پاک چین دوستی میں رخنہ ڈالنے کی کوئی بھارتی سازش بہرصورت کامیاب نہیں ہونے دینی چاہیے

پاک چین دوستی میں رخنہ ڈالنے کی کوئی بھارتی سازش بہرصورت کامیاب نہیں ہونے دینی چاہیے

چین کا ہرصورت پاکستان کے مفادات کے تحفظ کا اعلان اور وزیر خارجہ کی ”ون چائنا پالیسی“ کی حمایت


چین نے دہشت گردی کیخلاف پاکستان کی جنگ کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے‘ ہم اپنے دوست ملک کے مفادات کا ہر صورت تحفظ کرینگے۔ اس سلسلہ میں گزشتہ روز بیجنگ میں چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے اپنے ہم منصب وزیر خارجہ پاکستان خواجہ محمد آصف سے ملاقات کے بعد انکے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بدلتی ہوئی علاقائی اور بین الاقوامی صورتحال میں پاکستان اور چین ایک ساتھ کھڑے ہیں‘ ہم مانتے ہیں کہ پاکستان کئی دہائیوں سے دہشت گردی کا شکار ہے اور جاری دہشت گردی کے دوران اس نے لازوال قربانیاں دی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کو بھی پاکستانی قربانیوں کا اعتراف کرنا چاہیے۔ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے تمام ممالک کو مشترکہ کوششیں بروئے کارلانا ہونگی۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن کا قیام پاکستان اور چین کے مفاد میں ہے‘ ہم پاکستان کی ترقی اور استحکام کیلئے اسکے ساتھ کھڑے ہیں‘ ہم خطے میں امن کیلئے کام کرینگے۔ انہوں نے کہا کہ پاک چین سٹرٹیجک تعلقات مزید مضبوط کرنے کیلئے پرعزم ہیں اور پاکستان اور چین ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرتے رہیں گے۔ سی پیک ایک عظیم منصوبہ ہے جس پر ہمارے مفادات مشترکہ ہیں۔ اس موقع پر خواجہ محمد آصف نے کہا کہ پاکستان اور چین کی پالیسی بے مثال اور قابل تقلید ہے اور دونوں ممالک علاقائی اور عالمی فورموں پر ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں۔ انکے بقول افغان مسئلہ کا فوجی حل ممکن نہیں‘ یہ صرف بات چیت اور امن سے ہی ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ون چائنا پالیسی کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔ انکے بقول سی پیک چین کے صدر کا فلیگ شپ منصوبہ ہے اور یہ منصوبہ باہمی رابطوں اور خطے کی ترقی کیلئے بہت اہم ہے‘ چاہے کچھ بھی ہو جائے‘ سی پیک کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائیگا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور چین دفاعی و علاقائی سلامتی کیلئے ایک دوسرے سے بھرپور تعاون کرینگے۔
پاک چین دوستی بلاشبہ کئی دہائیوں کا خلوص اور خوشبوئیں اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے اور اس خطہ میں پاکستان اور چین ہی وہ دو ملک ہیں جو نہ صرف ایک دوسرے کی ترقی و سلامتی بلکہ خطے کی سلامتی کے بھی ضامن ہیں جبکہ کسی بھی سردگرم میں انکی باہمی تعاون کی پالیسی میں کبھی فرق نہیں آیا۔ چیئرمین ماﺅ کی قیادت میںتشکیل پانے والے عوامی جمہوریہ چین کو سب سے پہلے پاکستان نے ہی تسلیم کیا اور پھر ان دونوں ممالک کے مابین ایسے خوشگوار اور دوستانہ مراسم استوار ہوئے کہ دنیا میں ضرب المثل بن گئے۔ اگرچہ قیام پاکستان کے بعد اسکی خارجہ پالیسیوں کی سمت امریکہ کے ساتھ متعین ہو گئی تھی تاہم چین کے ساتھ ہماری دوستی اتنی پراعتماد ہو گئی کہ امریکہ کی چین کے ساتھ پیدا ہونیوالی بدگمانیاں دور کرنے کیلئے بھی 60ءکی دہائی میں پاکستان نے دونوں ممالک کے مابین رابطے کے پل کا کردار ادا کیا۔ اس خطے میں بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم سے چین اور پاکستان دونوں کو خطرہ لاحق ہوا چنانچہ اس خطرے سے عہدہ برا¿ ہونے کیلئے دونوں ممالک نے باہمی اعتماد والی دفاعی پالیسی طے کی۔ اسی تناظر میں چین نے کشمیر پر غاصبانہ بھارتی قبضہ کی نہ صرف ہر علاقائی اور بین الاقوامی فورم پر مخالفت کی بلکہ کشمیریوں کے حق خودارادیت کی بھی بڑھ چڑھ کر حمایت کی اور کشمیر کو متنازعہ علاقہ تسلیم کرانے کیلئے مقبوضہ کشمیر کے باشندوں کو اپنے ملک کیلئے بھارتی ویزے کی پابندی سے آزاد کردیا اور محض ایک واﺅچر پر ان کا چین میں داخلہ ممکن بنا دیا۔ اسی طرح 60ءکی دہائی میں پاکستان نے بھی اروناچل پردیش کے تنازعہ میں چین کی کھل کر حمایت اور بھارتی فوجوں کی چین سے ملحقہ اس ریاست پر جبراً تسلط جمانے کی کوششوں کی مذمت و مخالفت کی۔ اگرچہ اس مذموم کوشش میں بھارتی فوجوں کو چین کی فوج کے ہاتھوں بھی ذلت آمیز شکست سے دوچار ہو کر الٹے پاﺅں بھاگنا پڑا تھا اسکے باوجود بھارت کی ہندو قیادت نے خطے میں اپنے توسیع پسندانہ عزائم برقرار رکھے جن کے تحت بھارت نے کشمیر کے غالب حصے پر تسلط جمانے کے بعد پاکستان پر 65ءاور 71ءکی دو جنگیں مسلط کیں۔ پاکستان کو مکتی باہنی کی سازش کے تحت دولخت کیا اور سقوط ڈھاکہ کے بعد وہ باقیماندہ پاکستان کی سلامتی کے بھی درپے ہوگیا۔
اپنی ان سازشوں کو پروان چڑھانے کیلئے پہلے بھارت کو سوویت یونین کی سرپرستی و معاونت حاصل رہی اور سوویت یونین کے ٹکڑوں میں بٹنے کے بعد بھارت نے اپنا قبلہ تبدیل کرکے امریکہ کو اپنے توسیع پسندانہ عزائم کا نگہبان بنالیا۔ چنانچہ ان سازشوں کے توڑ کیلئے چین اور پاکستان باہمی دفاعی‘ تجارتی تعاون پر متفق اور ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہوئے اور اسی ناطے سے پاک چین دوستی شہد سے میٹھی‘ ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے گہری قرار پائی جسے خطے میں عالمی سطح پر پیدا ہونیوالی کوئی بھی تبدیلی متاثر نہیں کرسکی۔ پاکستان کی خارجہ پالیسیاں اگرچہ امریکہ کے ساتھ وابستہ تھیں مگر اس نے بھارت کی مسلط کردہ دونوں جنگوں میں پاکستان کے ساتھ طوطا چشمی کی جبکہ ان دونوں جنگوں میں چین پاکستان کی ڈھال بنا رہا اور باوجود اسکے کہ امریکہ اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کیلئے بھارت کی معاونت سے چین کیلئے بھی خطرے کی گھنٹی بجا رہا تھا‘ اسکے باوجود چین کے پاکستان پر اعتماد میں کوئی کمی نہیں آئی اور پاکستان کے امریکہ کی جانب جھکاﺅ سے چین نے اپنے لئے کبھی کوئی خطرہ محسوس کیا نہ پاکستان سے کسی قسم کے تحفظات کا اظہار کیا کیونکہ اس خطے میں پاکستان اور چین کا مشترکہ دشمن بہرصورت بھارت ہے جس کیخلاف پاکستان اور چین کا مثالی اتحاد قائم ہوچکا ہے۔ اسی تناظر میں چین نے دہشت گردی کی جنگ میں بھی پاکستان کے کردار اور قربانیوں کی ہر فورم پر ستائش کی اور دنیا سے بھی پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرنے کا تقاضا کیا۔ چین نے پاکستان پر عالمی اقتصادی پابندیاں لگوانے کی بھارتی سازشیں بھی اقوام متحدہ میں اپنی ویٹو پاور استعمال کرکے ناکام بنائیں اور بھارت کیلئے نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی رکنیت بھی ناممکن بنادی۔ اسکے برعکس امریکہ نے ہر محاذ پر پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچایا اور دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کے الزامات کے تحت پاکستان کو اقوام عالم میں تنہا کرنے کی بھارتی سازشوں کی خود بھی پاکستان پر اسی نوعیت کے الزام لگا کر حوصلہ افزائی کی۔ اب جبکہ امریکہ کی ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی سازشیں ہورہی ہیں اور اس پر عالمی اقتصادی پابندیاں لگوانے کی بھی دھمکیاں دی جارہی ہیں‘ ہمیں چین جیسے قابل بھروسہ دوست کی پہلے سے بھی زیادہ ضرورت ہے جس کیلئے گوادر پورٹ اور اقتصادی راہداری کے باہمی منصوبے نے پہلے ہی فضا سازگار بنادی ہوئی ہے۔
