رسول خداؐ نے فرما یا حسینؓ مجھ سے ہیں میں حسین ؓسے ہوں 

رسول خداؐ نے فرما یا حسینؓ مجھ سے ہیں میں حسین ؓسے ہوں 

آغا سید حامد علی شاہ موسوی 
حقا کہ بنائے لا الہ ہست حسینؓ
خداوند اس سے محبت کرتا ہے جو بھی حسینؓ سے محبت کرتا ہے، اور خداوند اس سے نفرت کرتا ہے جو حسین سے نفرت کرتا ہے
شاہ ہست حسین ؓ بادشاہ ہست حسین ؓ
 دین ہست حسینؓ دین پناہ ہست حسین ؓ
سرداد نہ داددست در دست یزید
حقا کہ بنائے لا الہ ہست حسینؓ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
یعلی ابن مرہ عامری ؓ سے روایت  ہے میں رسول خدا ؐکے ساتھ ایک دعوت پر مہمان بن کر گیا،راستے میں امام حسین ؓ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے، رسول خدا ؐنے انکے سامنے آ کر اپنے دونوں بازوؤں کو کھول دیا، لیکن وہ  ننھے امام حسین) دوڑتے ہوئے کبھی ادھر  کبھی ادھر چلے جاتے اور رسول خداؐانہیں ہنساتے رہے یہاں تک آنحضرت ؐنے امام حسین ؓپکڑ لیا، اور ان کے روئے اقدس پر بوسوں کی بارش کردی اور فرمایا:حسین ؓمجھ سے ہے اور میں حسین ؓسے ہوں، خداوند اس سے محبت کرتا ہے جو بھی حسینؓسے محبت کرتا ہو، اور خداوند اس سے نفرت کرتا ہے جو حسینؓ سے نفرت کرتا ہے، حسینؓ اسباط رسولؐ میں سے ایک سبط ہے، ان کے قاتل پر اللہ کی لعنت ہو۔
شیعہ سنی محدثین و مورخین نے لکھا کہ سبط وہ شانداردرخت ہے، جس کی جڑ ایک اور شاخیں بہت سی ہوں ۔یعقوب ؑکے بیٹے اسباط کہلاتے تھے ۔نبی کریم ؐنے امام حسین ؓکو سبط اس لئے کہاحسینؓ سے نبی کریم ؐکی نسل ہی نہیں پیغام بھی مشرق و مغرب اور وسعت ارض و سما میں پھیلا اور پھیلے گا۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب  یزید نے منبر رسول ؐ پر قابض ہونے کے بعد ایک طرف احکامات اسلامی میں تغیر و تبد ل کیا اور دوسری جانب رسالتؐ پرہرزہ سرائی کی بنی ہاشم نے (نعوذباللہ)حکومت کیلئے سارا ڈھونگ رچایا تھا،نہ فرشتہ آیا نہ وحی نازل ہوئی۔
امام حسین ؓ شریعت کے احکام میں من پسند یزیدی تبدیلیوں کی راہ میں کوہ گراں کی طرح حائل ہوگئے یزید کو للکار کر کہا کہ محمد ؐ کا حلال کیا ہوا قیامت تک حلال رہے گااور محمد ؐ کا حرام کیا ہوا قیامت تک حرام رہے اور دنیا کی کوئی طاقت میری موجودگی میں اس حرام و حلال میں تبدیلی نہیں کرسکتی۔یہ میری ذمہ داری ہے کہ ان خرابیوں کی اصلاح کروں،نیکی کا حکم دوں اور برائی سے روکوں۔
 احیائے سنت الٰہیہ کیلئے امام حسین ؓنے راہ شہادت اختیار کی اور اپنے جانثاروں و جگرگوشوں کے پاکیزہ  لہو اور نبی پاکؐ کی بہو بیٹیوں کی چادروں سے دین مصطفوی ؐ کو جاوداں کردیاحسینؓ نے دین کا بول بالا کیا کہ اپنی کٹی ہوئی گردن سے نوک نیزہ پر قرآن سنا کر اپنے ناناؐ کی صداقت کو منوالیا۔امام حسین ؓ نے ناناؐکا فرمان  میں حسینؓ سے ہوں‘ سچ کردکھایا کہ قیامت تک محمد مصطفیؐکا نام اور پیغام حسینؓ کی قربانی سے فروزاں رہے گا۔ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری نے بارگاہ حسینیت میں یوں خراج پیش کیا کہ 
شاہ ہست حسین ؓ بادشاہ ہست حسین ؓ
 دین ہست حسینؓ دین پناہ ہست حسین ؓ
سرداد نہ داددست در دست یزید
حقا کہ بنائے لا الہ ہست حسینؓ
