پی ٹی آئی حکومت بھارت کے معاملہ میں کسی خوش فہمی میں نہ رہے
بلی تھیلے سے باہر! بھارت کا وزارت خارجہ کی سطح پر مذاکرات پر آمادگی کے چند ہی گھنٹوں بعد انکار
بھارت نے پاکستان کے ساتھ وزرائے خارجہ کی سطح پر مذاکرات پر آمادہ ہونے کے 24 گھنٹے بعد ہی ان مذاکرات سے انکار کر دیا اور اس سلسلہ میں یواین جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر نیویارک میں طے کی گئی پاکستان بھارت وزرائے خارجہ کی ملاقات منسوخ کردی ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے یواین جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران پاک بھارت وزرائے خارجہ کی ملاقات کی تجویز پیش کی گئی تھی جسے بھارت نے قبول کرلیا تھا چنانچہ دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی 27؍ ستمبر کی ملاقات طے بھی پا گئی جسے امریکہ کی جانب سے خوش آئند پیش رفت قرار دیا گیا۔ اب بھارتی میڈیا نے ترجمان دفتر خارجہ کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ پاک بھارت وزرائے خارجہ ملاقات منسوخ کردی گئی ہے جس کیلئے پاکستان پر مقبوضہ کشمیر میں بی ایس ایف اہلکاروں کی ہلاکت کا ملبہ ڈالا گیا ہے اور یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ بھارتی اہلکار کی گلا کٹی لاش کے پیچھے پاک فوج ہو سکتی ہے۔ اس سلسلہ میں بھارتی وزرت خارجہ کے ترجمان رویش کمار کی طرف سے جاری کئے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ عمران خان کی جانب سے خط کے بعد ہم سمجھتے تھے کہ پاکستان مثبت سمت کی جانب گامزن ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انکی پیشکش کے پیچھے غلط ارادے تھے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس بھارتی اقدام پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ملاقات کی منسوخی کی خبر سن کر انہیں بہت حیرت اور افسوس ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان خطے میں بہتری کا خواہش مند ہے تاہم لگتا ہے بھارت کی ترجیحات ہی کچھ اور ہیں۔ انکے بقول بہتری کا ایک موقع تھا جسے ضائع کیا گیا۔ ہماری طرح بھارت نے بھی مذاکرات کا عندیہ دیا تھا مگر افسوس کہ اب بھارت کی جانب سے مثبت طرزعمل اختیار نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے اس لئے بھارت کا مذاکرات سے پیچھے ہٹنے کافیصلہ اسکے اندرونی سیاسی دبائو کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔ اگر بھارت رضامند نہیں تو ہم بھی کوئی غیرضروری جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرینگے۔
اقتدار سنبھالنے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری اور اسکے ایک قدم آگے بڑھنے کی صورت میں پاکستان کی جانب سے دو قدم بڑھانے کا اظہار کیا اور اس سے پہلے وزیراعظم نریندر مودی کے تہنیتی پیغام کے جواب میں بھی پاکستان بھارت تنازعات کے حل کیلئے دوطرفہ مذاکرات کی ضرورت پر زور دیا تو درحقیقت یہ پاکستان کے اس اصولی موقف ہی کا اعادہ تھا جو مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر سمیت تمام باہمی تنازعات کے حل کیلئے سابقہ حکمرانوں کی جانب سے بھی اختیار کیا جاتا رہا ہے مگر بھارت علاقے کی بہتری کی خاطر پاکستان کے ساتھ حل طلب تنازعات طے کرنے اور اس کیلئے دوطرفہ مذاکرات کی راہ پر آنے میں مخلص ہی نہیں ہے۔ حالانکہ دوطرفہ مذاکرات کا ڈول اس نے خود ہی پاکستان کے ساتھ شملہ معاہدے کے ذریعے ڈالا تھا ورنہ تو مسئلہ کشمیر کے کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کیلئے اقوام متحدہ کی درجن بھر قراردادیں پہلے ہی موجود ہیں جن کی بنیاد پر پاکستان اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے بھارت پر عالمی قیادتوں کا دبائو ڈلوا سکتا ہے جس کی روشنی میں اقوام متحدہ کی شکل میں موجود عالمی ادارہ بھی بھارت کو کشمیر میں استصواب کیلئے مجبور کر سکتا ہے۔ بھارت نے درحقیقت اقوام متحدہ کی قراردادوں کو غیرمؤثر بنانے کیلئے ہی پاکستان کو اس وقت شملہ معاہدے پر مجبور کیا تھا جب وہ 71ء کی جنگ میں بھارتی سازشوں کے تحت ملک کے دولخت ہونے اور اپنے 90 ہزار سے زائد فوجیوں اور شہریوں کے بھارتی جنگی قیدی بننے کے باعث سخت دبائو میں تھا۔ اس معاہدے کی بنیاد پر بھارت نے کشمیر سمیت کسی بھی باہمی تنازعہ کو اقوام متحدہ یا کسی دوسرے عالمی یا علاقائی فورم پر لے جانے کا راستہ روک دیا اور دوطرفہ مذاکرات کا راستہ نکالا مگر پھر بھارت نے ہر سطح کے دوطرفہ مذاکرات کی میز خود ہی الٹانا شروع کردی کیونکہ وہ پاکستان کے ساتھ امن و سکون سے رہنے کا روادار ہی نہیں تھا جس نے پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی نیت سے ہی کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دیا اور پھر اسے متنازعہ بنا کر اقوام متحدہ میں جا پہنچا۔ تاہم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے بھارت ہی کی درخواست پر فیصلہ صادر کرتے ہوئے اپنی قرارداد میں کشمیریوں کے استصواب کے حق کو تسلیم کیا تو بھارت اس قرارداد سے ہی منحرف ہوگیا۔ اقوام متحدہ کی جانب سے 1947ء سے 1954ء تک اپنی اس قرارداد کا اعادہ کیا گیا اور بھارت پر کشمیریوں کیلئے استصواب کے اہتمام کا تقاضا کیا جاتا رہا مگر بھارت نے اسکے بجائے اپنے آئین میں ترمیم کرکے مقبوضہ کشمیر کو باقاعدہ طور پر اپنی ریاست کا درجہ دے دیا جسے کشمیریوں نے آج تک قبول نہیں کیا اور انہوں نے گزشتہ 70 سال سے قربانیوں سے لبریز اپنی آزادی کی جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے۔ اسی طرح وہ کٹھ پتلی اسمبلی کے ہر انتخاب کا بائیکاٹ کرکے‘ بھارتی یوم جمہوریہ کو یوم سیاہ کے طور پر منا کر اور ہر بھارتی وزیراعظم کا مقبوضہ وادی میں سیاہ پٹیوں کے ساتھ استقبال کرکے بھارت کے ساتھ الحاق نہ کرنے کا ٹھوس پیغام پہنچاتے ہیں جبکہ پاکستان نے بھی کشمیری عوام کی امنگوں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اصولی موقف اختیار کیا ہے اور آج کے دن تک اس موقف پر قائم ہے۔ اسکی پاداش میں ہی بھارت پاکستان کی سلامتی کے درپے ہے جو اس پر تین جنگیں مسلط کرچکا ہے اور اب اسکی سالمیت کیخلاف نئی جارحیت کی منصوبہ بندی مکمل کرچکا ہے۔ اسے اس سے بھی سروکار نہیں کہ اب روایتی نہیں‘ ایٹمی جنگ ہوگی جس سے علاقائی ہی نہیں‘ عالمی امن و سلامتی بھی تہہ و بالا ہو جائیگی۔