اگر باہمی اتفاق و اعتماد کی اس فضا میں بھی گزشتہ ہفتے بیجنگ میں منعقد ہونیوالی پانچ ملکی برکس کانفرنس میں پاکستان کے معاملہ میں چین کے لب و لہجے میں تبدیلی نظر آئی اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی موجودگی میں چین کے صدر نے پاکستان سے دہشت گردی کی جنگ میں بالخصوص دو کالعدم تنظیموں کیخلاف مو¿ثر کارروائی کیلئے ویسے ہی لب و لہجے میں ڈومور کا تقاضا کیا جیسے امریکہ اور بھارت کی جانب سے یہ تقاضا کیا جاتا ہے تو یہ صورتحال پاکستان کیلئے بلاشبہ لمحہ¿ فکریہ تھی کیونکہ اس سے بادی النظر میں یہی تاثر پیدا ہوا کہ چین پر بھی پاکستان کیخلاف دہشت گردی کے حوالے سے بھارتی زہریلے پراپیگنڈے کا جادو چل گیا ہے جس کے بعد پاکستان کیلئے خود کو عالمی تنہائی کا شکار ہونے سے بچانا انتہائی مشکل ہے۔ پاکستان نے اس حوالے سے بروقت معاملہ فہمی سے کام لیا اور برکس کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ کو مسترد کرتے ہوئے وزیر خارجہ کو فوری طور پر چین بھجوانے کا فیصلہ کیا۔ اس کیلئے ان کا پہلے سے طے شدہ امریکہ کا دورہ ملتوی کیا گیا اور وزیر خارجہ خواجہ آصف بیجنگ کے دورے پر چلے گئے جہاں انکی گزشتہ روز اپنے ہم منصب چینی وزیر خارجہ اور دوسرے متعلقہ چینی حکام سے مفصل میٹنگز ہوئیں جس کا مثبت نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ چین کو دہشتگردی کی جنگ میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے کسی قسم کے تحفظات پیدا ہوئے تھے تو وہ ان میٹنگز کی بنیاد پر دور ہوگئے اور مشترکہ پریس کانفرنس میں دونوں ممالک پہلے ہی کی طرح باہم شیروشکر نظر آئے جس سے یقیناً پاک چین لازوال دوستی میں دراڑیں پیدا کرنے کے بھارتی عزائم پر اوس پڑی ہے اور اسکے سارے خواب چکناچور ہوگئے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ سی پیک کے ناطے اس وقت پاکستان اور چین کے مفادات پہلے سے بھی زیادہ گہرائی کے ساتھ ایک دوسرے سے وابستہ ہوچکے ہیں جس میں ایک دوسرے کی سلامتی کا تحفظ و دفاع بھی مشترکہ مفادات کا لازمی تقاضا ہے۔ اس تناظر میں پاکستان اور چین ایک دوسرے کی ضرورت بن چکے ہیں چنانچہ پاکستان کی دوستی کھونے کا چین بھی متحمل نہیں ہو سکتا۔ اب سی پیک کی بنیاد پر دونوں ممالک کی ترقی و استحکام ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہے۔ اگر اس فضا میں برکس کانفرنس میں مودی کی موجودگی میں پاکستان کے کردار پر چین کی جانب سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا تو اس سے پاکستان کی دل آزاری ہونا فطری امر تھا۔ اسی تناظر میں پاکستان نے برکس کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ پر درست سٹینڈ لیا جس کا مثبت نتیجہ پاکستان چین دوستی کے مزید گہرے اور مزید قابل اعتماد ہونے کی صورت میں سامنے آیا۔ آج بلاشبہ پاکستان کو ایسی ہی مضبوط اور آبرومندانہ قومی خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے جس کیلئے پاکستان اب اپنی نئی سمت کا تعین کررہا ہے تو اس میں چین کے اعتماد میں کوئی کمی پیدا نہیں ہونے دینی چاہیے‘ نہ چین کا جھکاﺅ بھارت کی جانب ہونے کا کوئی موقع پیدا ہونے دینا چاہیے۔ اس تناظر میں وزیر خارجہ کا دورہ چین یقیناً کامیاب رہاہے جس کے دور رس مثبت نتائج مرتب ہونگے اور بھارت کو پاک چین دوستی میں رخنہ ڈالنے کی سازشوں میں بہرصورت نامرادی کا سامنا کرنا پڑیگا۔