شہدائے جموں اور الحاق پاکستان

ارشاداحمدارشد
6نومبر1947ء کا دن تاریخ میں شہدائے جموں کے نام سے یاد کیا جاتا ہے لیکن اس دن کواگریوم شہدائے پاکستان کا نام دیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا اس لئے کہ 6نومبر کے دن جن لاکھوںکشمیری مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا انہیں درحقیقت پاکستان کے ساتھ محبت کی سزا دی گئی تھی۔نومبر۔وہ مہینہ ہے جس میںجموں کے مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا گیا۔ یوں تو پورے برصغیر میں مسلمانوں کا قتل عام ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت کیاگیا تھا لیکن جموں کشمیر میں رام کے پجاریوں نے رب کعبہ کے نام لیوائوں کے وسیع پیمانے پر قتل عام کے لئے جو بھیانک سازش کی اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے ۔وجہ یہ تھی کہ ہندوستان کی 567ریاستوں میں سے ریاست جموں کشمیر میںمسلمانوں کی واضح اکثریت تھی۔ یہاں مسلمان80فیصد تھے 20فیصد ہندو، سکھ اور بدھ مت تھے مزید یہ کہ ریاست جموں کشمیر بھارت سے کٹی ہوئی اورپاکستان سے اس طرح ملی ہوئی تھی جیسے گوشت سے ناخن جڑا ہوتا ہے یاجسم سے شہ رگ جڑی ہوتی ہے۔ ریاست جموں کشمیررقبے کے اعتبار سے حیدرآباددکن کے بعد دوسری بڑی لیکن جغرافیائی محل ووقوع کے اعتبارسے پاکستان کے لئے اہم ترین ریاست تھی۔اس کے جغرافیائی محل وقوع اوراہمیت کی وجہ سے قائداعظم محمدعلی جناح نے اسے پاکستان کی شہ رگ قراردیا تھا۔یہ ریاست پاکستان کے لئے جس قدراہم تھی اسی مناسبت سے یہاں مسلمانوں کے قتل عام کے بھیانک ،خوفناک اور وسیع ترمنصوبے بنائے گئے ۔مسلمانوں کے قتل عام کی منصوبہ بندی مہاراجہ ہری سنگھ نے گاندھی ،نہرواور انگریز حکومت کے تعاون سے بنائی ۔ چنانچہ پہلے لارڈ مائونٹ بیٹن،پھر گاندھی بعدازاں نہرو جموں پہنچے۔اس کے بعد4 نومبر 1947ء کو ہندوستانی وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل، وزیر دفاع سردار بلدیو سنگھ اور مہاراجہ پٹیالہ سردار دیوندر سنگھ جموں پہنچے۔ سب نے مہاراجہ سے طویل مشاورت کی ۔ریاست جموں کشمیر پر قبضہ کرنے اورمسلمانوں کی نسل کشی کی حتمی سازش تیار کی گئی۔
مسلمانوں کی حالت
ہم نے چاہا تھا کہ حاکم سے کریں گے فریاد
وہ بھی کم بخت تیراچاہنے والا ہی نکلا
والی تھی ۔مہاراجہ ہری سنگھ نہ صرف قاتلوں کی پشت پناہی کررہا تھا بلکہ اس نے کار خیر کے طور پراپنے ہاتھوں سے جموں میں کئی جگہ فائرنگ کر کے مسلمانوں کے قتل عام کاآغاز کیا۔ جبمہاراجہ کی مسلم دشمنی کی یہ حالت تھی تو ہندو دہشت گردوں کے ہاتھ بھلا کون روک سکتاتھاچنانچہ لاکھوں مسلمانوں کو بے دردی وبے رحمی سے شہید کردیاگیا۔جموںکے گلی کوچے خون مسلم سے بھر گئے ،لاشیںدریائے توی میں تیر رہی تھیں اوراس کاپانی سرخ ہوگیا تھا۔۔مہاراجہ کی بیوی مہارانی تارا دیوی بھی اس خونی مہم میں پیش پیش تھی۔اس نے ڈوگراسرداروں کا اجلاس طلب کیا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ تمام مسلمان افسروں کو نوکریوں سے برطرف کر دیا جائے اور کوئی بھی مسلمان افسر کسی ذمہ دار عہدے پر فائز نہ رہے۔