’’مردان اور پٹھانکوٹ پر دہشت گردی‘‘

’’مردان اور پٹھانکوٹ پر دہشت گردی‘‘

گذشتہ سال اس خطے کیلئے ایک تاریخی اہمیت رکھتا ہے۔قوم پوری یکسوئی اور یکجہتی کے ساتھ دہشت گردوں کے خلاف اپریشن میں اتری اور سال کے اختتام ہونے تک دہشت گردوں کی پناہ گاہیں،حصار، کمانڈ نیٹ ورک،غرضیکہ انکی پورے ملک میں پھیلی ہوئی شاخیں زیادہ تر تباہ کی جا چکی ہیں ۔بچے کھچے دہشت گردوں کا انشااللّٰہ اس سال صفایا ہو جائیگا۔پوری دنیا نے ہماری کامیابیوں کا اعتراف کیا اور ہمارے مستقبل کیلئے حُسنِ ظن ظاہر کیا۔اس کی مثال ہمارے ملک میں سرمایہ کاری ،CPECپرتیزی سے کام ، افغانستان سے قریبی روابط اور نومبر تک پاکستان مخالف سرگرمیوں میں مصروف ہندوستان کا یکسر اپنے رویّے کا بدلنا ہے۔عالمی طاقتوں نے بھی پاکستان کی طرف خطرناک دباؤ کی بجائے نرم دباؤ کا رویّہ اپنالیا ہے۔25دسمبر کو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے افغانستان سے واپسی پر اچانک پاکستان کا دورہ کیا جوکم از کم عوام کیلئے تو اچانک ہی تھا۔عمومی طور پر پاکستان میں ان کے رویّے میں تبدیلی کا محتاط سا خیر مقدم کیا گیا مگر انڈیا میں اپوزیشن اور خود انکی اپنی پارٹی کے لوگ جنھوں نے پاکستان کی مخالفت کی پالیسی پر انہیں منتخب کیا تھا،ناپسندیدگی کا اظہار اور احتجاج کرتے نظر آئے۔خیر اُن کے وزٹ کے بعد کے دس دنوں جوجوکچھ ہوا اس کا تجزیاتی حساب کرنا ضروری ہے۔ سب سے پہلے تو جنرل راحیل شریف نے 27دسمبر کو افغانستان کا دورہ کیا۔صدر اشرف غنی، چیف ایگزیکٹو عبداللّٰہ عبداللّٰہ اور ملٹری لیڈر شپ سے ملے۔ یہ طے پایا کہ افغان امن کے سلسلے میں جو طالبان گروپ شامل ہونا چاہیں ان سے بات بڑھے گی اور جو بھی شدت پسند ی کا راستہ اپنائے گا ان کے خلاف مل کر ایکشن لیں گے۔ملاقات میں باہمی سکیورٹی ،انفارمیشن کا تبادلہ دہشت گردی کے خلاف مشترکہ اپریشن وغیرہ زیر بحث آئے ۔ان فیصلوں پر عمل درآمد کا طریقہ کار اور ذمہ داریاں وضع کرنے کیلئے جنوری 16ء میںپاکستان ،افغانستان ،چین اور امریکہ کے سینئر عہدیدار ملیں گے۔اس کار خیر کے آغاز کے طور پر پاک افغان فورسز کے درمیان ہاٹ لائین قائم ہو چکی ہے۔اس کے بعد دوسرا واقعہ 30دسمبر کو مردان میں نادرا آفس کے گیٹ پر خودکش حملے کی صورت میں رونماہوا جس میں ہمارے 26شہری شہید اور 56زخمی ہوئے ۔اسی دوران سعودی عرب نے ایک ہی دن میں ایک شیعہ عالم سمیت 47لوگوں کی اپنے قانون کے تحت گردن زدنی کردی جس سے ایران اور سعودی عرب کے تعلقات مسلمانوں کو بانٹنے کی حد تک کشیدہ ہو گئے ہیں۔اگرچہ اس کا افغانستان ،پاکستان امن پر زیادہ ڈائریکٹ اثر تو نہیں پڑتا مگر پاکستان شاید اس سے لا تعلق بھی نہیں رہ سکتا۔ان تمام واقعات میں سے گذشتہ چاردنوں سے جس نے طوفان اٹھا رکھا ہے وہ انڈین ائیر بیس پٹھانکوٹ پر دہشت گردوں کا حملہ ہے لہٰذااسکی تھوڑی سی تفصیل دیکھ لیتے ہیں:-
پٹھانکوٹ دہلی سے 340کلومیٹر شمال میں اپریشنل انڈین ایر بیس ہے۔یہ20,000ایکڑ رقبے پر محیط ہے جہاں اس کے مگ29طیارے اور MI-35ہیلی کاپٹر موجود رہتے ہیں۔بیس کے اندر فورسز کے علاوہ تقریباً13,000لوگ یعنی تقریباًدو سے تین ہزار فیملیز رہتی ہیں۔اطلاعات کے مطابق ان کو انٹیلیجنس اداروں نے حملے کی پیشگی وارننگ دے رکھی تھی جس کے سبب یہاں پرنیشنل سکیورٹی گارڈز(NSG) کی نفری بھی بڑھا دی گئی تھی۔لوکل دکانداروں کے بیان کے مطابق ایک دن پہلے فورسز نے بیریئر اپنے گیٹوں وغیرہ سے ہٹا کر دور چوک پر لگا دیئے اور تمام دوکانیں شام آٹھ بجے بند کروا دی گئیں ۔اس سے ایک دن پہلے ایک SP سے پولیس کی گاڑی چھینی گئی تھی جس میں بیٹھ کر انڈین وردی میں ملبوس سات دہشت گرد بیس کے رہائشی علاقے میں داخل ہو گئے۔