جا معہ اشرفیہ لاہور کا روشن کردار

مولانا مجیب الرحمن انقلابی
دینی مدارس جہاں اسلام کے قلعے ، ہدایت کے سر چشمے، دین کی پنا ہ گا ہیں ، اور اشا عت دین کا بہت بڑ ا ذریعہ ہیں وہاں یہ حقیقت میں دنیا کی  بڑی "این جی اوز "بھی ہیں۔ جو لاکھوں طلبہ و طالبا ت کو بلا معاوضہ تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو رہائش و خوراک اور مفت طبی سہولت بھی فراہم کرتے ہیں۔
 آج کے اس ما دیّت پرستی کے دور میں نسل نو کے ایمان کی حفاظت کا فریضہ ، مسلمانوں میں نماز روزہ کی پا بندی ، قال اللہ قال رسولؐ کی ہر طرف جو صدائیں بلند ہو رہی ہیں وہ انہیں دینی مدارس کا فیضا ن ہیں۔  دینی مدارس عہد نبویؐ  سے لے کر آج تک  ایک ادارہ کی حیثیت  میںچلے آ رہے ہیں۔ حضورؐ  کے دور میں پہلا دینی مدرسہ وہ مخصوص چبو ترہ  تھا جس کو "صُفّہ "کہا جا تا ہے   جس میں حضورؐ سے تعلیم کتاب تعلیم حکمت اور تز کیہ نفس حاصل کرنے والے حضرت ابو ھریرہؓ ، حضرت انس ؓ سمیت 70کے قریب صحابہ کرامؓ "اصحابِ صُفّہ "اوردینی طا لب علم کہلاتے ہیں۔دینی مدارس کا اپنا ایک مخصوص نصاب ہوتا ہے جس میں مستند عالم دین کا مقام حاصل کرنے کے لئے عربی وفارسی ، صرف و نحو، قرآن و حدیث ، تفسیر ، فقہ و اصول فقہ، معانی و ادب ، منطق و فلسفہ جیسے علوم کی تعلیم و تدریس  شامل ہے۔
 جامعہ اشرفیہ ملک کے ان دینی مراکز میں شامل  ہے جس کی سارے عالم میں صدائے بازگشت ہے اس کے بانی حضرت مولانا مفتی محمد حسن  ؒ ہیں۔ جنہوں نے قیام پاکستان کے ایک ماہ بعدلاہو ر  میں اس کاسنگ ِ بنیاد 14ستمبر 1947ء میں رکھا۔  پوری دنیا اور  حرمین شریفین تک  جامعہ اشرفیہ لاہور کے فیض  سے علماء کرام دین کی خدمت  اور درس و تدریس کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔ جامعہ اشرفیہ لاہور کو یہ اعزاز بھی حا صل ہے کہ جامعہ اشرفیہ لاہور کی خصوصی دعوت پر امام ِ کعبہ فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد ا لرحمن السدیس حفظہ اللہ 2007ء میں پاکستا ن تشریف لائے اور جامعہ اشرفیہ لاہور میں نماز فجر کی امامت کی ۔  ایوان اقبال لاہور میں  اہوں نے ملک بھر سے آئی ہوئیں نامور علمی و دینی شخصیا ت کی موجودگی میں فضلاء جا معہ کو اعزازی سند و اعزازات دیے ۔جبکہ جامعہ اشرفیہ لاہور کے نائب مہتمم مولانا  فضل الرحیم اشرفی  نے دورہ پاکستان کے موقع پرامام ِ کعبہ کی خدمت میں جامعہ اشرفیہ لاہور کی اعزازی سند پیش کی۔
  خدا تعالیٰ نے مفتی محمد حسنؒ کی ذات میں شریعت، طریقت، تصوف، علم و عمل، زہد و تقویٰ، صبرو اسقامت، حلم و بردباری کی تمام خوبیوں کو جمع فرما دیا تھا، آپ بیک وقت ایک محدث، مفسر، فقیہ اور مصلح و مربی بھی تھے جس کی وجہ سے آپ حقیقت میں جامع الکمالات شخصیت کے مالک تھے۔
