بگرام کے بے آسرا پاکستانی قیدی
قیدی نمبر 650 ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ایک دنیا جانتی ہے،اسے تین بچوں کے ساتھ اغوا کر کے بگرام جیل میں رکھا گیا۔دن رات اس پرٹارچر کیا جاتارہااور اس کی چیخیں سن کر مرد قیدیوںکے دل دہل جاتے۔وہ بگرام میں واحد خاتون قیدی تھی، پی ایچ ڈی کی ڈگری کی حامل، اس خاتون پر الزام تھا کہ اس نے امریکی فوجیوں پر اسلحہ تانا۔ایک نحیف و نزار عورت پر اس الزام کو کوئی بھی تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔اسے امریکی عدالت نے سزا سنا دی ہے۔
بگرام میں صرف عافیہ ہی نہیں ،ہزاروں کی تعداد میں دوسرے قیدی بھی تھے، ان میں سے کچھ کو گوانتانامو منتقل کر دیا گیا۔بدزمانہ اس جیل میںہٹلر دورکے مظالم کو بھی لوگ بھول گئے کیونکہ یہاں قیدیوں کو پنجروںمیں بند کیا گیا، قرآن پاک کے اوراق کی توہین کی گئی، تشدد تو معمولی بات ہے، ہفتوں تک قیدیوں کو الٹا لٹکا دیا جاتا،تیز روشنی کی وجہ سے انہیں نیند سے محروم رکھا جاتا۔بگرام جیل بھی ایساہی عقوبت خانہ ہے۔اس کا تذکرہ پہلی مرتبہ سن دو ہزار میں ہوا جب دو قیدیوں کی المناک موت کی تصدیق ہوئی، چھت سے الٹا لٹکا کر ان کے پورے بدن کو لہو لہان کر دیا گیا، یہ ظلم امریکی فوجیوںنے ڈھایا، اور امریکہ وہ ملک ہے جو انسانی حقوق کے لئے چیختا ہے مگر اس کا اپنا کردار انتہائی گھناﺅنا ہے۔
شہاب صدیقی ایک نوجوان ہیں۔لاہور میں جسٹس پراجیکٹ پاکستان کے ترجمان، یہ ایک غیر سرکاری تنظیم ہے جوخاص طور پر بگرام جیل میں قید پاکستانیوں کی رہائی کے لئے کوشاں ہے اور اس نے لاہور ہائی کورٹ میں رٹ دائر کر کے پچھلے سال نومبر میں دس قیدیوںکو رہا کروا لیا تھا۔شہاب صدیقی نے بتایا ہے کہ اس جیل میں پاکستانی قیدیوں کی مجموعی تعداد ساٹھ کے لگ بھگ ہے جن میں سے بیس آزاد ہو چکے ہیں اور چالیس ابھی وہیں تڑپ رہے ہیں۔ شہاب نے ا س تشویش کا اظہار کیا کہ امریکہ افغانستان سے جا رہا ہے، کیا پتہ کہ ان پاکستانی قیدیوں پر کیا گزرے، انہیں رہا کر دیا جائے یا افغان حکومت کے حوالے کر دیا جائے۔شہاب صدیقی سے میری ملاقات چند ہفتے پہلے ہوئی تھی، اس کے بعد بگرام سے دس پاکستانی قیدیوں کی رہائی کی خبر ملی ہے، گویا تیس پاکستانی اب بھی وہاں مو ت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ا ے ایف پی نے رہاہونے والے ایک قیدی عمران کی ابتلا کا ذکر کیا ہے جو پشاور کے ایک ہسپتال میںاپنی ماں کا علاج کروانے گیا تھا کہ اسے کسی بہانے افغانستان پہنچا دیا گیا، وہ ایک گروہ کے ہتھے چڑھ گیا تھا جو پاکستانی نوجوانوں کو گھیرگھار کر سرحد پار لے جاتا اور انہیںدہشت گرد ظاہر کرکے امریکی فوجیوںکے حوالے کر دیتا اور امریکیوںسے کثیر انعام پاتا۔یہ نوجوان بگرام جیل منتقل کر دیئے جاتے جہاں ان پر ایک نام نہاد عدالت میںمقدمہ چلتا۔ امریکی فوجی افسر اس عدالت کی صدارت کرتا،کوئی دوسرا امریکی فوجی اس قیدی کی صفائی کا وکیل بن جاتا اور ایک جعلی سماعت کے بعد قیدی کو سخت سزائیں سنادی جاتیں۔
پچھلے بارہ برسوںمیں حکومت پاکستان نے کسی سطح پر بھی ان پاکستانی قیدیوںکی رہائی کے لئے ا ٓواز بلند نہیں کی، آپ لاپتہ افراد کا بھی بہت شور سنتے ہیں، انکے کیس عدالتوںمیں خوب شہرت پاتے ہیں، ٹی وی ٹاک شوز میں ان پر واویلا کیا جاتا ہے، لیکن ان لاپتہ افراد کی مہم چلانے والوںنے بھولے سے بھی بگرام کے پاکستانی قیدیوںکا کبھی نام نہیںلیا۔