حملے کے ایک گھنٹے کے اندر اندر انڈین میڈیا کو ’’یقین‘‘ہو گیا تھا کہ یہ پاکستان سے آئے ہوئے جیش محمد کے لوگوں کی کاروائی تھی اور دو ہفتوں سے جو مہم انہوں نے حافظ سعید صاحب کے خلاف چلا رکھی تھی اور جسکا ذکر میں اپنے یکم جنوری کے کالم میں کر چکا ہوں’’مزہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں‘‘کے مصداق ان کا میڈیا مزید زہر اگلنے لگا۔انڈیا نے 3جنوری کو اپنے تین اہلکاروں کے بدلے پانچ حملہ آورہلاک کرنے کا دعویٰ کیا باقی دو حملہ آوروں کیلئے اپریشن جاری رہا۔ 6جنوری تک بقول بھارتی وزیردفاع چھ حملہ آور ہلاک کئے جا چکے ہیں۔جبکہ ایک لفٹننٹ کرنل نرنجن اور 10اہلکار بھی مارے گئے۔ساتویں حملہ آور کیلئے اپریشن جاری ہے ۔البتہ SPگورداسپور،ایک میجراور دو جوانوں کو حملہ آوروں کی مدد کرنے کے شواہد پرحراست میں لیکر تفتیش کی جا رہی ہے۔اس عشرے کے دوران ہونے والے مندرجہ بالا واقعات کا مقصد بظاہر پاک انڈیا تعلقات کو پہلی کشیدگی پر لانا اور خطے کی امن کوششوں کو سبوتاژ کرنا ہے۔ہم نے مردان حملے کو جس کے تانے بانے افغانستان میں انڈین نیٹ ورک سے ملتے محسوس ہوتے ہیں اچھال کر ماحول خراب کرنے کی بجائے روٹین فالو اپ میں رکھا جبکہ انڈین میڈیا نے پاکستان پر الزام تراشی کی حد کردی۔جس وقت پاکستان سے پٹھانکوٹ واقعہ پر اظہارتاسّف اور مذمّت کے ساتھ ہر قسم کے تعاون کا اعلان ہو رہا تھا اور انڈین حکومت بھی تفتیش مکمل ہونے تک پاکستان پر کوئی الزام نہیں لگانا چاہتی اس دوران انڈین میڈیا میں پاکستان مخالف مہم کون چلوارہا تھا؟۔بی بی سی دہلی کا نمائندہ کشمیریوں کی طرف اشارہ کر رہا تھا اور علی گیلانی مذمّت کر رہے تھے تو پھر اسکا ذمہ دار کون ہو سکتا ہے؟۔اگر واردات کے خد وخال کا جائزہ لیں تو یہ ہمارے خلاف ہونیوالے حملوں سے بالکل مختلف ہے۔کسی بھی بیس پر حملے کا ٹارگٹ طیارے وغیرہ ہوتے ہیں رہائشی علاقہ نہیں۔پھر ایسے حملوں پر خود کش بمبار ساتھ ہوتے ہیںجو یہاں نہیں تھے۔SPسے گاڑی چھین کر دہشت گرد یا تو اسے مار دیتے یا اس وقت تک اپنے پاس رکھتے جب تک کہ مشن مکمل نہ ہو جاتا۔کس دہشت گرد کو آجتک اتنی دیر وہاں کے باسیوں نے سہارا دیا ہے۔ یہ سب تو رحم دل،نرم خُو اور انکے اپنے اپنے سے دہشت گرد لگتے ہیں۔وہ وہاں پر درجنوں علیحدگی پسند تنظیموں سے ہو سکتے ہیں یا ان شیوسینا،RSSوغیرہ سے جو پاکستان کو (خاکم بدہن )تباہ کرنے کیلئے مودی صاحب کو اس مرتبے تک لائے تھے مگر اب کچھ اپنے مفادات اور کچھ عالمی دباؤ کے تحت مودی کے پاکستان سے دوستی کی جانب بڑھنے کو یہ لوگ برداشت نہیں کرسکتے۔
ہمیں ہندوستان اور افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر رکھنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے مگر انتہائی محتاط طریقے سے کیونکہ مودی صاحب اپنے پارٹی دباؤ میں آکر کسی وقت بھی اپنی اصلیّت کی طرف لوٹ سکتے ہیں۔ان چند دنوں کے بھارتی رویّے ،جس میں حافظ سعید،مولانااظہر وغیرہ کو ان کے حوالے کرنے یا ان کے خلاف پاکستان کے اندرHot Pursuitکرنے کی انڈین ڈیمانڈ بلا جھجک کی جارہی ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ہمیں برابری کی سطح کا خود مختار ملک ہی نہیں سمجھتے۔ان حالات میں اپنے حساس ترین مقامات کے اندر سے گذرتا ہوا واہگہ طورخم راستہ دینا قومی خودکشی کے مترادف ہوگا۔راستے والی سہولت سے کم ہر جگہ پر بھارت سے محتاط تعلقات بڑھائے جا سکتے ہیں۔ہمیں ہر ہمسائے سے تعلقات بہتر رکھتے ہوئے CPECکو جلد از جلد مکمل کرنا چاہیے۔ایران عرب تنازعے کی صدیوں پرانی تاریخ ہے اور ہمیں کسی نے کوئی نقصان نہیں پہنچایا لہٰذا ہمیں تدبّر سے مصالحت کار کا رول ادا کرنا چاہیے۔ہماری کسی بھی گروپ میں شمولیت ہمارے اپنے مفادات کے خلاف ہو گی۔