مولانا اشرف علی تھانویؒ کے حکم پر مفتی محمد حسنؒ نے شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ، مولانا ظفر احمد عثمانیؒ مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ اور دیگر علمائے دیوبند کے ہمراہ تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا ۔ پاکستان بننے کے بعد مشرقی و مغربی پاکستان پر آزادی کا پرچم لہرانے کی سعادت ’’بزم اشرف‘‘ کے روشن چراغ اور دارالعلوم دیوبند کے قابل فخر سپوت حضرت مولانا علامہ شبیر احمد عثمانیؒ اور مولانا ظفر احمد عثمانیؒ کو حاصل ہوئی۔
 حضرت مولانا مفتی محمد حسن ان اولیاء اللہ میں سے تھے کہ جو  مخلوق کو خالق کے ساتھ جوڑنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ آپ اپنے شیخ و مرشد حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ اور دیگر اسلاف کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔ آپ حضرت تھانوی کے خلیفہ مجاز بھی تھے اور آپ نے حضرت تھانوی کے نام کی طرف نسبت کرتے ہوئے لاہور میں جامعہ اشرفیہ کے نام سے یہ معروف دینی ادارہ قائم کیا۔
حضرت مولانا مفتی محمد حسنؒ امرتسری نے اپنے قیام امرتسر کے زمانہ میں وہاں ایک دینی مدرسہ کی بنیاد ڈالی تھی جس کی آبیاری آپؒ نے اپنے خون و پسینہ سے تقریباً چالیس سال تک کی۔۔ اور پھر قیام پاکستان کے بعد جب امرتسر سے ہجرت کر کے پاکستان تشریف لائے تو آپ نے لاہور میں سائیکل مارکیٹ نیلا گنبد انارکلی  لاہور کی مولچند بلڈنگ کے ایک حصہ میں اپنے پیرو و مرشد حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کی طرف نسبت کرتے ہوئے جامعہ اشرفیہ کے نام سے 14 ستمبر 1947ء میں دینی مدرسہ کی بنیاد رکھی۔
اس مدرسہ نے آپ کی محنت و خلوص کی وجہ سے اس تیزی کے ساتھ ترقی  کی اور صرف آٹھ سال کے مختصر عرصہ کے بعد فیروز پور روڈ پر ایک سو کنال وسیع قطعہ اراضی خرید کر 1955ء میں  جامعہ اشرفیہ  کے نام سے  اس بڑے دینی مرکزکا سنگ بنیاد رکھا گیا، سنگ بنیاد کی اس تقریب میں پاک و ہند کی بڑی علمی شخصیات نے شرکت کی جس میں دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیبؒ حضرت مولانا جلیل احمد علی گڑھیؒ، حضرت مولانا مسیح اللہ خانؒ، حضرت مولانا خیر محمد جالندھریؒ، حضرت مولانا رسول خانؒ اور مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ سمیت دیگر اکابرین امت اور دیگر علماء کرام نے شرکت کی۔   بعد میںاس دینی مرکز میں آپ کے نام سے منسوب خوبصورت اور عظیم الشان مسجد ’’الحسن‘‘ بھی قائم  کی گئی۔ جامعہ اشرفیہ لاہور کا تعلق اہل سنت والجماعت کے ایک بڑے مکتب فکر علماء دیوبند سے ہے جو کہ درحقیقت اہل سنت والجماعت کا صحیح ترجمان اور اس کا عملی نمونہ ہے۔
یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کا اخلاص تھا کہ مدرسے کی بنیاد رکھتے ہی اس کی شہرت اندرون و بیرون ملک پھیل گئی دور دراز سے طلبہ جوق در جوق آنے لگے۔ جس کی ایک بڑی وجہ یہاں کے شیوخ و اکابر اساتذہ بھی تھے جامعہ کے ابتدائی شیوخ میں خود حضرت مفتی محمد حسن امرتسری قدس سرہ، حضرت مولانا محمد رسول خان ہزاروی رحمہ اللہ، حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ جیسی نابغہ ٔ روزگار شخصیات شامل تھیں۔