عالم اہلسنت جلال الدین سیوطی سورہ مریم  ؑ کی تفسیرمیںیہ حدیث رقم کرتے ہیں۔ ابن عساکر نے قرہ ؓ سے روایت کیا کہ آسمان کسی پر نہیں رویا مگر یحییٰؑ بن زکریاؑ اور حسینؓ ابن علی ؓپر رویا اور اس کی سرخی اس کا رونا ہے۔(تفسیر الدر المنثور)ام المومنین ام سلمیؓ سے روایت ہے ۔جب امام حسین ؓ کربلا میں شہید ہوئے تومیں نے ایک جن کی آواز سنی جو فرزند رسول امام حسین ؓ پر نوحہ کررہا تھا (طبرانی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  ایک مشہور امریکی مورخ واشنگٹن ارونگ امام عالی مقام کے ایمان،صبر و استقامت،استقلال و پائیداری کا اعتراف کرتا ہے۔’’امام حسینؓ کیلئے ممکن تھا کہ یزید کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرکے اپنی شخصی زندگی بچالیتے لیکن امامت و رہبری کی مسؤلیت آپ کو اس بات کی اجازت نہ دیتی کہ آپ ؓ یزید کو خلیفہ کی حیثیت سے پہچانیں اور تسلیم کریں۔آپ ؓنے تیزی سے دین اسلام کو  باطل کے چنگل سے رہائی دلانے  اور خود ہر مصیبت و تکلیف  کے لئے آمادہ کرلیا۔خشک سرزمین ۔جلتے آفتاب کی چلچلاتی دھوپ میں عربستان کی جلتی ریت پر امام عالی مقام کی لافانی روح قائم ہے(سالنامہ نور دانش انجمن تبلیغات اسلامی ایران  شمارہ نمبر3صفحہ نمبر96)
مشہور جرمن مورخ موسیو ماربین رقمطراز ہے 
’’حسینؓ ابن علی ؓ نواسہ محمد ؐجو آپؐ کی دختر عظیم فاطمہ زہرا ؓکے فرزند تھے۔وہ تنہا شخص ہیں جو چودہ سو سال قبل حکومت جبرو استبداد کے مقابلہ میں اٹھ کھڑے ہوئے۔حسین ؓابن علی ؓ کا  نعرہ تھا ’’میں راہ حق میں قتل کیا جاؤنگا لیکن اپنا ہاتھ باطل کے ہاتھ میں کبھی نہیں دونگا‘‘۔آخر میں وہ لکھتا ہے کہ’’مقصد حسین ؓ ظلم و ستم کو روکنا تھا ۔ اسی غرض و غایت ، مقصود حقیقی کے لئے  امام نے تمام قلبی قوت اور ایثار و فداکاری و جانبازی کا وہ عظیم ترین مظاہرہ کیا کہ اپنی حیات کے آخری لمحات میں اپنے طفل شیر خوار  علی اصغر ؓکی بھی راہ حقانیت میں قربانی دے دی۔ امامؓنے اپنی شہادت سے اسلام کو روحانیت،نورانیت اور ایک تازہ رونق و درخشندگی سے نوازا اور امت مسلمہ کو معنویت اسلام کی طرف متوجہ کیا وہ معنویت جو عالم اسلام کی حیات کے دستور سے مٹا دی گئی تھی اور انقلاب حسینی عظیم ترین اسلامی انقلابات کا منبع و سرچشمہ بن گیا اور اس کا سلسلہ تاہنوز جاری ہے‘‘
مشہور یورپی مورخ موریس دوکبری کہتا ہے ’’اگر ہمارے مورٔخین روز عاشورکی حقیقت کو  سمجھ لیتے عاشور کونسا دن ہے تو ان عزاداریوں کو غیرضروری نہ سمجھتے۔پیروان حسین ؓ عزاداری کی بدولت خوب جانتے ہیں کہ حسینؓشرف و ناموس انسانیت و اسلام کے مرتبہ و مقام،عظمت و سربلندی کی راہ میں اپنی جان،مال،فرزندوں کو قربان کردیا لیکن یزید کے استعماراور ہنگامی طلبیوں،حادثہ جوئیوں کے زیرسایہ جانا گوارہ نہیں کیا۔‘‘
جسٹن آر رسل ایک بزرگ انگریز شاعر امام عالی مقام ؓ کے بارے میں یوں گویا ہے ’’امام حسین ؓنے آپ ؓکے سراقدس کو نیزہ پر بلندکیا اورجس اہانت کا ارتکاب کیا۔آپ ؓ کے جسم اطہر کو اپنے گھوڑوں کی ٹاپوں سے ریزہ ریزہ کرڈالا جو دیکھنے والوں کو متاثر و مسحور کررہا تھا‘‘۔ اس شاعر نے مزید کہا ہے ’’اے کربلا کی خشک و چٹیل زمین کہ تیری سطح پر نہ گھاس ہے نہ سبزہ،نہ چمن ہے نہ گلشن البتہ تیرے سینے کے اندر صدائے حزن و ملال پنہاںہے کیونکہ تیرے اندر فرزند زہرا ؓکا مقدس ترین جسم پوشیدہ ہے۔تاریخ دین و شریعت کے اس عظیم سپوت کے بارے میں غیر مسلموں کے اقوال و نگارشات اس سے کہیں زیادہ ہیں اگر انہیں جمع کیا جائے تو کئی دفاتر درکار ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج غزہ کی پٹی میں محصور فلسطینی ،استعماریت و صیہونیت کی ٹیکنالوجی کے ساتھ حسینی جذبے کے ساتھ ہی نبردآزما ہیں صدیوں سے غلامی کا شکار کشمیریوں میں بھی لبیک یا حسین ؓکا نعرے نے ہی حرارت پھونک رکھی ہے۔