’’انقلاب‘‘ کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

’’انقلاب‘‘ کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

یہ ان دنوں کی بات ہے جب شہید محترمہ بے نظیر بھٹو جلاوطنی کے ایام لندن اور دوبئی میں گزار رہی تھیں اور میں انکے ساتھ خصوصی ایلچی کی حیثیت سے قریباً ہمہ وقت موجود تھا۔ انہی دنوں محترمہ لندن گئیں جہاں انکی ملاقات علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب سے ہوئی جو ان دنوں غیرملکی دوسرے پر تھے۔ اس ملاقات میں علامہ صاحب نے محترمہ کو منہاج القرآن ادارے کی ممبر شپ کی آفر کی جسے محترمہ نے قبول کرتے ہوئے منہاج القرآن ممبر شپ فارم پُر کیا ۔ جب ہم دوبئی پہنچے تو علامہ طاہر القادری کی طرف سے پیغام آیا آپ کا ممبر شپ سرٹیفیکیٹ منہاج القرآن ہیڈ کوارٹر میں تیار پڑا ہے، آپ چاہیں تو آپ کو بھجوا دیا جائے یا آپ وہاں سے منگوا لیں، چونکہ اس وقت میں محترمہ کے پاس موجود تھا، محترمہ نے مجھے کہا کہ مطلوب کیا آپ لاہور جا کر منہاج القرآن سے میرا سرٹیفیکیٹ لا سکتے ہو؟ میں نے کہا جی محترمہ میں آج ہی روانہ ہو جاتا ہوں۔ شہید بی بی نے مجھے مزید تاکید کی کہ جب آپ منہاج القرآن جائو تو اپنے ساتھ محترمہ ناہید خان یا عبدالقادر شاہین کو لیتے جانا۔ محترمہ نے اس وقت علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کو بھی مطلع کر دیا کہ میرا خصوصی ایلچی آپکے ادارے سے پیپلزپارٹی کے دیگر راہنمائوں کیساتھ سرٹیفیکیٹ وصول کرنے آ رہا ہے۔ پاکستان لاہور پہنچ کر میں ممبر فیڈرل کونسل عبدالقادر شاہین کیساتھ طے شدہ پروگرام کیمطابق ادارہ منہاج القرآن پہنچا وہاں پر ادارے کے منتظمین کی جانب سے ہمارا پرجوش استقبال کیا گیا اور ہماری آئو بھگت کی گئی، بلکہ ہمیں ادارہ منہاج القرآن کے مختلف ڈیپارٹمنٹ کا وزٹ بھی کروایا گیا۔ ہمارے لیے یہ ایک سرپرائز سے کم نہ تھا، میں اور عبدالقادر شاہین ایک دوسرے کو سوالیہ نگاہوں سے دیکھنے لگے کہ اتنی آرگنائز تنظیم اور پارٹی کا مستقبل یقینا تابناک ہوگا۔ اس سے پہلے ہم منصورہ اور اچھرہ میں جماعت اسلامی اور جمعیت کے دفاتر کا بھی دورہ کافی دفعہ کر چکے تھے اور جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کی سٹریٹ پاور اور تنظیم سازی کے پیچھے چھپے ہوئے راز و افکار ہم پہ واضح ہوئے تھے مگر منہاج القرآن کے سسٹم کا توڑ اور اس لیول کا ادارہ اور تنظیم ابھی تک ہم نے پاکستان میں کسی اور کے ہاں نہ دیکھی تھی۔ ہزاروں،لاکھوں کتب کیساتھ منظم لائبریری، کمپیوٹر ڈیپارٹمنٹ و ایجوکیشنل ڈیپارٹمنٹس بنائے گئے تھے ،جہاں پر دنیا بھر میں موجود منہاج القرآن یونیورسٹیوں، کالجوں و سکولوں کو کنٹرول کیا جاتا تھا اور چلایا جاتا تھا۔ نشرواشاعت کا ایسا منظم انتظام تھا کہ ابھی ہم منہاج القرآن کے ہیڈ کوارٹر ز سے فارغ ہو کر گھر بھی نہ پہنچے تھے کہ پاکستان کے تمام ٹی وی چینلز کو یہ نیوز جا چکی تھی کہ پیپلزپارٹی کے وفد نے منہاج القرآن کا دورہ کیا اور محترمہ بے نظیر بھٹو کیلئے ممبرشپ سرٹیفیکیٹ حاصل کیا۔ اخبارات اور جرائد کو پریس ریلیز اور پریس بریفنگ روانہ کی جا چکی تھی۔ دوسرے دن الصبح دوبئی کیلئے عبدالقادر شاہین کے ساتھ روانہ ہوئے تو اس نیوز کو تمام اخبارات نے نمایاں طور پر جگہ دی تھی۔ دوبئی پہنچ کر ہم نے بی بی شہید کو تمام روداد سنائی۔ بی بی شہید نے بڑے انہماک سے گفتگو سنی اور پھر وہاں کیا دیکھا اس حوالے سے درجنوں سوالات مجھ اور عبدالقادر شاہین سے کیے۔ بعدازاں کافی دنوں تک یہ ایشو میرے اور شہید محترمہ کے درمیان وجہ گفتگو بنا رہا۔ ایک دفعہ محترمہ نے اس ایشو پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اتنے تھوڑے عرصہ میں ڈاکٹر طاہر القادری نے جو ایچیومنٹ حاصل کر لی ہے یہ بذات خود ایک معمہ ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے طرز سیاست اور نیٹ ورک کے متعلق جان کر محترمہ شہید نے کہا یہ لینن،کارل مارکس کے نظریہ سے بھی زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے اور محترمہ نے افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے شہید بانی جناب ذوالفقار علی بھٹو شہید بھی انہی راستوں پہ چلتے ہوئے اسی طرز پر ایک ایسی قوم تیار کرنا چاہتے تھے کہ جو موجودہ دور کے تقاضوں کے عین مطابق ہو، فرق صرف یہ ہے کہ بھٹو شہید نے ان اصلاحات کو عوامی سوشلزم کا نام دیا اور علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے ان اصلاحات کو اسلامی اصلاحات کا نام دیا ہے۔ پھر تھوڑے ہی عرصہ بعد محترمہ نے پیپلزپارٹی کی پاکستان میں موجود قیادت کو تلقین کی کہ وہ ڈاکٹر طاہر القادری کی طرز پہ پارٹی کارکنوں کو ایجوکیشنل میدان میں تیار کریں اور قارئین کو یاد ہوگا کہ پیپلزپارٹی کے اندر ’’سٹڈی سرکل‘‘ کے نام سے ونگ قائم کیا گیا۔ گذشتہ چند کالموں میں حقیقی جمہوریت اور موجودہ ورشن کو میں نے اپنا ایشو بنایا جس پہ مجھ پر حسب توقع پاکستان کی ترقی پسند قوتوں اور پارٹی کے سینئر و جونیئر جیالوں نے نہ صرف تنقید کی بلکہ طرح طرح کے الزامات بھی لگائے مگر مردِ صحافت ڈاکٹر مجید نظامی کی صحافتی تربیت نے مجھے اتنا پختہ ضرور بنا دیا ہے کہ میں اب ان چھوٹی موٹی لہروں کی اٹھکیلیوںکی پروا نہیں کرتا۔ میں آج بھی شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بے نظیر بھٹو کا فالوور ہوں بلکہ میری نس نس میں جیالاپن بھرا پڑا ہے یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر مجید نظامی مجھے سینئر جیالے کے نام سے پکارتے ہیںمگر آج فرق صرف یہ ہے جو کام زیڈ اے بھٹو اور شہید رانی بے نظیر بھٹو کا ویژن اور ازم تھا وہ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان نے شروع کر دیا ہے جبکہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے وارثان نے جو طرز سیاست اور انداز اپنایا ہے کیا وہ شہید بھٹو اور شہید رانی کا وطیرہ تھا؟بھٹو شہید اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے قاتلوں کو پیپلزپارٹی میں اگلی صفوں میں نہ صرف جگہ دی گئی ہے بلکہ کل کے قاتل اور پارٹی کے دشمن نمبر ون آج پارٹی کے صوبائی صدور بن کر جیالوں کا تمسخر اڑا رہے ہیں۔ عمران خان کی دھاندلی کیخلاف اور ڈاکٹر طاہر القادری کی نظام کیخلاف تحاریک شروع ہو چکی ہیں۔ ملک کے سب سے باوقار ادارے آئی ایس آئی اور فوج کا امیج خراب کرنے کی کارروائیاں بھی تسلسل سے ہو رہی ہیں۔ لگتا ہے میاں نوازشریف نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا؟یا پھر وہ مجبور ہیں اور اقتدار کی لگامیں عربوں اور ترکوں کے ہاتھ میں ہیں اور چھانٹا امریکہ کے ہاتھ میں اس لیے میاں صاحب کے پاس بھاگنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ ایم کیو ایم کے الطاف حسین صاحب نے بھی ماحول سیاست کو گرم بنا دیاہے۔ تحریک انصاف نے 25مئی کی کال فیصل آباد کیلئے دی ہے اور ڈاکٹر طاہر القادری صاحب ابھی 11مئی کی یوم اقامت کی کامیابیوں کے ثمر سمیٹ رہے ہیں۔