رجب طیب اردوان کی صدارتی انتخاب میں شاندار کامیابی
ترکی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک ساتھ ہونیوالے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں رجب طیب اردوان ترکی کے دوبارہ صدر منتخب ہوگئے۔ ان کا یہ انتخاب ترکی کے 12ویں صدر کے طور پر عمل میں آیا ہے جبکہ پارلیمانی انتخابات میں اُنکی جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (AKP) نے کامیابی حاصل کر لی ہے۔ اُنہوں نے 53 فیصد اور دوسرے نمبر پر آنیوالے اُمیدوار محرم انجے نے 31 فیصد ووٹ حاصل کئے۔ ٹرن آئوٹ 83 فیصد رہا۔ 600 رُکنی پارلیمنٹ کیلئے پڑنے والے ووٹوں کی گنتی جاری ہے۔ آخری اطلاعات کے مطابق حکمران جماعت 350 سے زیادہ نشستیں جیت چکی ہے۔ اپوزیشن پارٹی ری پبلکن اب تک محض 147 نشستیں ہی حاصل کر سکی ہے۔ صدر رجب طیب اردوان نے اپنی کامیابی کی اطلاع ملتے ہی مبارکباد دینے کیلئے جمع ہونیوالے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ووٹروں کا شکریہ ادا کیا اور اپنے اس عزم کا اعادہ کیا کہ ترکی کی ترقی و خوش حالی کا سفر تیزی سے جاری رہیگا۔
رجب طیب اردوان، پاکستان کے عظیم دوست ہیں۔ اُن کا جمہوری عمل کے ذریعے ایک بار پھر صدر منتخب ہونا، پاکستان سمیت دُنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے خوشی و مسرت کا باعث بنے گا۔ 64 سالہ رجب طیب اردوان جدید ترکی کے معمار ہیں۔ ترک قوم شاندار ماضی کی حامل ہے لیکن پہلی جنگ عظیم میں اپنے اتحادی جرمنی سمیت شکست کھائی۔ ایک وقت ایسا آیا کہ ترکی کا وجود اور اس کی بقا خطرے میں پڑ گئی۔ تب مصطفی کمال اتاترک نے کمال ہوشیاری اور بہادری کے ساتھ اتحادیوں کے عزائم کو ناکام بنا دیا اور نئے ترکی کی بنیاد رکھی لیکن بدقسمتی سے نئی مملکت کے اسلام سے سارے رشتے منقطع کر دئیے گئے، تاہم ترک عوام نے ماضی کے ورثے کی حفاظت کیلئے، اتاترک اور انکے جانشین عصمت انونو اور بعد میں آنیوالی حکومتوں کیخلاف دلیرانہ مزاحمت جاری رکھی۔ اس جدوجہد میں ہزاروں ترکوں نے جانوں کی قربانی دی، لاکھوں کو پابند سلاسل کیا گیا۔ اس پُرآشوب دور میںجسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی قائم ہوئی۔ اسکے قائدین اسلامی رجحان رکھنے والے تھے۔ اسی پارٹی کے ٹکٹ پر رجب طیب اردوان استنبول کے میئر منتخب ہوئے، اُنہوں نے اپنی میئرشپ کے دوران استنبول کو بڑی ترقی دی، اور اس کا شمار دُنیا کے خوبصورت شہروں میں ہونے لگا۔ یہیں سے انہیں وژنری اور انقلابی لیڈر کی شہرت ملی، بعدازاں انہیں پارٹی کا صدر منتخب کر لیا گیا۔ اسی حیثیت میں اُنہوں نے انتخابات جیت کر وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ 28 / اگست 2014ء میں ترکی کے صدر منتخب ہوئے۔ ترکی میں اگرچہ پارلیمنٹ موجود ہے لیکن تمام اختیارات صدر کے پاس ہی ہوتے ہیں۔ اُنکی محنت اور انتھک کوششوں کے باعث، ترکی کا شمار آج دُنیا کی بڑی بڑی معیشتوں میں ہوتا ہے۔ 15 / جولائی 2016ء کی شب فوج کے ایک دھڑے نے(جو سیکولرزم کا حامی تھا) اچانک مارشل لاء کے نفاذ کا اعلان کردیا تاہم بغاوت کی اس سازش کو ترک عوام نے سڑکوں پر نکل کر ٹینکوں کے آگے لیٹ کر ناکام بنا دیا اور یہ ثابت کیا کہ اصل حکمران وہ ہے جو لوگوں کے دلوں پر حکومت کرے۔ صدر رجب طیب اردوان کا صدر منتخب ہونا ترکی، اسکے عوام اپنے ملک ، عالم اسلام اور مظلوم مسلمانوں کیلئے بڑی مسرت کا باعث ہے۔ توقع ہے کہ اُنکی قیادت میں ترقی کا سفر حسب سابق جاری رہے گا۔ ترقی یافتہ ترکی، عالم اسلام کیلئے باعث تقلید اور دُنیا بھر کے مسلمانوں کا سہارا ثابت ہو گا۔