ریاستی اداروں کے آئین میں متعین دائرہ اختیار میں رہنے کی ضرورت

ریاستی اداروں کے آئین میں متعین دائرہ اختیار میں رہنے کی ضرورت

سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں گزشتہ روز چیف جسٹس میاںثاقب نثار نے کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے قتل کے ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران ریمارکس دئیے کہ ریاستی اداروں کے بغیر ہمارا وجود ممکن نہیں‘ انہیں دشمن نہ سمجھا جائے۔ دریں اثناءاسلام آباد میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی صدارت میں فارمیشن کمانڈرز کانفرنس کے اعلامیہ میں بھی اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ فوج ریاستی اداروںکے ساتھ مل کر قوم کی خدمت کرتی رہے گی۔
فاضل چیف جسٹس آف پاکستان کے ریمارکس اور فوجی سربراہوں کے عزائم مایوس کن ماحول میں روشنی اور امید کی کرن ہیں ۔ گزشتہ ڈیڑھ دو برس سے ریاست کے بعض اہم ستونوں کی طرف سے کچھ ایسے فیصلے اور اقدامات ہوئے جن کے رد عمل میں بدگمانیاں اور کشیدگی پیدا ہوئی۔ ایسے ناخوشگوار ماحول اور حالات میں ملک و قوم کی ترقی ، خوشحالی اور استحکام کے متمنی محب وطن شہریوں کا مضطرب ہونا فطری امر ہے۔ تاہم مایوسیوں کی اس فضا میں عوام کی اکثریت کو یقین ہے کہ ریاست کے تینوں اہم ستون ملک و قوم کی بھلائی اور جمہوریت کی سربلندی کے حوالے سے ایک جیسے جذبات رکھتے ہیں اور انکی حب الوطنی ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا ہے۔ ریاستی ادارے آئین میں متعین اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر قوم کی خدمت کریں تو اس سے یقینا ملک اور قوم کے استحکام کی ضمانت ملے گی۔ قومی تعمیر میں انتظامیہ ، عدلیہ اور مقننہ تینوں کا اہم کردار ہے ۔ ایک دوسرے پر چڑھائی کی سوچ کو عملی جامہ پہنانے سے ملک کی بنیادیں کمزور ہوتی ہیں اور اس وقت تو قومی اتحاد و یکجہتی کا پیغام دینے کی زیادہ ضرورت ہے کیونکہ ہمارا موذی دشمن بھارت ہماری سلامتی کو کھلم کھلا چیلنج کررہا ہے۔ اس نازک صورتحال میں اگر کوئی ایسا پلیٹ فارم بنا لیا جائے جو ریاستی ستونوں کے سربراہوں کو مل بیٹھ کر بدگمانیوں کو دور کرنے میں مدد دے سکے تو ناانصافی ،اختیارات سے تجاوز اور خلائی مخلوق ایسی آوازیںکہیں سنائی ہی نہ دیں۔ ہمیں یہ حقیقت نہیں بھولنی چاہیے کہ ملک میں ایسی ملک دشمن قوتیں موجود ہیں جو ریاستی اداروں میں محاذ آرائی کی کیفیت پیدا کرکے دشمن کا کام آسان کر رہی ہیں ۔ایسے عناصر کا سراغ لگا کر انہیں کیفر کردار تک پہنچانا ضروری ہے ورنہ مفاہمتی کوششیں سبوتاژ ہوتی رہیں گی۔