بھٹو کیس کے فیصلہ کی طرح عدلیہ کا یہ فیصلہ بھی سوالیہ نشانات چھوڑ گیا ہے

بھٹو کیس کے فیصلہ کی طرح عدلیہ کا یہ فیصلہ بھی سوالیہ نشانات چھوڑ گیا ہے

پانامہ کیس کے فیصلہ پر قانونی‘ آئینی ماہرین‘ سیاستدانوں اور دوسرے حلقوں کامتضاد ردعمل اور عدلیہ کی آزادی کے تقاضے

پانامہ کیس میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی وسیع تر بنچ کے صادر ہونیوالے گزشتہ روز کے فیصلہ پر آئینی‘ قانونی اور عدالتی حلقوں کے علاوہ سیاسی اور عوامی حلقوں میں بھی متضاد آراء کا اظہار کیا جارہا ہے جس سے بادی النظر میں یہی تصور ابھر رہا ہے کہ جو عدالتی فیصلہ قوم کے مختلف حلقوں میں بے شمار سوالات اٹھائے جانے کا باعث بن رہا ہے‘ اسے آئندہ کیلئے بطور نظیر عدلیہ کے روبرو کیسے پیش کیا جا سکے گا۔ اس حوالے سے یہ صورتحال عدل گستری کے معتبرین سے غوروفکر کی متقاضی ہے کہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف نواب محمد احمد خان کے قتل کیس میں لاہور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کا فیصلہ قانونی‘ آئینی اور عوامی حلقوں میں آج تک متنازعہ بنا ہوا ہے جو قتل کے مقدمات میں عدلیہ کے روبرو کبھی بطور نظیر پیش نہیں کیا جاتا جبکہ اس فیصلہ کو سری لنکا کے اس وقت کے چیف جسٹس راجہ رتنم تک عدالتی قتل سے تعبیر کرچکے ہیں‘ اگر اب میاں نوازشریف کی بطور وزیراعظم اور بطور رکن قومی اسمبلی نااہلیت سے متعلق سپریم کورٹ کے وسیع تر بنچ کا گزشتہ روز کا فیصلہ بھی حالیہ جاری بحث مباحثہ کے نتیجہ میں متنازعہ قرار پایا تو عدلیہ کے تشخص اور وقار کا تحفظ کیسے ممکن ہو پائے گا۔ گزشتہ روز سابق وفاقی وزراء خواجہ سعدرفیق‘ شاہد خاقان عباسی‘ احسن اقبال‘ زاہد حامد اور انوشہ رحمان نے اپنی مشترکہ پریس کانفرنس میں پانامہ کیس کے فیصلہ پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسکے حوالے سے کئی سوالات اٹھائے ہیں اور مسلم لیگ (ن) کے عوامی مینڈیٹ کا ہر صورت دفاع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سعدرفیق کے بقول صادق اور امین کی کہانی سیاست دانوں سے بڑھ کر اسی جگہ تک جانی چاہیے جہاں فیصلے ہوتے ہیں۔ نامور قانون دان اور سابق صدر سپریم کورٹ بار علی احمد کرد نے بھی پانامہ کیس کے فیصلے کا اسی تناظر میں جائزہ لیتے ہوئے باور کرایا ہے کہ صادق اور امین کا معاملہ اب یہیں پر نہیں رکے گا بلکہ بہت دور تک جائیگا اور اس کا اطلاق سیاست دانوں ہی نہیں‘ عدلیہ اور دوسرے مقتدر اداروں میں بیٹھے افراد پر بھی ہوگا۔ احسن اقبال اس فیصلے کو ’’کھودا پہاڑ نکلا چوہا‘‘ سے تعبیر کررہے ہیں جبکہ حکومتی حلیف مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ پانامہ کا معاملہ کرپشن کا نہیں‘ سیاسی بحران پیدا کرنے کا معاملہ ہے اور جس بنیاد پر منتخب وزیراعظم کو نااہل قرار دیا گیا ہے‘ اس پر ماہرین قانون و آئین بھی حیران ہیں۔ انکے بقول ہماری عدلیہ کا فیصلہ کسی مثال کے طور پر پیش نہ کیا جا سکے گا تو کتنی سبکی ہوگی اور اگر اس فیصلے کی روشنی میں ملک میں کچھ ہو جاتا ہے تو کون اس کا ذمہ دار ہوگا۔ انہوں نے بجا طور پر یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ پانامہ کیس میں وزیراعظم کی نااہلیت کے بعد کیا پانامہ کمپنیوں اور فلیٹس کا پیسہ پاکستان آجائیگا۔ اسی طرح سینئر سیاست دان مخدوم جاوید ہاشمی بھی پانامہ کیس کے فیصلہ پر اپنے تحفظات کا اظہار کررہے ہیں جن کے بقول اس فیصلے کے عدلیہ‘ مجلسی زندگی‘ معیشت اور بین الاقوامی معاملات پر بھی اثرات پڑیں گے جبکہ نوازشریف کی نااہلی کا یہ فیصلہ نظیر کے طور پر بھی پیش نہیں کیا جا سکے گا۔ اگر عمران خان‘ شیخ رشید اور سراج الحق اس فیصلہ پر مسرت و اطمینان کا اظہار کررہے ہیں تو وہ کیس کے میرٹ کے باوصف اس کیس کے درخواست دہندگان ہونے کے ناطے اپنی کامیابی کا جشن منا رہے ہیں۔ جب صادق اور امین کے حوالے سے انکے اپنے بھی زد میں آنے کی فضا بنے گی تو اس فیصلہ پر ان کا مسرت و انبساط کا اظہار کافور ہو جائیگا کیونکہ قوم اب اس فیصلہ کے ہر طبقہ زندگی کے لوگوں پر اطلاق کی متقاضی ہوگی۔ 

اگر کیس کے میرٹ پر بات کی جائے تو یہ بنیادی طور پر آف شور کمپنیوں کے حوالے سے لندن فلیٹس کی ملکیت کا کیس تھا کہ وہ وزیراعظم نوازشریف کے ہیں یا نہیں۔ اس حوالے سے تو وزیراعظم پر درخواست دہندگان کا الزام ثابت نہیں ہو سکا اور وہ آئین کی دفعہ 62(1)F کے تحت نااہلیت کیلئے قابو آئے ہیں تو اس الزام کے تحت کہ انہوں نے کیپٹل ایف زیڈ ای اور جبل علی امارات کے اثاثے اپنے کاغذات نامزدگی ظاہر نہیں کئے۔ ان اثاثوں میں کمپنی کے چیئرمین ہونے کے ناطے انکی وہ تنخواہ بھی شامل ہے جو انہوں نے وصول ہی نہیں کی جبکہ انہوں نے خود اس امر کا اقرار کیا ہوا ہے کہ کمپنی کے چیئرمین ہونے کے ناطے انکی تنخواہ دس ہزار درہم مقرر تھی جو انہوں نے وصول نہیں کی۔ اگر انہوں نے تنخواہ پر مبنی اپنے اس اثاثے کوخود ہی مخفی نہیں رکھا تو وہ صادق اور امین نہ ہونا کیسے قرار پاگئے جبکہ آئین کی متذکرہ دفعہ کے تحت کسی رکن پارلیمنٹ کی نااہلیت کا معاملہ اس حوالے سے پہلے ہی سپریم کورٹ کے ایک وسیع تر بنچ کے روبرو زیرسماعت ہے کہ اس میں نااہلیت کی معیاد کا تعین نہیں کیا گیا۔ اس ناطے سے سینئر قانون دان اور سابق صدر لاہور ہائیکورٹ بار عابد حسن منٹو اور سابق صدر سپریم کورٹ بار سید علی ظفر بھی اس رائے کا اظہار کرچکے ہیں کہ جب تک سپریم کورٹ کے وسیع تر بنچ میں زیرسماعت کیس کا فیصلہ صادر نہیں ہوجاتا اس وقت تک پانامہ کیس کی سماعت کرنیوالے عدالت عظمیٰ کے بنچ کو آئین کی دفعہ 62(1)F والی نااہلیت کو زیرغور نہیں لانا چاہیے تھا جبکہ ضیاء الحق کے دور میں آئین میں شامل کی گئی یہ شق پارلیمنٹ میں بھی نظرثانی کی متقاضی ہے۔ اس تناظر میں عدالت عظمیٰ کے متعلقہ فاضل بنچ کا یہ فیصلہ اس لئے بھی متنازعہ بنا رہے گا کہ اس میں وزیراعظم کو لندن فلیٹس کی اونرشپ کی بنیاد پر نااہل قرار نہیں دیا گیا جبکہ درخواست دہندگان کا اصل کیس ہی یہی تھا۔ اگر فیصلہ میں کیس کے میرٹ کے بجائے اس میں جے آئی ٹی کی جانب سے پیش کی گئی اضافی دستاویزات کی بنیاد پر وزیراعظم کو نااہل قرار دیا گیا جن میں وزیراعظم کی امارات کمپنی کی مقرر کردہ تنخواہ کا ثبوت ملا ہے جو انہوں نے وصول ہی نہیں کی تو اس کیس کے مدعا علیہان اس کیس میں عدالتی کارروائی اور صادر ہونیوالے فیصلے کو متنازعہ قرار دینے میں حق بجانب ہونگے۔ اب تو مدعا علیہان ہی نہیں‘ میاں نوازشریف کے مخالف ملک کے آئینی اور قانونی حلقے بھی اس فیصلے کو متنازعہ قرار دے رہے ہیں۔
اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں کہ کسی معاشرے کیلئے آزاد عدلیہ سے بڑی نعمت اور کوئی نہیں ہو سکتی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانوی وزیراعظم چرچل نے اسی حوالے سے یہ ضرب المثل فقرہ ادا کیا تھا کہ اگر ہمارے ملک میں عدالتیں آج بھی آزادی کے ساتھ کام کررہی ہیں تو ہمیں کسی سے بھی کوئی خطرہ نہیں۔ یقینی طور پر آزاد عدلیہ سے انصاف پر مبنی فیصلوں کی ہی توقع ہوتی ہے اور اگر بدقسمتی سے معاملہ اسکے برعکس نظر آنے لگے تو اس سے آزاد اور خودمختار عدلیہ کا تشخص اور وقار متاثر ہونا بعیداز قیاس نہیں رہتا۔ پانامہ کیس کے فیصلہ کے تحت ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کا جو تصور ابھرا تھا‘ وہ سب کچھ تو نہیں ہوا البتہ ایک اور منتخب وزیراعظم ضرور نااہل ہو کر گھر جا بیٹھے ہیں۔ اس سلسلہ میں جو فارمولا وزیراعظم کی نااہلیت کیلئے لاگو کیا گیا ہے‘ اب قوم اس تجسس میں رہے گی کہ یہی فارمولا اور کس کس پر لاگو کئے جانے کا متقاضی ہے۔ کیا عمران خان‘ جہانگیر ترین اور دوسرے وہ سب لوگ بھی اس فارمولے کی زد میں نہیں آتے جن کی آف شور کمپنیاں اور انکے ماتحت ہونیوالے کاروبار اور اس کاروبار کے ناطے لئے گئے اقامے ثابت ہوچکے ہیں۔ اسی طرح کیا نااہلیت کے اس فارمولے کا ملک کی ان تمام 435 شخصیات پر اطلاق نہیں ہونا چاہیے جن کے نام پانامہ لیکس میں شامل ہیں۔ اگر آج ملک کا منتخب وزیراعظم معمولی سی رقم اخفاء رکھنے پر نااہلیت کا مستوجب سزا ٹھہرا ہے جبکہ اس نے وہ رقم وصول بھی نہیں کی تو پھر اس فیصلہ پر خوشیاں منانے والوں کو سوچ رکھنا چاہیے کہ اس ابتداء کا انجام ہوتے ہوتے کون کون اسکی زد میں آچکا ہوگا۔ اگر عمران خان اور اس کیس کے دوسرے درخواست دہندگان میاں نوازشریف پر اربوں کی کرپشن کے الزامات ثابت نہیں کر سکے تو وہ اس فیصلہ کے تناظر میں خوشی کس بات پر منا رہے ہیں۔
پانامہ کیس کے فیصلہ کے بلاشبہ دوررس اثرات مرتب ہونے ہیں جس کی ابھی سے ابتداء ہوگئی ہے اور ان اثرات میں منفی اثرات غالب نظر آتے ہیں اس لئے شریف فیملی کی جانب سے پانامہ کیس کے فیصلہ کیخلاف نظرثانی کی درخواست دائر کی جاتی ہے جس کا مسلم لیگ (ن) کے مشاورتی اجلاس میں فیصلہ بھی کرلیا گیا ہے تو عدالت عظمیٰ کے فاضل متعلقہ بنچ کو فیصلہ کے حوالے سے ملک کے مختلف حلقوں کی جانب سے سامنے آنیوالی آراء کو بھی ضرور پیش نظر رکھنا چاہیے۔ عدلیہ کی آزادی کے حوالے سے اسکے وقار اور ساکھ پر بہرصورت کوئی دھبہ نہیں لگنا چاہیے۔