسپائی پر مجبور کیا اور بھارتی لیڈر شپ اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی دہائی دیتی نظر آئی۔
اہل وطن دفاع وطن کے اس جذبے کو تازہ رکھنے اور نئے عزم و تدبر کی صف بندی کیلئے ہر سال 6؍ ستمبر کو یوم دفاع کے طور پر مناتے ہیں‘ جو حب الوطنی کا تقاضا بھی ہے۔ آج کا یوم دفاع اس لئے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ آج پھر ہمارا مکار دشمن ہماری آزادی و خودمختاری اور سالمیت کو چیلنج کرتا ہمارے خلاف نئی جنگ مسلط کرنے کی تیاریوں میں ہے اور دہشت گردی کے پیدا کردہ ہمارے اندرونی حالات کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر ہماری سالمیت پر اوچھا وار کرنے اور اپنے اکھنڈ بھارت کے عزائم پایۂ تکمیل کو پہنچانے کی سازشوں میں مصروف ہے۔
بھارت کی طرف سے پاکستان کو دھمکیاں دینے کا سلسلہ تو پرانا ہے‘ اسکی پاکستان میں مداخلت بھی کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے مگر اب اسکی طرف سے پاکستان میں مداخلت کا اعتراف بھی ہورہا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے بنگلہ دیش کے دورے کے دوران پاکستان توڑنے میں اپنے کردار کا دعویٰ کیا اور حالیہ دنوں میں وہ بلوچستان‘ گلگت‘ بلتستان اور آزاد کشمیر میں دہشت گردوں کی پشت پناہی کررہے تھے‘ جس پر انکے بقول ان علاقوں سے فون کالز کے ذریعے ان کا شکریہ ادا کیا گیا۔ بلوچستان میں علیحدگی پسند لیڈر براہمداغ بگتی نے مودی کو اس ہرزہ سرائی پر سلام پیش کیا۔
پاک فوج دہشت گردوں کیخلاف اپریشن ضرب عضب جاری رکھے ہوئے ہے‘ پاکستان نے دہشت گردی کیخلاف امریکہ کی سربراہی میں لڑی جانیوالی جنگ میں 60 ہزار انسانی جانوں بشمول پاک فوج کے چھ ہزار سپوتوں اور 106 ارب ڈالر کی معیشت کی تباہی کی صورت میں نقصان اٹھایا اور پھر یہ جنگ بھی پاکستان کے گلے پڑ گئی۔ بھارت نے ایک بار پھر موقع سے فائدہ اٹھایا اور دہشت گردوں کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے لگا۔ بلوچستان کے علیحدگی پسند اور کراچی میں امن کے دشمن پہلے ہی اسکے پے رول تھے۔ پاکستان کے بہترین مفاد کے منصوبے کالاباغ ڈیم کی مخالفت کو بھارت سپانسر کرتا ہے۔ خطے میں گیم چینجراور پاکستان کی ترقی و خوشحالی کی ضمانت کے منصوبے سی پیک پر بھارت چراغ پا ہے۔ وہ اس منصوبے کی کھل کر مخالفت کررہا ہے۔ چین پر اس منصوبے کے خاتمہ کیلئے دبائو ڈالا جارہا ہے۔ پاکستان کیخلاف زہریلے پراپیگنڈے میں اضافہ کردیا‘ اپنے پروردہ لوگوں کو پاکستان کیخلاف زہر اگلنے پر لگا دیا۔ متحدہ قومی موومنٹ کے بانی نے پاکستان توڑنے کا نعرہ بلند کردیا۔ ضرب عضب اپریشن کی کامیابیوں کو دہشت گرد اپنی مذموم کارروائیوں کو دھندلاکر دیتے ہیں۔ سیاسی اور عسکری قیادت کئی بار کہہ چکی ہے کہ بھارت دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتا اور پاکستان میں دہشت گردی کیلئے افغانستان کی سرزمین استعمال کرتا ہے۔ اسکے مصدقہ ثبوت امریکہ اور اقوام متحدہ تک پہنچا دیئے گئے ہیں۔
بھارت آج پاکستان کے ایٹمی پاور ہونے کے باعث اسکے ساتھ بارڈر پر جنگ کرنے سے قاصر ہے۔ وہ اپنی سازشوں اور ایجنٹوں کے ذریعے جنگ پاکستان کے اندر لے آیا ہے۔ ہم نے 65ء کی جنگ میں بھارت کو عبرت ناک شکست دی تھی۔ اپنے اندر آئے دشمن کو زیر اور نابود کرنا زیادہ آسان ہے۔ وہ اسی صورت ہو سکتا ہے کہ قوم ستمبر 65ء کی طرح فوج کے شانہ بشانہ ہو جائے۔ خصوصی طور پر مذہبی حلقے اپنا کردار ادا کریں۔ ان دہشت گردوں کیلئے کسی بھی پاکستانی کے دل میں نرم گوشہ نہیں ہونا چاہیے۔ کیا ان لوگوں کو مسلمان کہا جا سکتا ہے جن کے ہاتھ مسجد نبوی کی حرمت تک بھی پہنچ چکے ہیں۔ بھارت نے 65ء میں پاکستان پر حملہ کیا تو صدر ایوب نے دھاڑتے ہوئے دشمن کو للکارا تھا تو پوری قوم متحد ہو گئی تھی۔ وزیراعظم نوازشریف کو بھی چاہیے کہ پاکستان کے دشمنوں کو اسی لہجے میں جواب دیں جو دشمن نے اختیار کررکھا ہے۔ معروضی حالات سیاست دانوں سے بھی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر متحد ہونے کا تقاضا کرتے ہیں۔