مقام مصطفی ؐ کا ادراک۔ذات مصطفی ؐ سے وابستگی

آغا سید حامد علی شاہ موسوی
فخر موجودات باعث تخلیق کائنات ہادی برحق ؐ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ؐ کی دنیا میں آمد اللہ کا انسانیت پر اتنا بڑا احسان عظیم ہے ،جس کا احاطہ بڑے بڑے دانشور نکتہ داں مفکر نہیں کرسکتے ۔دنیائے شیطنت کی اول دن سے یہ کوشش رہی کہ خدا تک پہنچنے کے واحد راستے یعنی ذات مصطفی ؐ کو مجروح کردیاجائے تاکہ انسانیت ہدایت سے ہمکنار نہ ہو سکے ۔اسی لئے تاریخ گواہ ہے کہ توحید پر اتنے حملے نہیں ہوئے جس قدر ذات مصطفی ؐپر شیطانی قوتیں کرتی رہی ہیں ان حملوں کا مقصد انسانوں کو صراط مستقیم یعنی نبی مصطفی ؐ کے بتائے ہوئے راستے سے بھٹکانا تھا۔کفار مکہ ابو جہل و ابو لہب سے لے کر آج تک کی مغربی دنیا میں شائع ہونے والے خاکوں اور رشدیوں کی ناپاک جسارتوں حتی کہ استعماری پالتو دہشت گردی، جھوٹے نبیوں کے فتنوں کا مقصد یہی رہا کہ ظلم و جبر کی چکی میں پستی ہو ئی دنیا ، مسیحائی کی متلاشی دنیا، نظریاتی کشمکش سے دوچار انسانیت کو فلاح کی منزل یعنی در مصطفیؐ تک پہنچنے سے روکا جا سکے ۔
ذات مصطفی ؐ ہی خدا کی پہچان کا واحد ذریعہ ہے۔ نبی کریم کی آمد کی پیش گوئیاں ہر نبی کرتا رہا خدا والوں کو بھی صدیوں سے اس کا انتظار تھاصاحبان عرفان اس نبی کے کمالات معجزات نشانیاں جانتے تھے اور اس مسیحا کے شدت سے منتظر تھے ۔جہاں انتظار کرنے والوں نے نبی کی مدح سرائی کی وہاں جمال مصطفی ؐ کا مشاہدہ کرنے والوں نے بھی نبی کے مقام کو دنیا کے سامنے آشکار کیا۔انہی ہستیوں میں ایک سب سے نمایاں نام حضرت ابو طالبؑ کا بھی ہے ۔جنہوں نے نہ صرف مقام مصطفی کو دنیا کے سامنے آشکار کیا بلکہ ذات مصطفی کے تحفظ کیلئے ہر مصیبت اور الم بھی برداشت کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ام المومنین حضرت خدیجہ کے بعد حضرت ابو طالب دنیا میں نہ رہے تو جبرائیل نے آکر اللہ کے نبی ؐ کو وحی کی کہ اے مصطفی اب مکہ چھوڑ دو اس شہر میں تمہارا پاسبان و مربی کوئی نہیں رہااور یوں حضرت ابو طالب کے بعد مکہ چھوڑنا پڑ گیااور ہجرت پر مجبور ہو نا پڑا۔
حضرت ابو طالب نے صرف ذات مصطفیؐ کا تحفظ ہی نہیں کیا بلکہ اپنے کلام کے ذریعے دنیا کو مقام مصطفی ؐ سے روشناس بھی کرایا۔ تمام مورخ محقق اور محدث اس امر پر متفق ہیں کہ شان رسالت میں اولین نعت ختمی مرتبت کے کفیل حضرت ابو طالب نے ہی ارشاد فرمائیں ۔عم رسول ؐحضرت علی ؓ کے والد گرامی حضرت ابو طالب کا شمار فصحائے عرب میں ہوتا تھاشعر کہنے پر قدرت وقوت ِتامہ رکھتے تھے۔اسی محبت رسول میں جو کلام حضرت ابو طالب نے ارشاد فرمایا وہ عربی ادب کا عظیم سرمایہ ہے حضرت ابو طالب کا کلام عرب معاشرے اور اوائل اسلام کے رسوم و رواج کا بھی عکاس ہے ۔ دیوان ابو طالب کا قدیم ترین نسخہ احمد الکردی کا مرتب کردہ سمجھا جاتا ہے۔تاریخ میں درج ہے کہ فخر کونین کی مدح سرائی کیلئے لفظ ’’نعت ‘‘سب سے پہلے حضرت علی ابن ابی طالب ؑ نے استعمال کیا۔