سوویت روس نے افغانستا ن پر اسی کے عشرے میں یلغار کی تو بگرام میں ایک کیمپ قائم کیا گیا جہاں قیدیوںپر تشدد کے لئے سیل تعمیر کئے گئے۔ روس تو شکست کھا کر یہاں سے چلا گیا لیکن امریکی افواج نے پچھلے بارہ سال میںا س قید خانے کو برے طریقے سے استعمال کیا۔ہر رنگ و نسل کے قیدی یہاں گلتے سڑتے رہے لیکن شہاب صدیقی نے بتایا کہ یہاں کچھ جرمن قیدی بھی رکھے گئے جنہیں چار ماہ کے اندر رہائی مل گئی ، اس لئے کہ ان کی حکومت نے ان کے لئے آواز اٹھائی تھی۔کئی دیگر ملکوںکے قیدی بھی واپس چلے گئے، ان کا کوئی خصم سائیں تھا۔پاکستانی قیدی حالات کے رحم وکرم پر ہیں۔
اس جیل کے ایک حصے کا کنٹرول افغان حکومت کو منتقل ہوا جس میں تین ہزارافغان قیدی موجود تھے۔ صدر حامد کرزئی نے پہلے روز ہی ان تما م افغان قیدیوںکی رہائی کا حکم جاری کر دیا۔مگر پاکستانی قیدی بدستو ر امریکیوںکے دائرہ کار میں ہیں۔اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ اکثر کے اہل خانہ کو معلوم بھی نہیں کہ ان کے پیارے اس جیل میں سزاکاٹ رہے ہیں اور ان کاجرم کیا ہے۔وہ تو ان کو رو پیٹ چکے۔ کم از کم حکومت پاکستان اور اس کے فارن آفس کو ان کی تفصیلات تو امریکیوںسے حاصل کر نی چاہئیں تاکہ ان کے گھر والے مطمئن ہو سکیں کہ کبھی نہ کبھی وہ اپنے عزیزوں کی شکل دیکھ سکیں گے۔
پاکستان میں قسما قسم کی تنظیمیں ہیں جو بنیادی انسانی حقوق کی پرچارک بنتی ہیں ، مگرداد دی جانی چاہئے جسٹس پراجیکٹ پاکستان کو جس نے بگرام کے پاکستانی قیدیوں کے لئے قانونی جدو جہد کی۔ دوسرے نمبر پر امریکی سول لبرٹیز نامی ایک ادارے نے اپنی سپریم کورٹ میں ایک رٹ دائر کی جس میں پوچھا گیا کہ امریکہ نے افغانستان میں قیدیوں کے لئے کونسے کیمپ قائم کررکھے ہیں اور ان میں امریکی قوانین کا کس حد تک احترام کیا جاتا ہے، اس مقدمے کی بنا پر امریکی حکومت مجبور ہوئی اور اس نے645 خطرناک قیدیوں کی ایک فہرست جاری کی۔
جسٹس پراجیکٹ پاکستان کی کار گزاری کی تفصیلات اس کی درج ذیل ویب سائٹ پر موجود ہیں۔www.jpp.org.pk۔
شہاب صدیقی کا تعلق اسلام آباد سے ہے، وہ ایک نفیس انسان مشتاق صدیقی کے صاحبزادے ہیںجو برسوں امریکی مرکز اطلاعات اسلام آباد میں متعین رہے۔مجھے جب مشتاق صدیقی نے بتایاکہ ان کا صاحبزادہ افغان جیلوں میں پاکستانی قیدیوں کی رہائی کے لئے کوشش کرنے والی ایک تنظیم سے وابستہ ہے تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ اس لئے کہ ہم سمجھتے ہیںکو جو شخص امریکی سفارت خانے میںکام کرتا رہا ، اس نے لازمی طور پر اپنا ضمیر بھی فروخت کر دیا ، مگر مشتاق صدیقی ریٹائر منٹ کے بعدجوانوں سے زیادہ سرگرم اور فعال ہیں اور خاص طور پر سوشل میڈیا پر پاکستان کے مفادات کے لئے آواز اٹھانے میںپیش پیش رہتے ہیں۔ان کے بیٹے نے تو اپنی ماہرانہ گفتگو سے لاہور کے دانش وروں کو ورطہ حیرت میں مبتلا کر دیا، سخت سے سخت سوال پوچھے گئے مگر نوجوان نے پیشہ ورانہ لب ولہجہ برقرار رکھتے ہوئے ہر ایک کومطمئن کرنے کی کوشش کی۔
بگرام جیل کے پاکستانی قیدی حکومت پاکستان کی توجہ کے منتظر ہیں۔اگر انہیں سال کے آخر تک رہا نہیں کیا جاتا تو وہ افغانیوں کے ہاتھ میں چلے جائیں گے یا امریکہ انہیں کہیں باہر منتقل کر دے گا۔ ہمیں اپنا فرض ادا کرنا چاہئے اور انہیںبھی لا پتہ سمجھ کر ان کی دست گیری کرنی چاہئے۔ لاپتہ افراد کا محض پراپیگنڈہ کافی نہیں، ان کے لئے نتیجہ خیز قانونی جدو جہد بھی ضروری ہے۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے لئے پوری قوم نے درد مندی کا اظہار کیا ، مگر بگرام کے باقی قیدی بھی ہماری توجہ کے منتظر ہیں۔