• news

بشارالاسد کو جانا ہو گا، اتحادیوں سے ملکر داعش کو تباہ کر دیں گے: اوباما

کوالالمپور (نیٹ نیوز+ ایجنسیاں) امریکی صدر بارک اوباما نے کہا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی مل کر بالآخر دولت اسلامیہ (داعش) کو تباہ کر دیں گے۔ پیرس جیسے حملے برداشت نہیں کئے جا سکتے۔ امریکہ داعش کے خلاف اتحاد کی قیادت کرے گا۔ مسلمان نہیں ایک چھوٹا سا گروہ دہشت گردی میں ملوث ہے۔ اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنا مناسب نہیں۔ بشار الاسد کے اقتدار میں رہنے تک شام میں لڑائی ختم نہیں ہو سکتی۔ مٹھی بھر عناصر پوری دنیا کو یرغمال نہیں بنا سکتے، داعش کو مالی وسائل کی فراہمی روکیں گے، بشار الاسد کو ہٹائے بغیر شام میں لڑائی ختم نہیں ہو سکتی انہیں جانا ہوگا۔ ان کے مخالفین کی مدد کر کے بھی جنگ کا خاتمہ نہیں کیا جا سکتا، روس سیاسی تبدیلی کے لئے تیار ہے مگر بشار الاسد کو ہٹانے کے حق میں نہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ملائیشیا میں جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں کی تنظیم آسیان کی کانفرنس سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ داعش کا خاتمہ امریکہ کا حقیقی ہدف ہے اور وہ ایسا کرکے چھوڑے گا۔ عالمی برادری کو داعش کے خلاف متحد ہوکر کارروائی کرنی چاہئے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ہماری جنگ کسی مذہب سے نہیں، انہوں نے کہا کہ مٹھی بھر دہشت گرد پوری دنیا کو یرغمال نہیں بنا سکتے۔ داعش کو مالی معاونت کی فراہمی ہرصورت روکنا ہو گی، دہشت گردوں کی مالی معاونت ختم کرنے کے لئے سعودی عرب بھی تعاون کر رہا ہے۔ داعش سربراہ ابوبکر البغدادی جہاں بھی ہوا اسے جلد ڈھونڈ نکالیں گے، دہشت گرد تنظیم کے خوف کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے، داعش کو تباہ کرنا ہمارا حقیقی مقصد ہے۔ داعش کے خلاف جنگ میں 100 سے زائد ممالک حصہ لے رہے ہیں، داعش کو ختم کر کے دم لیں گے۔ دہشت گردی کے جواب میں انسانی حقوق کو نظر انداز کرنا یا کسی سے تعصب برتنا داعش کی کامیابی ہوگی۔ ہم وہ زمین ان سے واپس لے لیں گے جس پر وہ اس وقت قابض ہیں، ہم ان کا پیسہ حاصل کرنے کا ذریعہ کو کاٹ دیں گے، ہم ان کی قیادت کو پکڑیں گے، ہم ان کا نیٹ ورک اور سپلائی لائن تباہ کر دیں گے اور بالآخر انہیں تباہ کر دیں گے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی دہشت گردوں کے ساتھ کوئی نرمی نہیں برتیں گے۔ انہوں نے پیرس حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہوٹلوں، تھیٹرز اور ریستورانوں پر ہونے والے حملوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ وہ ہمیں میدان جنگ میں شکست نہیں سکتے اس لیے انہوں نے انداز تبدیل کر لیا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے شام کے مسئلے کے حل کے حوالے سے بات بھی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ شام اور عراق میں دولتِ اسلامیہ کو پسپا کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے روس پر زور دیا کہ وہ شام میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف کارروائی پر توجہ مرکوز کرے۔ انہوں نے کہاکہ شام میں روس کے حملوں سے داعش کو مدد ملی ہے۔ روس کو دمشق میں اپنی ترجیحات طے کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ نے آسیان کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کیا ہے آئندہ برسوں میں امریکہ خطے میں قائدانہ کردار ادا کرے گا۔ میں نے آسیان کے ممالک کے ساتھ امریکہ کی شراکت داری مضبوط کی ہے تاکہ آسیان متحد، مضبوط اور مؤثر تنظیم بنے، جو ایشیا کے مرکز میں استحکام، خوشحالی اور امن کا باعث ہو۔ ایک مشترکہ بیان میں وائٹ ہاؤس اور آسیان کے سربراہان مملکت نے کہا کہ انہوں نے اِن تعلقات کو آسیان امریکہ سٹریٹجک پارٹنر شپ میں تبدیل کر دیا ہے، جن کا مشترکہ ہدف ایشیا پیسیفک میں پرامن اور خوشحال علاقے کا قیام ہے۔ اوباما نے کہا کہ ایشیا پیسیفک میں واضح ضابطوں کی بنیاد پر پروان چڑھنے والا آسیان کلیدی کردار ادا کرے، ان کی نئی ساجھے داری آئندہ عشروں کے دوران ان کے تعلقات کو استوار کرنے میں رہنما کردار نبھائے۔ انہوں نے آسیان ملکوں سے کہا کہ وہ جنوبی بحیرہ چین کے لئے بین الاقوامی ضابطہ کار قائم کرے، جو خطہ چین اور خطے کے دیگر ملکوں کے درمیان حالیہ مہینوں میں متعدد علاقائی تنازعات کا سبب بنا رہا ہے۔ اوباما نے تمام ممالک کو یہ پیغام دینا چاہیے کہ دنیا اپنا کام جاری رکھے گی اور ان سے خوف زدہ نہیں ہوگی۔ دوشت اسلامیہ کے خلاف لڑنے کے لئے ہمارے پاس سب سے طاقتور ہتھیار یہ ہے کہ ہم کہیں کہ ہم (اس سے) نہیں ڈرتے، اسے ایسا گمان نہ ہونے دیں کہ وہ کچھ اہم کررہے ہیں۔ وہ قاتلوں کا ایک گروہ ہے۔ ہم وہ زمین ان سے واپس لے لیں گے جس پر وہ اس وقت قابض ہیں۔ ہم ان کی قیادت پکڑیں گے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی دہشت گردوں کے ساتھ کوئی نرمی نہیں برتیں گے۔ دہشت گردوں کا نیٹ ورک توڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، مٹھی بھر دہشت گرد دنیا کو یرغمال نہیں بنا سکتے، روس شام میں سیاسی طریقے سے تبدیلی پر رضامند ہے۔ بشار الاسد کو اقتدار میں رکھنے سے کام نہیں چلے گا، بشار الاسد کے حامیوں کی مدد کرکے جنگ ختم نہیں کرا سکتے۔شامی صدر بشار الاسد نے چینی ٹی وی سے انٹرویو میں کہا ہے کہ حملوں کی مدد سے شامی افواج داعش کیخلاف ہر محاذ پر آگے بڑھ رہی ہیں۔ ستمبر میں شام میں داعش کے ٹھکانوں پر فضائی حملے شروع کرنے پر روس کے شکرگزار ہیں۔ روس میں ہونے والے نئے امن مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں۔ شام میں روسی فضائی حملوں کے بعد امن و امان کی صورتحال قدرے بہتر ہوئی ہے۔ روس شام میں سیاسی مسائل کے حل کیلئے بھی عالمی سطح پر مرکزی کردار ادا کر رہا ہے۔اوباما نے اعلان کیا کہ آئندہ امریکہ آسیان کی قیادت کرے گا اور یہ کانفرنس امریکہ میں ہوگی۔
بشار الاسد
کوالالمپور (نیٹ نیوز) جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم آسیان کے دس رکن ممالک کے رہنماؤں نے اعلامیہ پر دستخط کیا ہے جس سے ’آسیان اقتصادی برادری‘ کا باضابطہ قیام عمل میں آیا ہے۔ اعلامیے کے بعد قریباً 60 کروڑ کی آبادی پر مبنی یہ خطہ آپس میں فری ٹریڈ خطہ بننے کے قریب تر آ گیا ہے۔ ہر چند کہ ابھی اس میں رکاوٹیں ہیں لیکن ملائیشیا کے وزیراعظم نجیب رزاق نے کہا کہ اس بلاک نے ’عملی طور پر قریباً ٹیکس اور محصول کی رکاوٹیں ختم کردی ہیں۔ اور اب ہم مزید آزاد نقل و حمل کی یقین دہانی اور ترقی اور سرمایہ کاری کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوششوں میں لگے ہیں۔‘ انہوں نے اعلامیے کو ’بڑی کامیابی‘ سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ یہ متحد اور معاشی طور پر منسلک برادری کے قیام کی راہ میں ’میل کا پتھر‘ ہے۔ بی بی سی کے مطابق خطے میں تجارت کا فروغ سست رفتاری کا شکار ہے اور آسیان معاشی برادری کا قیام حقیقت کے بجائے ابھی صرف تصور ہے۔ خیال رہے کہ آسیان کے رکن ممالک میں ملائشیا، لاؤس، برونائی، کمبوڈیا، انڈونیشیا، میانمار، فلپائن، سنگاپور، تھائی لینڈ اور ویتنام شامل ہیں۔ اس نئے اعلامیے کے تحت آٹھ شعبے کے پیشہ وروں کو اس خطے میں زیادہ آسانیاں حاصل ہوں گی جن میں انجینیئرز، آرکیٹیکٹس، نرسز، ڈاکٹرز، ڈینٹسٹ، اکاؤنٹینٹس، سروے کرنے والے اور سیاحت کے پیشہ ور شامل ہیں۔ اعلامیہ پر دستخط کے بعد آسیان کے رہنماؤں نے ایشیا پیسفک کے آٹھ دیگر ممالک کے رہنماؤں سے بھی ملاقات کی۔ ان میں امریکہ، چین، جاپان، جنوبی کوریا، بھارت، روس، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ شامل ہیں۔ کانفرنس میں جنوب بحیرہ چین میں چین کی سرگرمیوں کے علاوہ شدت پسندی کے تعلق سے بھی بات ہوئی۔

ای پیپر-دی نیشن