مقام مصطفی ؐ کے جو پہلو حضرت ابو طالب ؑ نے روشناس کرائے وہ کسی اور سے ممکن نہ ہوسکا۔صحیح بخاری میں عمروبن علی، ابوقتیبہ، عبدالرحمن بن عبداللہ دینار اپنے والد سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا میں نے ابن عمر ؓ کو حضرت ابوطالب ؑ کا یہ شعر پڑھتے ہوئے سنا اور(محمد مصطفی ؐ کا) گورا رنگ کہ ان کے چہرے کے واسطے سے بدلی سے بارش کی دعا کی جاتی ہے، وہ یتیموں کے حامی اور بیواؤں کی پناہ گاہ ہیں۔
سنن ابن ماجہ میں ہے احمد بن ازہر، ابوالنصر، ابوعقیل، عمر بن حمزہ، سالم، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ بسا اوقات مجھے شاعر کا یہ شعر یاد آ جاتا اور میں دیکھتا منبر پر رسول اللہؐ کے چہرہ انور کو کہ آپ کے اترنے سے قبل مدینہ کے تمام پر نالے بہہ نکلتے۔(شعر کا ترجمہ ہے) اور سفید گورے رنگ کے جن کے چہرے کے طفیل بارش مانگی جائے۔ یتیموں کی پرورش کرنے والے اور بیواؤں کی نگہداشت کرنے والے اور یہ ابوطالب کا شعر ہے۔
حضرت ابوطالب ؑ نے شانِ مصطفوی ؐ میں ایک قصیدہ ارشاد فرمایا جو سیرتِ ابن ہشام سمیت تمام عربی تاریخ کی کتب میں مرقوم ہے وہ یہ ہے کہ
محمد ؐ ایسے خوش جمال شخص ہیں جن کی برکت سے ابر پانی برساتا ہے جو یتیمو ں کیلئے جائے پناہ ہے اور بیوائوں کا پردہ ہے۔
بنی ہاشم میں جسے ہلاکت کا خطرہ ہو وہ ا س کے پاس پناہ لیتے ہیں ۔وہ اسکے پاس رہ کر خدا کی رحمت اور نعمت پاتے ہیں۔
وہ ایک ایسی میزان عدالت ہے کہ جو ایک جَوبرابر بھی ادھرادھرنہیں کرتا اور درست کاموں کا ایسا وزن کرنے والا ہے کہ جس کے وزن کرنے میں کسی شک وشبہ کا خوف نہیں ہے۔
وہ ایک بزرگ انسان ہے جس کا شمار سب سے مرتبے والے سرداروں میں ہوتا ہے۔وہ اس خاندان بنو ہاشم سے ہے جو بڑائیوں کے میدان میں برتری کا مالک ہے ،
میں نے اس سے ہمیشہ دوستداروں او ر محبو ں کی طرح محبت رکھی ہے وہ ہمیشہ ہی اپنے محبت کرنیوالوں کی سربلندی کا موجب بنا ہے۔
وہ ہمارے درمیان اس قدر شرافت اور اعتبار کا مالک ہے ہر تجاوز کرنیوالے کی شرافت اور رتبہ اس سے کم تر ہے۔
تاریخ کی کتب میں حضرت ابوطالب ؑکے بہت سے اشعار ملتے ہیںکچھ اشعار درج ذیل ہیں
’’اے میرے بھتیجے خدا کی قسم جب تک ابوطالب خاک میں نہ سو یا ہو اور لحد کو اپنا بستر نہ بنالے دشمن ہرگز ہرگز تجھ تک نہیں پہنچ سکیں گے‘‘
’’لہٰذا کسی چیز سے نہ ڈراور اپنی ذمہ داری اور ماموریت کا ابلاغ کر، بشارت دے اور آنکھوں کو ٹھنڈا کر‘‘۔
’’تونے مجھے اپنے مکتب کی دعوت دی اور مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ تیرا ہدف و مقصد صرف خیرخواہی ہے، تو اپنی دعوت میں امین اور صحیح ہے‘‘
’’میں یہ بھی جانتا ہوں کہ محمد کا دین و مکتب تمام دینوں اور مکتبوں میں سب سے بہتردین ہے‘‘۔
اور یہ اشعار بھی انہوں نے ہی ارشاد فرمائے ہیں:
’’اے قریش! کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ ہم نے محمدؐ کو موسیٰؑ کی مانند خدا کا پیغمبر اور رسول پایا جن کے آنے کی پیشین گوئی پہلی آسمانی کتابوں میں لکھی ہوئی ہے‘‘۔