تارادیوی کا جب اس پر بھی دل آسودہ نہ ہوا تووہ اپنے سر کے بال بکھیر ے جگہ جگہ پھر کراور دردناک آوازیں نکال کرہندوئوں کو مسلمانوں پر حملے کرنے کی ترغیب دیتی ،اشتعال دلاتی اور اسلحہ تقسیم کرتی رہی ۔ اگر چہ جموں میں مسلمانوں نے جوابی کاروائی کے لئے مشاورت کی لیکن مسلمانوں کی مزاحمت کو دبانے کیلئے بہت پہلے سے پروگرام بن چکے تھے ۔مہاراجہ کی فوج 13بٹالین پر مشتمل تھی جن میں ایک بٹالین مسلمانوں کی تھی ۔مسلمانوں کی بٹالین کو غیر مسلح کردیا گیا اور ان کے علاوہ بھی جن مسلمانوں کے پاس اسلحہ تھا نقص امن عامہ کے نام پر بحق سرکار ضبط کرلیا گیا۔مسلمانوں نے نہتے ہونے کے باوجود ہر جگہ جم کر اورڈٹ کر مقابلہ کیالیکن مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی مزاحمت پر قابو پانے کے لئے مہاراجہ پٹیالہ نے مزید کمک بھیج دی جنہوںنے قتل عام اور لوٹ مار کا سلسلہ تیز ترکر دیا۔ جب مسلمانوں کے قتل عام کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا تو انہوںنے جموں سے ہجرت کا فیصلہ کرلیا ۔
مہاراجہ ہری سنگھ کے وزیراعظم مہر چند مہاجن نے بھی مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ پاکستان ہجرت کرجائیںاور ہجرت کرنے والوں کویقین دلایا گیاکہ سرکاری سطح پر ان کے لئے گاڑیوں کا اتنظام کیا جائے گا ۔مہاجن کا یہ مشورہ دراصل چانکیائی حربہ تھا جس کا مقصدمسلمانوں کی طاقت کوتوڑنا اور ان کو بکھیر کر مارنا تھا۔پہلا قافلہ 60لاریوں پر مشتمل تھا جو اندر اوپر سے پوری طرح بھری ہوئی تھیں۔لاریوں کے ساتھ مسلح ڈوگرے فوجی بھی تھے جوبظاہر مسلمانوں کی حفاظت کے لئے تھے ۔جیسے ہی یہ قافلہ جنگل میں پہنچا راستے میں قافلے کے محافظ ڈاکوئوں کی طرح اہل قافلہ پر ٹوٹ پڑے ،سب سے پہلے بچوں، جوانوں اور بزرگوں کوشہید کیا گیا پھر مال واسباب لوٹ لیا گیا اور پھر ہندو فوجی بھیڑئیوں کی طرح عفت ماٰب مائوں بہنوں پر ٹوٹ پڑے۔
جموں میں ایک اور ظلم کی داستان دہرائی گئی وہ یہ کہ 5 نومبر 1947ء کو ڈھنڈورہ پٹوایا گیا کہ مسلمان جموں پولیس لائنز میںجمع ہو جائیں تاکہ انہیں پاکستان بھیجو ایا جاسکے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروںمسلمان بچوں اور عورتوں سمیت جمع ہوگئے۔انہیں چالیس ٹرکوںمیں سوار کیا گیا۔ جب یہ قافلہ سانبہ کے قریب پہنچا تو ان کواتار لیا گیا جہاں مشین گنیں نصب تھیں۔ چنانچہ جوان عورتوں کو الگ کرکے باقی تمام جوانوں، بچوں اور بوڑھوں کو آن کی آن میں گولیوں سے اڑا دیا گیا ۔جموں میں مسلمانوں کا قتل عام کرنے والا کوئی ایک گروہ نہ تھا بلکہ مہاراجہ کی12عددبٹالین کے فوجی تھے،پنجاب کی سکھ ریاستوں پٹیالہ، کپور تھلہ، فرید کوٹ ،نواحی علاقوں کے راجوں،مہاراجوں اور راجواڑوںکے ہزاروں فوجی تھے،آرایس ایس،ہندو مہاسبھا اوردیگر ہندو جنونی تنظیموں کے 50ہزار جتھوں کے مسلح افراد تھے جو غول درغول، پے درپے اور یکے بعد دیگرے مسلمان آبادیوں ،بستیوں ،محلوں ،دیہاتوں اور قصبوں پر قیامت اور موت کے ہرکارے بن کرحملہ آور ہوتے ۔جہاں سے گزرتے نسل آسانی کوخاک وخون میں تڑپا اور آبادیوں کا نام ونشان مٹادیتے۔ ایک ہی رات میں مسلمانوں کی دو سو سے زائد بستیوں کو آگ لگا دی گئی اور رات بھر نہتے لوگوں کی قتل و غارت گری کے علاوہ لوٹ مار کاسلسلہ جاری رہا۔جموں جو مسجدوں کا شہر تھا مندروں کے شہر میں تبدیل کردیا گیا۔ کٹھوعہ سے لیکر ادھمپور تک اور سرنکوٹ سے لیکر ریاسی تک ایک محتاط اندازے کے مطابق 7لاکھ مسلمان شہید کئے گئے اور 10لاکھ سے زائد مسلمانوںکو ہجرت کرنا پڑی۔اس زمانے کے دومشہور اخبارات لندن ٹائمز اور سٹیٹس مین ۔نے لکھا کہ مہاراجہ ہری سنگھ نے اپنی نگرانی میں ڈھائی لاکھ مسلمانوں کاقتل عام کرا ویا اوروحشیانہ قتل عام کے ذریعے جموں میںمسلمانوںکی نسل کش کی گئی ۔قتل عام کی شدت کااندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ جموں شہر کی آبادی 1941ء کی مردم شماری کے مطابق ایک لاکھ 70 ہزار تھی جو قتل عام کے بعد صرف 50 ہزار رہ گئی تھی۔یہ بات طے ہے کہ جموں کے مسلمانوں پر یہ لرزہ خیز قیامت صرف دو وجہ سے ٹوٹی تھی۔
اولاََ۔۔یہ کہ وہ مسلمان تھے ۔
ثانیاََ۔وہ اپنے دلوں میں پاکستان کی محبت اورآنکھوں میں الحاق پاکستان کے سپنے سجائے بیٹھے تھے۔
14 اگست 1947ء کوجہاں ہندوستان بھر کے مسلمانوں نے قیام پاکستان کی خوشیاں منائی تھیں وہاں جموں کے مسلمانوں نے بھی پاکستان کے قیام کا جشن منایا، شہر کو سبز جھنڈیوں سے سجایا، گھر گھر چراغاں کیا، سبز لباس پہن کر جلوس نکالے، پاکستان زندہ باد ، قائد اعظم زندہ باداور مسلم لیگ زندہ باد کے نعرے لگائے تھے اورپاکستان کے ساتھ اسی محبت کی پاداش میں ان کو انتقام کا نشانہ بنایاگیاتھا۔
ہر سال6 نومبر کو دنیا بھر میں کشمیری یوم شہدائے جموں اسی وجہ سے مناتے اور شہداء کے مقدس لہو سے روشن کی گئی تحریک آزادی کو ہرحال میں جاری رکھنے کاعزم واعادہ کرتے ہیں تاکہ اہل کشمیر کی پاکستان اور تحریک آزادی کے لئے دی جانے والی قربانیاں یاد رکھی جائیں۔امر واقعہ یہ ہے کہ مسلمانان جموں کی قربانیوں کو کسی بھی طور بھلایا نہیں جاسکتا۔اس لئے کہ اْنہوں نے الحاق پاکستان اورمسئلہ کشمیر کے حل کے لئے روز اول سے ہی بے پناہ مصائب جھیلے۔۔۔۔ اب بھی جھیل رہے اوربھارتی جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ کررہے ہیں۔ اگر چہ70سال کاعرصہ گزرنے کے باوجود بھی جموں کے ہندو دہشت گردوں کی ذہنیت نہیں بدلی ہے لیکن مسلمانوں کاعزم جواں اورحوصلے رواں ہیں۔انہیں یقین ہے کہ شہداء کا مقدس خون ضرور رنگ لائے گا اور تحریک کو اْس وقت تک جاری و ساری رکھا جائے گا جب تک آزادی کا سورج طلوع نہیں ہوتا۔نومبر کا دن ہر سال ہمیں اْس خون کی یاد تازہ کراتا اوراس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ شہداء جموں نے آزادی اور الحاق پاکستان کاجو خو اب دیکھا تھا۔۔۔وہ ہنوز تشنہ تکمیل ہے۔ جموں کے مسلمانوں کی قربانیوں کوآج 70سال ہوچلے ہیں عزم و ہمت اورجرأت وشجاعت کے ان پیکروں نے اپنے خون سے تحریک آزادی کا جو بیج بویا تھا وہ آج سیل رواں بن چکا ہے اور بھارتی فوج کاظلم وستم اور بھارتی حکمرانوں کا غروروتکبر اس سیل رواں کے سامنے خس وخاشاک کی طرح بہنے والاہے۔ان شاء اللہ وہ وقت دور نہیں جب خوابوں کی تعبیرآزادی کی صورت میں ضرور مسلما نانِ جموں کشمیر کو نصیب ہوگی۔