عمران خان اور طاہرالقادری کی بلیم گیم کی سیاست اور عسکری اداروں سے انصاف کی توقع
اس سیاست میں قومی دفاعی اداروں کی عزت افزائی کی جا رہی ہے یا انکی بدنامی کا اہتمام؟
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے الزام عائد کیا ہے کہ حکومت نے ان کا دھرنا ناکام بنانے کیلئے دو ارب 70 کروڑ روپے خفیہ ایجنسی انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کو فراہم کئے جس سے صحافتی شخصیات کو خریدنے کی کوشش کی گئی۔ گزشتہ روز جہلم میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 30 نومبر کے خوف سے حکومت مزید پیسہ تقسیم کر رہی ہے۔ وزیراعظم سے پوچھا جانا چاہیے کہ یہ پیسہ کس کا ہے؟ انکے بقول عوامی پیسے سے دس ارب روپے حکومت اشتہارات پر خرچ کر رہی ہے جبکہ 270 کروڑ روپے حکومت نے صحافیوں‘ کالم نگاروں‘ تجزیہ کاروں اور اینکر پرسنز کا ضمیر خریدنے کی کوششوں میں صرف کئے تاہم انہیں نہیں معلوم کہ ان میں سے کتنے میڈیا والے بکے ہیں۔ انہوں نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ ہر ماہ تین ارب روپے میڈیا ہاﺅسز کو دیئے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں امن کے قیام کیلئے عدل و انصاف کا نظام لانا ہو گا اور پولیس کو صحیح معنوں میں عوام کا محافظ بنانا ہو گا۔ انکے بقول 30 نومبر کو فیصلہ کن جنگ ہو گی جس میں ایک طرف عوام اور دوسری طرف ”سٹیٹس کو نظام“ ہو گا جس کے تحت اپنے بچوں تک کیلئے اقتدار کی باریاں لگائی گئی ہیں۔ عوام کو نئے پاکستان کیلئے 30 نومبر کو اسلام آباد کا رخ کرنا چاہیے۔
عمران خان نے نئے پاکستان اور طاہرالقادری نے انقلاب کے نعرے کے ساتھ جب سے ملک میں اتفراتفری اور اشتعال انگیز محاذآرائی کی دھرنا سیاست شروع کی ہے‘ اس دن سے ان دونوں حضرات کے ہاتھوں نہ کسی کی عزت محفوظ ہے نہ پگڑی جبکہ انہوں نے بلاتحقیق اور بغیر سوچے سمجھے ہر ایک پر بے سروپا الزام دھر دینا اپنے سیاسی کلچر کا حصہ بنا رکھا ہے جس میں توتکار سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ عمران خان نے مئی 2013ءکے انتخابات میں دھاندلیوں کے الزامات عائد کرتے ہوئے وزیراعظم میاں نوازشریف کے علاوہ سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چودھری‘ سابق چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم‘ الیکشن کمیشن کے ارکان اور سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی سمیت کسی کو بھی نہیں بخشا اور انتہائی عامیانہ لب و لہجے میں ان کا الزام تراشی کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے تو ان کیخلاف ہتک عزت کا دعویٰ دائر کر رکھا ہے جبکہ جسٹس (ر) خلیل رمدے نے بھی انہیں ہتک عزت کا نوٹس بھجوایا ہوا ہے مگر بڑے پبلک جلسوں والی عوامی مقبولیت کے زعم میں وہ الزام تراشی کی سیاست کو فروغ دیئے جا رہے ہیں۔ گزشتہ روز جہلم کے جلسے میں اسی تناظر میں انہوں نے ایک خفیہ ایجنسی کا نام لے کر حکومت پر اسکے ذریعے میڈیا پرسنز میں 270 کروڑ روپے تقسیم کرنے کا الزام عائد کیا جو کوئی معمولی رقم نہیں ہے۔ انکی اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی پارٹی کی جانب سے دو ماہ قبل سوشل میڈیا پر بھی میڈیا پرسنز میں فنڈز تقسیم کرنے کی مہم چلائی گئی اور ایک فہرست بھی جاری کی گئی جس میں شامل تقریباً تمام صحافی اور اینکر حضرات ان الزامات کی تردید کر چکے ہیں۔ اب جبکہ عمران خان نے ایک پبلک جلسے میں خفیہ ایجنسی کا باقاعدہ نام لے کر ان الزامات کا اعادہ کیا ہے تو اس سے میڈیا پرسنز ہی نہیں‘ متعلقہ ایجنسی کی بھی بدنامی ہوئی ہے‘ اگر یہ الزامات بے بنیاد ہیں اور محض ”بلیم گیم“ کے طور پر عائد کئے گئے ہیں تو اس سے بڑا جرم اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ عمران خان کو بخوبی علم ہو گا کہ امریکہ‘ برطانیہ اور دوسرے مغربی ممالک میں ہتک عزت کا کوئی کیس ثابت نہ ہونے کی صورت میں الزام دہندہ کو کتنے بھاری جرمانہ اور قید کی سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے ہتک عزت کے مقدمات میں آو¿ٹ آف کورٹ ”مک مکا“ کرلیا جاتا ہے اور عدالتوں میں بھی ایسے مقدمات کو زیادہ پذیرائی حاصل نہیں ہوتی اس لئے بالخصوص سیاست میں ہر کسی پر بے سروپا الزامات عائد کرنا ایک روش بن چکی ہے جس کا سدباب ہتک عزت کے قانون کو مو¿ثر بنا کر ہی کیا جا سکتا ہے۔
