امریکہ اور بھارت، پاک افغان تعلقات کی بہتری نہیں چاہتے

امریکہ اور بھارت، پاک افغان تعلقات کی بہتری نہیں چاہتے

ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا ہے کہ امریکی انتظامیہ میں کچھ عناصر افغانستان میں ناکامی چھپانے کیلئے پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانا چاہتے ہیں، پاکستان بھارت کے ساتھ مسائل پر مذاکرات چاہتا ہے مگر بھارتی حکومت کا رویہ مذاکرات میں بڑی رکاوٹ ہے۔ دریں اثناءوزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیرصدارت قومی سلامتی کمیٹی کے گزشتہ روز کے اجلاس میں کابل میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات کی مذمت کی گئی۔ کمیٹی نے افغانستان کے ساتھ سرحدی کنٹرول سے متعلق پیشرفت پر اظہار اطمینان کیا اور کہا کہ افغان حکومت کو سرحد پر باڑ لگانے کی حمایت کرنی چاہئے کیونکہ یہ باڑ دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔
پاکستان کئی بار امریکہ اور افغانستان کے ان الزامات کی سختی سے تردید کر چکا ہے کہ حقانی نیٹ ورک یا طالبان کو افغانستان میں دہشتگردی کی کارروائیوں کیلئے پاکستان کی سرزمین استعمال کرنے کی سہولت حاصل ہے۔ دراصل افغانستان اور امریکہ نے افغان دھرتی پر موجود دہشتگردوں کےخلاف کارروائی کرنے کی بجائے پاکستان پر الزام تراشی کا آسان راستہ تلاش کر لیا ہے۔ پاکستان کے بارے میں افغان پالیسی اور دہشتگردی کے واقعات پر کابل اور واشنگٹن کے ردعمل میں مماثلت سے دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل کے اس موقف کو تقویت حاصل ہوتی ہے کہ امریکی انتظامیہ میں کچھ عناصر افغانستان میں ناکامی چھپانے کیلئے پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانا چاہتے ہیں۔ امریکہ نے بھارت کو علاقے کی تھانیداری سونپ رکھی ہے اور بھارت امن اور باہمی تنازعات کو بات چیت سے طے کرنے میں کس قدر مخلص ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ اسے جب بھی مذاکرات کی پیشکش کی جاتی ہے وہ مختلف حیلوں بہانوں سے اسے ٹھکرا دیتا ہے۔ اسی طرح افغانستان کے ساتھ سرحدی کنٹرول کیلئے باڑ دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے لیکن افغان حکمرانوں کو مودی سرکار نے ایسی پٹی پڑھا دی ہے کہ وہ ایک ایسے معاملے میں تعاون سے اجتناب کر رہے ہیں جس سے دہشت گردوں کی آمدورفت کو مکمل روکا جا سکتا ہے۔ کابل انتظامیہ کو اپنے نفع و نقصان کے معاملات دوسروں کے ہاتھ میں نہیں دینا چاہئیں بصورت دیگر دونوں ملک نقصان اٹھائیں گے، بھارت اور امریکہ کا کچھ نہیں بگڑے گا کیونکہ خطے میں امن کیلئے دونوں سنجیدہ نہیں ہیں۔