جنیوا کے بعد لندن میں بھی آزاد بلوچستان کے اشتہارات‘ پاکستان کا فون پر شدید احتجاج ایسے اشتہارات پاکستان کی سلامتی پر حملہ ہے جو ناقابل برداشت ہونا چاہیے

جنیوا کے بعد لندن میں بھی آزاد بلوچستان کے اشتہارات‘ پاکستان کا فون پر شدید احتجاج ایسے اشتہارات پاکستان کی سلامتی پر حملہ ہے جو ناقابل برداشت ہونا چاہیے

سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے برطانیہ کے ہائی کمشنر تھامس ڈریو سے ٹیلیفون پر بات کی اور لندن میں ٹیکسیوں پر درج ’فری بلوچستان‘ کے اشتہارات اور دیگر ذرائع سے پاکستان کی جغرافیائی سالمیت اور خودمختاری کےخلاف درج نعرے نشر کرنے پر ان سے شدید احتجاج کیا اور اسے ملک کی سالمیت و خود مختاری پر براہ راست حملہ قرار دیا۔ دفتر خارجہ کے بیان میں بتایا گیا ہے کہ برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمیشن نے یہ معاملہ الگ سے برطانیہ کی وزارت خارجہ کے ساتھ بھی اٹھایا ہے۔ تہمینہ جنجوعہ نے برطانوی ہائی کمشنر کو مطلع کیا پاکستان اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق ان تمام نعروں کو مسترد کرتا ہے جو مذموم عزائم کے ساتھ پاکستان کی جغرافیائی سالمیت اور خود مختاری کو نشانہ بنانے کی کوشش پر مبنی ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اس مذموم مہم کے پس پردہ کارفرما عزائم سے بخوبی آگاہ ہے لیکن ایک دوست ملک کی سرزمین ایسی سرگرمیوں اور غلط مہم کیلئے استعمال نہیںہونی چاہیے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ اسی قسم کی مہم ڈیڑھ ماہ قبل جنیوا میں بھی چلائی جا چکی ہے جس پر پاکستان نے سوئٹزر لینڈ سے شدید احتجاج کیا تھا۔ دریں اثناءوزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے لندن پہنچنے پر میڈ یا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ چند لوگ پاکستان کو بدنام کرنے کیلئے جنیوا‘ لندن میں اشتہار بازی کر رہے ہیں‘ پاکستان مخالف اشتہار بازی کی کوئی حیثیت نہیں‘ لندن میں بلوچستان سے متعلق غلط فہمیاں پھیلائی جا رہی ہیں۔
بلوچستان کی علیحدگی کیلئے کچھ گروپ صوبے کے اندر سرگرم اور کچھ بیرون ممالک عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کیلئے جھوٹ‘ منافقت اور بے بنیاد الزامات اور پروپیگنڈے سے کام لے رہے ہیں۔ کچھ مقامی وڈیروں کا علیحدگی کا دیرینہ خواب ہے‘ ان علیحدگی پسندوں کو پاکستان دشمن اپنے مکروہ مقاصد کیلئے استعمال کرتے رہے ہیں۔ بھارت ان میں سرفہرست ہے۔ اسکی طرف سے کشمیر کا بدلہ بلوچستان میں چکانے کے دعوے اور اعلانات اسکے بلوچستان میں مداخلت کا واضح ثبوت اور اعتراف ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور انکے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول برملا ایسے بیانات دے چکے ہیں۔ بھارت پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے باعث اپنے خبث باطن کو خفیہ رکھنے کا تکلف بھی نہیں کرتا۔ اسکے افغانستان میں ڈیڑھ درجن قونصل خانے پاکستان میں دہشت گردی کیلئے استعمال ہو رہے ہیں۔ افغان حکمران مسلمان ہونے کے باوجود بھارت کی کٹھ پتلی کا کردار ادا کرتے ہوئے بھارت کی پاکستان میں مداخلت کیلئے آسانی پیدا کرتے ہیں۔ دہشت گردوں اور بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کی افغانستان میں بھارت کی زیرنگرانی تربیت ہوتی اور انہیں اسلحہ و بھاری رقوم فراہم کی جاتی ہیں۔ اسکے ثبوت امریکہ اور اقوام متحدہ کو ایک ڈوزیئر کی صورت میں پیش کئے جا چکے ہیں۔ امریکہ نے اس پر کیا نوٹس لینا تھا‘ وہ بھارت کا پشت پناہ بن چکا اور اسکو خطے کا لیڈر بنانے کے سنہرے خواب دکھا رہا ہے۔ امریکہ میں ایک تھنک ٹینک بلوچستان کی نام نہاد آزادی کا واویلا کررہا ہے۔
علیحدگی پسند صوبہ بلوچستان سے ملحقہ ایرانی علاقے کو ملا کر گریٹر بلوچستان کی تخلیق چاہتے ہیں۔ ایران نے انکے عزائم سخت اقدامات کے ذریعے خاک میں ملادیئے۔ ان لوگوں کی 1947ءاور 1973ءمیں شورش کو فوجی کارروائی کے ذریعے کچل دیا گیا۔ اب وہاں سے اگر علیحدگی کی آواز اٹھتی بھی ہے تو اسکی حیثیت صدابصحرا سے زیادہ نہیں ہوتی مگر پاکستان میں علیحدگی پسندوں کی کارروائیوں میں خاطرخواہ کمی نہیں آتی البتہ حکومت اور بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کے ساتھ برسر پیکار ادارے صوبے میں امن کے قیام کے دعوے ضرور کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں علیحدگی پسندوں نے میڈیا کو خوفزدہ کرنے کیلئے دھمکیاں دیں اور اخبارات اور جرائد کی اشاعت روکنے کو کہا۔ اسے حکومت نے دھمکی برائے دھمکی کے طور پر لیا مگر شدت پسندوں کی دھمکی کارگر ثابت ہوئی۔ ایسے مواقع پر دہشت گردوں کو دوٹوک جواب دینے کی ضرورت تھی۔ اخبارات کو دھمکیاں آسمان سے نہیں آئی تھیں‘ شہروں میں موجود دہشت گردوں نے دی تھیں۔ حکومت کو اخبارات کی ترسیل کا انتظام کرنا چاہیے تھا خواہ اس کیلئے اداروں کو ٹرک اور گاڑیاں استعمال کرنا پڑتیں۔ ایک روز اخبارات کی ترسیل رکوا کر دہشت گرد اپنی طاقت اور حکومت و اداروں کی بے کسی کا اظہار کرنے میں کامیاب ٹھہرے‘ اس سے پاکستان سے محبت کرنیوالوں کو کیا پیغام گیا ہوگا؟
بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہو سکتی ہے۔ قلیل تعداد میں ان کا ہونا بھی خطرناک ہے‘ دو چار کلاشنکوف بردار کسی بڑے شہر میں بھی اندھا دھند فائرنگ کرکے خوف و ہراس پھیلا سکتے ہیں۔ بلوچستان میں بیرونی ہاتھ کو یقیناً نظرانداز نہیں کیا جا سکتا تاہم جہاں اندرونی اتحاد کی ضرورت ہے‘ وہاں اتحاد پیداکرکے‘ جہاں سختی کی ضرورت ہے وہاں سخت اقدامات اور جہاں نرمی دکھانے اور شدت پسندوں کو بات چیت کے ذریعے قومی دھارے میں لانے کی ضرورت ہے‘ وہاں یہ لائحہ عمل اختیار کرکے حالات کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