بھارت کی موجودہ ہندو انتہاء پسند مودی سرکار تو پاکستان کی سلامتی کیخلاف اپنی جنونیت میں انتہاء درجے تک جا پہنچی ہے جبکہ نریندر مودی نے بھارتی وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے ہی پاکستان کی سلامتی کیخلاف اپنی بدنیتی کا اظہار شروع کر دیا تھا۔ انہوں نے اپنے اقتدار کے دوران اسی تناظر میں کنٹرول لائن پر کشیدگی بڑھائی ہے اور مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کا عرصۂ حیات تنگ کرنے کے نئے نئے ہتھکنڈے اختیار کئے ہیں جن میں اسرائیلی ساختہ پیلٹ گنوں کا استعمال بھی شامل ہے جن کے ذریعے بھارتی فوجیں اب تک ہزاروں کشمیریوں کو مستقل طور پر نابینا اور اپاہج کرچکی ہے۔ ظلم و جبر کے ایسے ہتھکنڈوں کا مقصد حق خودارادیت کیلئے کشمیریوں کی آواز دبانا اور ان پر بھارتی فوجوں کے مظالم اقوام متحدہ عالم کی نظروں سے اوجھل رکھنا ہے تاہم دنیا بھر میں پھیلے متحرک کشمیریوں نے اس سلسلہ میں بھارت کی کوئی بھی سازش کامیاب نہیں ہونے دی چنانچہ آج مسئلہ کشمیر علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کے حوالے سے پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔
بھارت اس مسئلہ سے محض دنیا کی توجہ ہٹانے کی خاطر لیپاپوتی کرتا ہے اور پاکستان کے ساتھ ہر ایشو پر مذاکرات کیلئے آمادگی کا عندیہ بھی دے دیتا ہے مگر جب بھی کسی بھی سطح کے مذاکرات طے ہوتے ہیں تو وہ ’’آٹاگوندھتی ہلتی کیوں ہے‘‘ کے مصداق کوئی نہ کوئی حیلہ بہانہ کرکے مذاکرات سبوتاژ کردیتا ہے۔ اسی تناظر میں مودی سرکار نے اسلام آباد میں طے شدہ سارک سربراہ کانفرنس کی بھی اب تک نوبت نہیں آنے دی۔ گزشتہ سال بھی بھارت کے شمولیت سے انکار کے باعث سارک سربراہ کانفرنس منعقد نہ ہوسکی اور اب اس علاقائی سربراہی کانفرنس کے اسلام آباد میں انعقاد کا دوبارہ شیڈول جاری ہوا ہے تو بھارت نے پھر اس میں شمولیت سے انکار کردیا ہے جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت اپنے پڑوسی پاکستان کے ساتھ امن سے رہنا ہی نہیں چاہتا جبکہ وہ پاکستان کو بدامنی سے دوچار رکھنا چاہتا ہے جو اس کا پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کا ایجنڈا ہے۔
اس تناظر میں تو بھارت سے کشمیر اور پانی سمیت کسی بھی دوطرفہ تنازعہ کے حل کیلئے پاکستان سے مذاکرات پر آمادہ ہونے کی توقع ہی نہیں کی جا سکتی۔ اب تو اس معاملہ میں بھارتی بلی بہت جلد تھیلے سے باہر آگئی ہے اس لئے ہمیں ایسی کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ بھارت کی مودی سرکار آنیوالے انتخابات کے تناظر میں پاکستان سے مذاکرات کیلئے کسی قسم کی پیش رفت کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ بھارت کی اصل مجبوری پاکستان کے ساتھ تعلقات بگاڑے رکھنے کی ہی ہے تاکہ وہ علاقائی اور عالمی فورموں پر کشمیریوں کیلئے آواز نہ اٹھا سکے۔ اگر حکمران بی جے پی نے گزشتہ انتخاب پاکستان دشمنی کی بنیاد پر جیتا تھا تو اب وہ اس دشمنی سے خود کو کیونکر باہر نکالے گی۔ اس نے کسی بھی حالت میں اپنی عادت کے تحت ہمیں ڈنک مارنا ہی مارنا ہے اس لئے ہمیں اسکے ساتھ بہتر تعلقات کی کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے اور پوری تیاری کرکے یواین جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شریک ہونا چاہیے تاکہ اس نمائندہ عالمی فورم پر سارے بھارتی مکروفریب اور اسکے کشمیری عوام پر جاری بھیانک مظالم عالمی قیادتوں کے روبرو بے نقاب کئے سکیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت کو کشمیر پر پاکستان کے دیرینہ اصولی موقف میں بہرصورت کوئی کمزوری پیدا نہیں ہونے دینی چاہیے۔