تحفظ پاکستان ایکٹ امتیازی قانون ہے‘ فوجی عدالتوں کی مدت نہیں بڑھانی چاہیے : فضل الرحمن
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی + آئی این پی) پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ تحفظ پاکستان ایکٹ میں توسیع نہیں ہونی چاہئے۔ یہ قانون دو سال کی مدت کے لئے تھا اب خودبخود اسے ختم ہونا چاہئے۔ یہ امتیازی قانون ہے جسے مدارس کے خلاف استعمال کیا گیا دہشت گرد دہشت گرد ہوتا ہے لیکن اس قانون کا غلط استعمال کیا گیا اس میں مذہب اور فرقہ کو شامل کیا گیا چونکہ یہ قانون سیکولر لوگوں نے بنایا ہے تو اس میں مذہب و فرقہ کے الفاظ شامل کر دیئے گئے۔ فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع نہیں ہونی چاہئے یہ تاثر دیا گیا ہے کہ سول عدلیہ بزدل ہوتی ہے اور انصاف نہیں دے سکتی یہ تاثر غلط ہے۔ پارلیمنٹ کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مارشل لاءکو دعوت دینا بغاوت کے مترادف ہے جو بھی جرم کرے اس کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہئے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کی تشویشناک صورتحال پر غور کے لئے20جولائی کو کشمیر کمیٹی کا اجلاس طلب کیا گیاہے، مسئلہ کشمیر صرف کشمیر کمیٹی کا مسئلہ نہیں بلکہ قومی مسئلہ ہے، اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت مسئلہ کشمیر کو دو طرفہ مسئلہ قرار نہیں دیا جاسکتا، مسئلہ کشمیر پر پارلیمنٹ کو کردار ادا کرنا چاہیے۔ کشمیر کمیٹی کے اجلاس میں او آئی سی کا اجلاس بلانے کی تجویز پر غور کیا جائے گا، حکومت بیرون ممالک میں سفارتی مشنوں کو متحرک کرے اور بھارت کا سفا ک چہرہ بے نقاب کرے، بھارتی مظالم کے خلاف پوری قوم احتجاج کرے، آرمی چیف نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مقبولیت حاصل کی ہے اور ان کو کامیاب سپہ سالار تصور کیا جارہاہے۔ پوسٹرز آویزاں کرا نا آرمی چیف کی شخصیت کو مجروح کرنے کے مترادف ہے، انہوں نے کہا وزیراعظم نوازشریف سے ملاقات میں مقبوضہ کشمیر کی تازہ ترین صورتحال پر تفصیل سے گفتگو ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے مسئلہ کشمیر بالکل پس منظر میں چلا گیا تھا، حکومت کو مسئلہ کشمیر کو خارجہ پالیسی کی ترجیح اول بنانے کے لئے آمادہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا، اور گزشتہ حکومت کو بھی آمادہ کیا تھا، وزیر اعظم نوازشریف نے طویل عرصے بعد اقوام متحدہ میں موثر انداز میں اٹھایا۔ انہوں نے کہا ایسا تاثر دیا جارہا ہے کہ تمام اداروں کا کام کشمیر کمیٹی نے کرنا ہے، کشمیر کمیٹی سے کوئی تنخواہ یا الاو¿نس نہیں لیتا، کشمیر کمیٹی کے حوالے سے غلط باتیں بلاوجہ پھیلانا درست نہیں۔ چیئرمین کشمیر کمیٹی کا درجہ وفاقی وزیر کے برابر رکھنا سفارتی ضرورت ہے اگر وفاقی وزیر سے کم درجہ ہوگا تو بیرون ممالک میں اعلی سطح کی ملاقاتوں میں رکاوٹ پیدا ہوگی، مسئلہ کشمیر پر گفتگو کرتے ہوئے احتیاط کرنی چاہئے، انہوں نے کہا سارا سال میڈیا خاموش رہتا ہے اور آج کل کشمیر کمیٹی کو موضوع بنایا ہوا ہے، کشمیر کمیٹی کا سالانہ بجٹ5کروڑ ہے، یہ خصوصی کمیٹی ہے جب ضرورت پڑتی ہے تو اجلاس بلایا جاتا ہے، کشمیر کے حوالے سے پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹیوں کی کارکردگی بھی پوچھی جائے۔
ت