عام بلوچ کو اسکی محرومیوں کا احساس دلا کر شدت پسندی پر قائل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بلوچوں کی محرومیاں دور کرنے کیلئے بڑے بڑے پیکیجز کا اعلان کیا گیا‘ عوامی نمائندوں کو فنڈز کے نام پر بڑی بڑی رقمیں دی گئیں مگر پیکیجز اور فنڈز اصل مقاصد کیلئے بہت کم استعمال ہوئے جس سے عام بلوچ کسمپرسی کا شکار ہے۔ وہ اگرچہ دہشت گردوں کا ساتھی نہیں ہے مگر پاکستان کیلئے بندوق اٹھانے سے بھی گریز کرتا ہے۔ ایسے بلوچوں کو پاکستان کے دفاع پر آمادہ کرنا ہے جو تعلیم و تربیت ہی سے ممکن ہے۔ اس حوالے سے آج منصوبہ بندی کرکے اس پر عمل کیا جائے تو نتائج کئی سال بعد برآمد ہونگے۔ اس وقت تک خاموش نہیں بیٹھا جا سکتا۔ جہاں بلوچستان کے اندر موجود امن تباہ کرنے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹنے کی ضرورت ہے وہیں انکے اسلحہ او رقوم کی رسد کے ذرائع کاٹنے کی فول پروف پلاننگ بھی ہونی چاہیے۔
بیرون ممالک بیٹھ کر کوئی جلاوطن حکومت بنا رہا ہے کوئی اشتہار بازی کررہا ہے اور کوئی پمفلٹ گرارہا ہے۔ اس پر محض رسمی بیان بازی اور سفارتخانوں سے احتجاج ہی کافی نہیں ہے۔ جنیوا میں ستمبر کے وسط میں بلوچستان کی علیحدگی کے حوالے سے اشتہارات لگے تو اس پر رسمی احتجاج کیا گیا۔ بھارت میں کوئی نائلہ بلوچ قادری پاکستان کیخلاف سرگرم ہے‘ وہ وہاں جلاوطن حکومت بنانے کی تیاری کررہی ہے۔ کئی بلوچستان کی آزادی کے نام نہاد لیڈر بھارت میں موجود ہیں اور پاکستان کیخلاف ہرزہ سرائی بھی کرتے ہیں مگر پاکستان کی وزارت خارجہ کی طرف سے اس پر شدید احتجاج نہیں کیا جاتا جس سے حوصلہ پا کر یہ لوگ ملک ملک گھوم رہے اور پاکستان کیخلاف زہر اگل رہے ہیں۔ بلوچستان سے ایمان کی حد تک محبت کرنے کی ضرورت ہے جو ملک اس کیخلاف بات کرے اور اسکی علیحدگی کی تحریک چلانے والوں کی پشت پناہی کرے‘ اسکے سفیر کی بے دخلی کم سے کم کارروائی ہونی چاہیے ورنہ یہ دہشت گرد ہر ملک میں پاکستان کیخلاف یوں ہی سرگرم رہیں گے۔ جنیوا میں بلوچستان کی علیحدگی کیلئے سرگرمیاں بھی گوارہ نہیں ہونی چاہئیں مگر برطانیہ میں ایسا تو ناقابل برداشت ہے۔ بلوچستان سے ہماری کمٹمنٹ کا اظہار وزیراعظم خاقان عباسی کے بیان سے ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ چند لوگ پاکستان کو بدنام کرنے کیلئے اشتہار بازی کررہے ہیں جس کی کوئی حیثیت نہیں‘ ایسا رویہ ریت میں منہ چھپانے اور بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرنے کے مترادف ہے۔ برطانیہ جس شکل میں پاکستان کی تشکیل کرکے گیا تھا‘ اسے ہم نے خود اپنی کوتاہی سے تقسیم کردیا۔ برطانیہ جاتے ہوئے کشمیر کا مسئلہ کھڑا کرگیا ہم اس سے اس مسئلہ کے حل کی توقع کرتے ہیں مگر اسکی سرزمین پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے استعمال ہورہی ہے۔ کراچی کو قائد متحدہ نے تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔ اس پر قتل و غارت گری سمیت سنگین جرائم کے مقدمات درج ہیں۔ اسکے باوجود اسے وہاں دندنانے کی اجازت ہے اور اب بلوچستان کے علیحدگی پسند بھی برطانیہ کی سرزمین پاکستان کی سالمیت اور سلامتی کیخلاف استعمال کررہے ہیں۔ پاکستانی وزارت خارجہ کو اس حوالے سے برطانیہ کے ساتھ جتنا ممکن ہے‘ سخت احتجاج کرنا چاہیے ورنہ دہشت گرد شہ پا کر دیگر ممالک میں بھی ایسی اشتہار بازی کرتے نظر آئینگے۔