عمران خان کے گزشتہ روز کے سنگین الزامات کی آئی بی کی جانب سے دوٹوک تردید کی جا چکی ہے جبکہ وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے یہ وضاحت کرکے مزید شکوک و شبہات پیدا کئے ہیں کہ آئی بی کو متعلقہ فنڈز دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے دیئے گئے ہیں اس لئے اب متعلقہ عسکری اور انٹیلی جنس اداروں اور الزامات کی زد میں آنیوالے سیاست دانوں اور دوسری شخصیات کو سنجیدگی سے غور کرنا اور ایسے الزامات کے سدباب کا سوچنا ہو گا۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ عمران خان اور طاہرالقادری اپنی دھرنا سیاست کے دوران ایک جانب تو اپنی اس سیاست کی کامیابی کیلئے عسکری اداروں کے ساتھ دل خوش کن امیدیں وابستہ کرتے نظر آتے ہیں اور دوسری جانب وہ انہی اداروں کو بے سروپا الزام تراشی کے تحت بدنام کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے۔ عمران خان کی اب تک کی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو وہ مقتدر قوتوں کی انگلی پکڑ کر چلتی ہی نظر آتی ہے جس میں انہوں نے تھرڈ امپائر کی انگلی اٹھنے کی نوید سنائی اور وکٹری کا نشان بناتے ہوئے کنٹینر سے اتر کر جی ایچ کیو چلے گئے جبکہ بعدازاں بھی انہوں نے انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کیلئے حکومت کے تجویز کردہ جوڈیشل کمیشن میں دو ایجنسیوں کو نمائندگی دینے کا تقاضا کیا جس سے انہوں نے اپنی سیاست کے حوالے سے یہی عندیہ دیا کہ انہیں کسی سول ادارے‘ پارلیمنٹ اور کسی سیاست دان پر ہرگز اعتبار نہیں اور بس عسکری سے ہی انہیں اپنے حق میں ریلیف مل سکتا ہے۔ یہی معاملہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی سیاست کا ہے جو اپنے دھرنے کے دوران اور اس سے پہلے بھی فوج کو ”ٹیک اوور“ کرنے کی باقاعدہ دعوت دیتے رہے ہیں اور اس ارادے سے ہی وہ بھی آرمی چیف کے ساتھ مذاکرات کی حکومتی پیشکش پر چھلانگیں لگاتے ہوئے جی ایچ کیو جا پہنچے تھے۔ وہ اب بھی حکومت کیخلاف کسی ایکشن کیلئے آرمی چیف کے ساتھ ہی توقعات وابستہ کئے نظر آرہے ہیں اور آرمی چیف سے اس امر کا تقاضا کر رہے ہیں کہ وہ سانحہ ماڈل ٹاﺅن لاہور کی تحقیقات کیلئے غیرجانبدار جے آئی ٹی کی تشکیل میں مدد دیں۔ ان دونوں حضرات کو سوچنا چاہیے کہ وہ ایجنسیوں اور عسکری اداروں کی قیادتوں کا نام لے کر ”بلیم گیم“ کے ذریعے ان کی عزت میں اضافہ کر رہے ہیں یا انکی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔
عمران خان کی جانب سے ایک خفیہ ایجنسی کے ذریعہ میڈیا پرسنز میں پونے تین ارب روپے کے قریب فنڈز تقسیم کرنے اور ہر ماہ میڈیا ہاﺅسز کو تین ارب روپے دینے کے الزامات اس امر کے متقاضی ہیں کہ انکی ٹھوس تحقیقات کرکے اصل حقائق قوم کے سامنے پیش کئے جائیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے۔ وزیراعظم میاں نوازشریف کو بھی اس موقع پر محض پوائنٹ سکورنگ کی سیاست نہیں کرنی چاہیے جن کے بقول ڈیڈلائن دینے والے خوابوں سے نکل آئیں‘ عوام انکے جھانسے میں نہیں آئینگے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ درست ہے کہ اپنے روٹی روزگار اور غربت‘ مہنگائی کے گھمبیر مسائل کے حل کیلئے حکومت سے مایوس ہونیوالے عوام میں اضطراب کی اٹھتی ہوئی لہریں دیکھ کر ہی عمران خان اور طاہرالقادری کو اپنی افراتفری اور انتشار کی سیاست کو فروغ دینے کا موقع ملا ہے۔ اگر حکومت عوامی مسائل کے حل سے متعلق اپنے مینڈیٹ کے تقاضے پورے کرتی اور ملک کو توانائی کے بحران سے نجات دلانے کے ٹھوس اقدامات اٹھا لیتی تو عمران خان اور طاہرالقادری کو اپنی سیاست کیلئے کبھی عوامی پذیرائی حاصل نہ ہوتی۔ اب توانائی کے بحران کے حل کیلئے وزیراعظم میاں نوازشریف کی کوششوں سے امید کی کرن پیدا ہوئی ہے جبکہ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں کمی کے تناسب سے دیگر اشیاءکی مہنگائی کم کرنے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے تو ان کوششوں کے ثمرات عوام تک پہنچنے کی صورت میں سسٹم کے استحکام کی ضمانت مل سکتی ہے۔ تاہم حکومت کو اب الزام تراشی کی سیاست کا بھی مو¿ثر توڑ کرنا ہو گا ورنہ اس سیاست میں سوائے آلائشوں کے اور کچھ نظر نہیں آئیگا جبکہ ایسی صورتحال ہی جمہوریت کو رگیدنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