حکومت قوم کو مایوس کرکے اپوزیشن کو صف بندی کا نادر موقع فراہم نہ کرے
پی ٹی آئی اقتدار کے 100 دن پورے ہونے پر ڈالر کی اونچی پرواز اور وزیراعظم کا قوم کو نہ گھبرانے کا درس
ملک میں گزشتہ روز ڈالر کی ریکارڈ اونچی اڑان دیکھنے میں آئی۔ انٹربنک مارکیٹ میں روپیہ مزید سستا ہوگیا اور ڈالر 139 روپے پانچ پیسے کی بلند ترین سطح تک پہنچ گیا جبکہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت فروخت 142.50 روپے ہوگئی۔ وفاقی وزیر خزانہ اسدعمر نے ایک روز قبل ہی بتایا تھا کہ ہم نے آئی ایم ایف کی شرائط نہیں مانیں اور یہ کہ بیرونی سیکٹر کا بحران ختم ہوگیا ہے۔ اسکے باوجود صرف 16 گھنٹے میں انٹربنک مارکیٹ میں کاروبار کے آغاز پر ہی گزشتہ روز ڈالر کو پر لگ گئے اور ٹریڈنگ کے دوران آٹھ روپے کے اضافے سے ڈالر 142 روپے کا بھی فروخت ہوا تاہم بنکنگ کے اوقات ختم ہونے کے بعد انٹربنک مارکیٹ میں ڈالر قیمت 139 روپے پانچ پیسے ہوگئی۔ روپے کی قدر میں 3.8 فیصد کمی کے باعث پاکستان کے غیرملکی قرضوں اور واجبات میں نیا قرض لئے بغیر ہی 760‘ ارب روپے کا اضافہ ہوگیا۔ آئی ایم ایف کی طرف سے روپے کی قدر کم کرنے کا کہا جارہا تھا جبکہ حکومت نے گزشتہ ماہ کے دوران بھی روپے کی قدر میں کمی کی تھی۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت سات ہفتوں کے دوران روپے کی قدر میں 11.9 فیصد کمی کرچکی ہے اور جس تیزی سے روپیہ سستا کیا جارہا ہے‘ مہنگائی میں بھی اسی تیزی سے اضافہ جاری ہے۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈالر مہنگا ہونے سے ملک میں مہنگائی کا نیا طوفان آئیگا۔ دوسری جانب روپے کی بے قدری نے سونے کی قیمت مزید بڑھادی ہے اور سونے کی فی تولہ قیمت ایک ہزار روپے کے اضافے سے ملکی تاریخ میں پہلی بار 64 ہزار پانچ سو روپے تک پہنچ گئی ہے۔ معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر اشفاق ایچ خان کے بقول حکومت نے آئی ایم ایف کا مطالبہ مان لیا ہے اور اس کا آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ طے پاگیا ہے چنانچہ اب دسمبر میں گیس‘ بجلی اور پٹرولیم نرخوں میں بھی اضافہ کیا جائیگا اور جنوری میں آئی ایم ایف پاکستان کیلئے قرضے کی منظوری دیگا۔ دریں اثناء ڈالر کی قیمت بڑھنے سے سٹاک مارکیٹ میں شدید مندا دیکھنے میں آیا۔ گزشتہ روز سٹاک مارکیٹ میں کاروبار کا آغاز مثبت انداز میں ہوا تاہم ڈالر کی قیمت بڑھتے ہی مارکیٹ شدید مندے کا شکار ہوگئی۔
اگرچہ حکومت کی جانب سے اپنے اقتدار کے پہلے 100 کی کامیابیوں کے ڈھنڈورے پیٹے گئے ہیں اور ملک کی معیشت کو صحیح سمت کی جانب گامزن کرنے کی نوید بھی سنائی گئی ہے جبکہ وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز ڈالر کی قیمت 142 روپے تک پہنچنے کے باوجود عوام کو یہی لالی پاپ دیا ہے کہ ڈالر کی قیمت بڑھنے پر وہ ہرگز نہ گھبرائیں‘ سب ٹھیک ہو جائیگا کیونکہ ہم وہ قدم اٹھا رہے ہیں جس سے آئندہ ڈالر کا ریٹ نہیں بڑھے گا تاہم حقائق و شواہد ملکی معیشت کی کچھ اور ہی تصویر پیش کررہے ہیں۔ گزشتہ روز سٹیٹ بنک کی جاری کردہ مانیٹری پالیسی میں بھی یہی بتایا گیا ہے کہ ہمیں مہنگائی‘ بجٹ خسارے جیسے چیلنجز کا سامنا ہے جبکہ شرح سود پانچ سال کی بلند ترین سطح تک آگئی ہے۔ یہ صورتحال ملکی معیشت کی مثبت انداز میں تو ہرگز عکاسی نہیں کررہی اور اگر اقتصادی ماہر ڈاکٹر اشفاق ایچ خان کی حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کرلینے کی بات کی تصدیق ہوتی ہے تو پھر آئی ایم ایف کی مذاکراتی ٹیم کی جانب سے ملکی معیشت کے حوالے سے پاکستان کو دی گئی ڈکٹیشن پر عملدرآمد کی صورت میں ہمیں قیامت خیز مہنگائی‘ کساد بازاری‘ سٹاک مارکیٹ میں شدید مندی اور اسکی بنیاد پر قومی معیشت کو شدید جھٹکے لگتے ہوئے دیکھنے کیلئے تیار رہنا چاہیے۔ اپوزیشن کی جانب سے اسی تناظر میں باور کرایا جارہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی 100 دن کی تکمیل پر کی گئی تقریر کے باعث ڈالر مہنگا ہوا ہے کیونکہ حکومت کے پاس معیشت کو سنبھالنے کیلئے وژن ہے نہ روڈمیپ۔ مسلم لیگ (ن) کے قائدین شاہد خاقان عباسی اور مریم اورنگزیب کے بقول وزیراعظم عمران خان نے ملکی معیشت کو ٹھیک کرنے کیلئے کٹے اور دیسی مرغی پالنے اور اسلامی ٹورازم جیسے حل پیش کئے ہیں جبکہ سو روز میں ایک بھی وعدہ پورا نہیں ہوا۔ اسی طرح پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ترجمان سینیٹر مصطفی کھوکھر نے کہا کہ عمران خان کا سونامی ملک کی تباہی کررہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب کا بھی یہی خیال ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف سے معاہدہ کرلیا ہے اس لئے عوام کو بتایا جائے کہ یہ معاہدہ کن شرائط پر ہوا ہے۔
عوام کو تو دو ماہ قبل 9؍ اکتوبر کا وہ دن بھی یاد ہوگا جب پی ٹی آئی حکومت کے آغاز ہی میں ڈالر ریکارڈ پرواز کرتے ہوئے 134.50 روپے تک جا پہنچا تھا جس کے باعث ملک میں یکایک مہنگائی کا ایک نیا طوفان برپا ہوگیا اور پٹرولیم مصنوعات کے علاوہ گاڑیوں‘ موٹر سائیکلوں‘ کھانے پینے کی اشیائ‘ کاسمیٹکس کے سامان اور ادویات سمیت ہر چیز کی قیمت کو آگ لگ گئی۔ اسکے ساتھ ساتھ حکومت نے مختلف مدات میں عوام کو دی گئی سبسڈی بھی ختم کرنا شروع کردی جس سے عوام پر بجلی‘ گیس کے نرخوں میں ہونیوالی مہنگائی کا نیا بوجھ پڑا۔ اس وقت بھی اقتصادی ماہرین کا یہی خیال تھا کہ روپے کی قدر میں آئی ایم ایف کے دبائو پر کمی کی گئی ہے تاہم اس وقت وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے باور کرایا کہ ڈالر پر جواء ہورہا ہے جبکہ وزیر شپنگ علی زیدی نے انکشاف کیا کہ ڈالر 140 روپے تک جائیگا‘ اسکے باوجود انہوں نے قوم کو ہی تلقین کی کہ وہ تھوڑا مشکل وقت برداشت کرلے۔ یہی صورتحال گزشتہ روز بھی نظر آئی کہ ڈالر جستیں بھرتا ہوا 142 روپے تک جا پہنچا مگر وزیراعظم قوم کو تلقین کررہے تھے کہ وہ ڈالر کے نرخ بڑھنے پر نہ گھبرائے۔ انشاء اللہ سب ٹھیک ہو جائیگا‘ قوم آخر کب تک اور کتنا صبر کریگی جبکہ حکومتی پالیسیاں تو اسے عملاً زندہ درگور کرتی نظر آتی ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی کے اقتدار سنبھالتے ہی ملک میں مہنگائی کا سونامی در آیا تھا کیونکہ حکومت نے ملک کے مالیاتی اور اقتصادی نظام کی اصلاح کے تناظر میں منی بجٹ کے ذریعے بعض نئے ٹیکس اور ڈیوٹیاں عائد کرنے کے ساتھ ساتھ گیس‘ بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں بھی اضافہ کردیا۔ وزیراعظم عمران خان اور وزیر خزانہ اسدعمر تو قوم کو یہی مژدہ سناتے رہے ہیں کہ ملک کو آئی ایم ایف کے گھن چکر سے نجات دلائی جائیگی اور اسکی جانب نئے قرضوں کیلئے رجوع نہیں کیا جائیگا مگر پھر حکومت آئی ایم ایف کے پاس جانے کے معاملہ میں گومگو کا شکار نظر آئی۔ ایک روز اسدعمر دوٹوک اعلان کرتے کہ ہم آئی ایم ایف کے پاس نہیں جارہے اور دوسرے روز ان کا اعلان سامنے آجاتا کہ ہمیں نئے قرضوں کیلئے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑ سکتا ہے۔ پھر وزیر خزانہ کا یہ دوٹوک اعلان سامنے آگیا کہ آئی ایم ایف سے قرض لینے کے سوا حکومت کے پاس کوئی دوسرا آپشن موجود نہیں۔ اسی تناظر میں وزیراعظم عمران خان کو بھی ہنگامی پریس کانفرنس کرنا پڑی جس میں انہوں نے قوم کو باور کرایا کہ معیشت کو سنبھالنے کیلئے ہمارے پاس ایک راستہ قومی خزانہ میں لوٹ مار کرنے والے چوروں‘ ڈاکوئوں کو نکیل ڈال کر انکی بیرون ملک موجود رقوم واپس لانے کا ہے جس کیلئے انہوں نے کسی کرپٹ کو ہرگز نہ چھوڑنے کا اعلان بھی کیا تاہم اسکے ساتھ ساتھ انہیں قوم کو یہ بھی باور کرانا پڑا کہ ہمیں نئے قرضے کیلئے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑ سکتا ہے۔ یہ اعلان درحقیقت قوم کیلئے پیغام تھا کہ وہ آنیوالے دنوں میں مہنگائی کے مزید جھٹکے برداشت کرنے کیلئے تیار رہے۔ اسی دوران وزیراعظم عمران خان برادر اسلامی ملک سعودی عرب کے دورے پر چلے گئے اور وہاں سے مجموعی 12‘ ارب ڈالر کے بڑے پیکیج کی نوید لے کر آئے جس سے قوم کو یک گونہ اطمینان ہوا کہ اب ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہیں پڑیگی اور ملک کا مقدر سنور جائیگا جو عمران خان کی کرشماتی شخصیت کے باعث ہی ممکن ہوا ہے مگر پھر آئی ایم ایف کی مذاکراتی ٹیم پاکستان وارد ہوگئی جس کی زبانی روزانہ کی بنیاد پر پاکستان کی معیشت سنبھالنے کیلئے کڑی شرائط سننے کو ملنے لگیں۔ اسی دوران وزیراعظم اپنے پہلے سے شیڈول ہونیوالے چین کے دورے پر روانہ ہوگئے اور وہاں سے بھی ایک بڑے پیکیج کی نوید لے آئے تاہم اسکی تفصیلات کا ابھی تک قوم کو علم نہیں ہو سکا۔ اسکے باوجود آئی ایم ایف کی ٹیم پاکستان میں بیٹھی ڈکٹیشن دیتی رہی جس پر وزیر خزانہ اور دوسرے حکومتی اکابرین کی جانب سے یہی تاثر دیا جاتا رہا کہ ہم ملک و قوم کے مفادات کے منافی کوئی شرط قبول نہیں کرینگے تاہم آئی ایم ایف کی شرائط اور وزیراعظم کا بیرونی سفر ساتھ ساتھ جاری رہا۔ وزیراعظم متحدہ عرب امارات اور ملائیشیا کا چکر بھی لگا آئے جہاں سے وہ قوم کیلئے حوصلہ افزاء پیغامات کے ساتھ مزین ہو کرآئے مگر ملک میں عوام پر مہنگائی اور ٹیکسوں کا بوجھ کم ہونے کے کوئی آثار نظر نہ آئے اور اب حکومت کے سو دن پورے ہونے پر وزیراعظم عمران خان نے ملکی معیشت کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کیلئے اچھوتا منصوبہ پیش کیا تو وزیر خزانہ اسدعمر نے قوم کو آئی ایم ایف کی شرائط مسترد کرنے اور نئے قرض کیلئے اس سے رجوع نہ کرنے کی نوید سنائی مگر اسکے اگلے ہی روز ڈالر ہاتھ سے پھسلتا ہوا کہیں سے کہیں جاپہنچا۔
اس تناظر میں فی الوقت تو قوم کو اپنے سامنے مہنگائی کے نئے پہاڑ کھڑے نظر آرہے ہیں جنہیں کیسے پاٹنا ہے‘ اس کا کوئی چھومنتر حکومت کے پاس ہے تو اسے قوم کے ساتھ ضرور شیئر کرنا چاہیے تاکہ آنیوالے حالات کے حوالے سے کسی مایوسی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ بصورت دیگر وزیراعظم کی کرشماتی شخصیت بھی بے انتہاء غربت‘ آسمانوں کو چھوتی مہنگائی اور بے قابو ہونیوالی بے روزگاری کے باعث غیظ و غضب میں آئے عوام کے جذبات کے آگے بند باندھنے میں کامیاب نہیں ہو سکے گی۔ اب تو حکومت کا ہنی مون پیریڈ بھی ختم ہوچکا ہے اس لئے پاکستان کی روپے کی انتہاء درجے کی بے قدری اور غضب ڈھاتی مہنگائی کے پیدا کردہ حکومت مخالف ماحول میں حکومت مخالف جماعتوں کو اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کا نادر موقع ملے گا اور منقسم اپوزیشن کے تن مردہ میں نئی جان پیدا ہو جائیگی۔ عوام کو بہرصورت مہنگائی سے ریلیف کی ضرورت ہے جو حکومت کی مستحکم اقتصادی پالیسیوں سے ہی ممکن ہے۔ حکومت کو عوام کی مایوسیاں بڑھانے کا اہتمام بہرصورت نہیں کرنا چاہیے۔