’’خدا کے بندے اس سے خاص لگاؤ رکھتے ہیں اور جسے خدا وند تعالیٰ نے اپنی محبت کے لئے مخصوص کرلیا ہو اس شخص سے یہ لگاؤ بے جا نہیں ہے۔‘‘
ابن ابی الحدید نے جناب ابوطالب ؑ کے کافی اشعار نقل کئے ہیں ان اشعار کا مجموعہ ابن شھر آشوب نے ’’متشابھات القرآن‘‘ میں تین ہزار اشعار پر مشتمل بتایا ہے ۔
کفار مکہ کے مقابلے میں تحفظ رسالت ؐ کیلئے کوہ گراں بن جانے والے ابو طالب نے مختلف مواقع پر ًاپنے جذبات واحساسات کوانتہائی خوبصورت الفاظ میں بیان کرکے نہ صرف اوائل ِاسلام کے عرب معاشرے کی معتبر و مستند تاریخ مرتب کرڈالی بلکہ عربی زبان و ادب کوبھی گرانقدر سرمایہ عطا کیا۔حضرت ابو طالب کے کلام کے حوالے سے امیر المومنین حضرت علی ابن ابو طالب نے ارشاد فرمایا،’’اخلاق وادب کے ساتھ ذوق ِشعریت کی تسکین حاصل کرنا ہو تو دیوان ِابو طالب کا مطالعہ کریں۔ کیونکہ حضرت ابو طالب کے کلام کاہر ہر لفظ عشق رسالت ؐ کا عکاس ہے ۔
یقینا خداوند عالم نے حضرت محمد کو منزلت وکرامت سے سرفراز فرمایا ہے کہ خداوند عالم کی تمام مخلوقات میں سب سے بلند مرتبہ حضور اکرم ؐکی ذات گرامی کاہے۔
خدا نے اُن کے جلال وقدر کے لیے اُن کے نام کو بھی اپنے نام ہی سے مشتق کیا چنانچہ و ہ صاحب عرش محمود ہے اور یہ محمد ؐہیں۔ جب قریش نے پیغمبر اکرمؐ اور مسلمانوں کا ایک شدید اقتصادی،سماجی اور سیاسی بائیکاٹ کرلیا اور اپنے ہر قسم کے روابط ان سے منقطع کرلیے تو آنحضرت کے واحد حامی اور مدافع ابوطالب اپنے تمام کاموں سے ہاتھ کھینچ لیا اور برابر تین سال تک ہاتھ کھینچے رکھا اور بنی ہاشم کو ایک درے کی طرف لے گئے جو مکہ کے پہاڑوں کے درمیان تھا اور شعب ابوطالب کے نام سے مشہور تھااور وہاں پر سکونت اختیار کرلی۔ ان کی فداکاری کا یہ عالم تھا کہ ہر رات پیغمبر اکرم کو ان کے بستر سے اٹھاتے اور دوسری جگہ ان کے آرام کے لئے مہیا کرتے اور اپنے فرزندوں علی، جعفر اور عقیل کو ان کی جگہ پر سلادیتے تاکہ اگر کوئی نقصان ہو تو میری اولاد کو ہویتیم عبد اللہ ہادی برحق نبی کریم ؐ کو کوئی گزند نہ پہنچے ۔ ایک رات علی نے اُن سے کہا،’’باباجان!میں قتل کردیا جاؤں گا‘‘توابوطالب نے اُن سے فرمایا؛
میرے بیٹے!صبر واستقامت سے کام لینا کیونکہ گھبرانے یا خوفزدہ ہونے کی بجائے ہمیشہ صبر واستقامت ہی دانشمندی کی علامت ہے (اور جہاں تک موت کا تعلق ہے تو)ہر زندہ انسان کے قدم موت کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔میرے نورِنظر! اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کے لیے یہ ایک انتہائی سخت آزمائش ہے لیکن یہ انتہائی سخت آزمائش بھی اس ذاتِ گرامی کے لیے ایثار وفداکاری کی خاطرہے جو خود محبوب بھی ہیں اور محبوب (سیدنا عبداللہ ؑ) کے فرزندبھی اگر آپ کو(اس ایثار وفداکاری کی راہ میں) جان بھی دینا پڑے تو (کیا ہوا)موت کے تیر توچلتے ہی رہتے ہیں۔