انتخابی مہم کا آغاز مگر جو ش و خروش ناپید
پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے انتخابی مہم کا آغاز کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیا پاکستان خود اپنے پیروں پر کھڑا ہوگا، ادارے ٹھیک کریں گے ۔ مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف کا کہنا ہے کہ وعدے پورے کرنے کیلئے جان لگا دینگے۔کلین پاکستان بنائیں گے‘ سراج الحق اور مولانا فضل الرحمان کا پشاور سے انتخابی مہم کا آغاز۔
انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے جاری شیڈول کے مطابق معاملات میں پیشرفت ہو رہی ہے۔ کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے حوالے سے اپیلوں پر فیصلے ہو رہے ہیں۔ انتخابی مہم کا باقاعدہ آغاز ہو چکا ہے۔ پارٹیاں اپنے منشور عوام کے سامنے رکھ کر انہیں ووٹ دینے پر قائل کر رہی ہیں ۔انتخابات میں ایک ماہ سے بھی کم کا وقت رہ گیا ہے۔ انتخابات اتنے قریب ہوں تو انتخابی مہم جوبن اور زوروں پر ہوتی ہے مگر آج مہم میں وہ جوش و خروش نظر نہیں آتا جو اسکا خاصہ رہا ہے۔ اسکی وجہ انتخابات کے انعقاد پر شکوک و شبہات کے پڑے سائے ہیں ۔ گو الیکشن کمیشن ، چیف جسٹس پاکستان ، آرمی چیف اور نگران وزیراعظم کی طرف سے بروقت انتخابات کے انعقاد کی یقین دہانی کرائی گئی ہے اسکے باوجود فضا ابر آلود ہے۔الیکشن کمیشن کا ضابطہ اخلاق جاری ہو چکا ہے ۔ اسکے اندر رہتے ہوئے سیاستدانوں نے انتخابی مہم چلانی ہے۔ قومی اسمبلی کے امیدوار کیلئے چالیس لاکھ اورصوبائی اسمبلی کے امیدوار کیلئے 20لاکھ روپے اخراجات کی حد مقرر کی گئی ہے۔ یہ بھی کوئی کم رقم نہیں پھر بھی کچھ لوگ اس سے تجاوز کر جا تے ہیں ۔ ماضی میں ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیاں ہوتی رہی ہیں کسی کو اس پر سزا نہیں دی گئی مگر اب حالات بدلے ہوئے ہیں ۔ الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ معاملات کو دیکھ رہی ہے اس لئے اخراجات کی مد سے تجاوز کرنے اور ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنیوالے مشکلات کا شکار ہو سکتے ہیں ۔ ہمارے ہاں اپنے منشور کو عوام تک پہنچانے سے زیادہ مخالف پارٹی کی کردار کشی پر زیادہ زور رہتا ہے ۔ جلسوں میں عامیانہ زبان کا استعمال کلچر بن چکا ہے جس سے سیاست میں نفرت در آتی ہے، اس حوالے سے سیاستدانوں کو خود احتسابی ے کام لیتے ہوئے تندوتیز زبان کے استعمال سے اجتناب کرنا چاہیے جو خود انکے اپنے مفاد میں بھی ہے۔ جب آپ کسی کے بارے میں معاندانہ رویے گریز کریں گے تو مخالف بھی آپ کو احترام دے گا ۔