دہشت گردی کے واقعات 13 فیصدرک گئے اور ہلاکتوں میں 40 فیصد کمی آئی

اسلام آباد ( سپیشل رپورٹ) پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 13 فیصد تک کمی واقع ہوئی اور ہلاکتوں میں 40 فیصد کمی آئی دہشت گردی کے زیادہ تر واقعات بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں محدود رہے جبکہ شمالی وزیرستان عسکریت پسندی کے اہم مرکز کی حیثیت سے سامنے آیا۔ پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سنڈیز کی سالانہ رپورٹ کے مطابق تحریک طالبان پاکستان اور بلوچ لبریشن آرمی سال 2019ء کے دوران ملک میں سب سے زیادہ عدم استحکام پیدا کرنے والے عناصر کے طور پر سامنے آئے۔ ٹی ٹی پی نے مختلف مقامات پر 82 اور بی ایل اے نے 27 حملے کیے جن میں سے بعض کے انتہائی سخت اثرات مرتب ہوئے تاہم اس سال داعش کی جانب سے ہونے والی شدت پسندانہ کارروائیوں میں واضح کمی ریکارڈ گئی 4 خودکش حملوں سمیت مجموعی طور پر 229 حملے ہوئے جن میں مرنے والوں کی کل تعداد 357 تھی اموات کی یہ شرح 2018ء کے مقابلے میں چالیس فیصد کم ہے جبکہ ان حملوں میں 729 افراد زخمی ہوئے۔ تحریک طالبان پاکستان اس سے علیحدگی اختیار کرنے والی جماعت حزب الاحرا اور ان جیسے دیگر نام نہاد مذہبی شدت پسند گروہوں کی جانب سے کی جانے والی کارروائیاں 158 تھیں جو 239 لوگوں کی اموات کا باعث بنیں قوم پرست باغی گروہوں جن میں بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچ لبریشن فرنٹ ہیں نے 57 حملے کیے جن کی وجہ سے 80 افراد جاں بحق ہوئے دریں اثناء دہشت گردی کے 14 واقعات ایسے پیش آئے جو فرقہ وارانہ پس منظر کے تھے ان میں مرنے والوں کی تعداد38 تھی جائزے میں مزید بتایا گیا ہے کہ مجموعی طور پر مرنے والے 357 افراد میں سے 164 عام شہری اور 163 سیکورٹی وقانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار تھے جبکہ ان میں سے 30 عسکریت پسند شامل ہیں سیکورٹی اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کو پہنچنے والا جانی نقصان غیر معمولی ہے اس کا سبب یہ ہے کہ 118 حملوں کا نشانہ یہی تھے یعنی کہ پورے ملک میں ہونے والی مجموعی دہشت گردی کی کارروائیوں میں سے 52 فیصد کا شکار سیکورٹی فورسز وقانون نافذ کرنے والے ادارے تھے۔ گزشتہ برس سیکورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے مختلف آپریشنز اور ان سے جھڑپوں وتصادم میں 113 عسکریت پسند ہلاک کیے گئے تھے 2018ء میں ایسی نوع کی کارروائیوں کے دوران105 عسکریت پسند ہلاک کیے گئے تھے پورے ملک میں مختلف سطح کیے گئے سرچ آپریشنز میں دہشت گردوں اور مسلح شدت پسند تنظیموں سے تعلق رکھنے والے 231 افراد کو حراست میں لیا گیا 2018ء کے مقابلے میں 2 فیصد کے معمولی فرق کے ساتھ گزشتہ برس سرحد پار سے پاکستان میں 118 حملوں کے واقعات سامنے آئے ان میں سے 4افغانستان سے تھے 123 بھارت سے اور ایک حملہ ایرانی بارڈر سے کیا گیا سرحد پار حملوں میں 91 پاکستانی جانوں کا نقصان ہوا جس میں سے61 عام شہری تھے 29 آرمی کے اہلکار جبکہ ایک کا تعلق رینجرز سے تھا رپورٹ کے مطابق حکومت پاکستان کی تمام تر کوششوں کے باوجود دہشت گردی کی مالی معاونت پر قابو پانے کا مسئلہ ابھی تک ایک اہم چیلنج کے طور پر برقرار ہے محض ایف اے ٹی ایف کے مطالبات کی مجبوری میں وقتی حکمت عملیوں اور تراکیب کے استعمال کی بجائے پاکستان کو مستحکم ادارہ جاتی حیثیت میں مالی معاونت کی روک تھام پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