اللہ تعالی نے جہاںحضرت مفتی محمد حسن ؒکو اپنی دیگر نعمتوں سے نوازا وہاں آپ کو انتہائی نیک اور صالح اولاد بھی عطا فرمائی۔ جامعہ اشرفیہ وہ دینی مرکز ہے جہاں مولانا محمد عبید اللہ  ، حاجی ولی اللہ  ،مولانا عبد الرحمن اشرفی،مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی ،حاجی عبد اللہ صاحب ، مولانا عبد الرحیم مسلسل   دین  کی  خدمت میں مصروف  ہیں۔
جامعہ اشرفیہ سے فراغت حاصل کرنے والے طلبہ کی تعداد یقینا ہزاروں میں ہے، الحمدللہ! جو کہ اس وقت سرکاری و غیر سرکاری بڑے بڑے مناصب پر فائز ہیں ان میں سے کتنے ہیں جو اس وقت فوج، سرکاری یونیورسٹیوں، کالجز، سکولز اور دینی مدارس و مساجد میں اپنے اپنے فرائض منصبی بجا لا رہے ہیں، کتنے ہیں جو شیوخ الحدیث، مدرس، مبلغ، واعظ اور دارالافتاء کے عہدوں پر فائز ہیں۔
جامعہ اشرفیہ لاہور کے علماء و فضلاء ، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھا نوی ؒ کے اس سنہرے اصول اورخوبصورت امن فارمولے "اپنے مسلک کو چھوڑو نہیں اور دوسرے کے مسلک کو چھیڑو نہیں " پر عمل پیر ا ہیں۔ جامعہ کے بانی اور پھر ان کے بعد ان کے صاحبزادے حضرت مولانا عبدالرحمن اشرفی رحمہ اللہ کا مشن ہمیشہ سے یہی رہا کہ امت میں جوڑ پیدا کیا جائے اسے توڑ، نفاق اور انتشار و اختلاف سے بچایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر مکتب فکر اور مسلک کے ہاں جامعہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔  جامعہ نے عصری تعلیم و تربیت اور اس سے استفادے سے کبھی بھی انکار نہیں کیا بلکہ جامعہ اشرفیہ نے درسِ نظامی کے ساتھ ساتھ عصری علوم کی تدریس کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہو ا ہے۔ یہ اعزاز بھی جامعہ اشرفیہ لاہور کو حاصل ہے کہ اس نے سب سے پہلے 1975ء میں طالبات کے لیے بھی درسِ نظامی کا اسی اہتمام سے نظم کیا جس طرح طلبا ء کے لیے کیا گیا ہے۔ لاہور شہر کی معروف و مشہور آبادی ماڈل ٹائون میں مدرسۃ الفصیل للبنات کے نام سے ایک ادارے کی بنیاد رکھی جہاں سے اس وقت تک ہزاروں طالبات درس نظامی کی مکمل تعلیم حاصل کر کے اندرون اور بیرون ملک دین کی اشاعت و تبلیغ کا کام کر رہی ہیں۔ جامعہ کی مرکزی برانچ شارع فیروزپور روڈ میں ایک ایسا ہی کالج ’’اشرفیہ کالج‘‘ کے نام سے قائم کیا گیاہے جو بین الاقوامی معیار کی سہولتوں سے مزین ہے۔ اس میں دی جانے والی تعلیم دونوں شعبوں یعنی درس نظامی اور عصری علوم پر مشتمل ہے۔ یہاں سے ایک بچی صرف عالمہ، فاضلہ اور قاریہ بن کر نہیں بلکہ عصری علوم کی ایک ماہر بن کر نکلتی ہے۔ جامعہ اشرفیہ اور اس کی متعدد شاخوں میں پڑھانے والے تدریسی عملے کی تعداد دو سو سے زائد ہے جبکہ زیر تعلیم طلبا ء و طالبات کی تعداد چار ہزار سے زائد ہے۔ جا معہ اشرفیہ لاہور کے زیر اہتمام 15مئی 2014ء کو ایسے فضلاء جنہوں نے دینی تعلیم کے ساتھ جدید عصری تعلیم اور دیگر شعبہ جات میں نمایا ں خدمات سر انجام دی ہیں ان کے اعزا ز میںتقریب تقسیم سند و اعزازات منعقد کی جارہی ہے۔ جس میں جامعہ  سے تعلیمی فراغت پانے  والے طلبہ  میں  سند و اعزازات  تقسیم کیے جائیں گے ۔ تقریب  میں ملک کی نامور علمی ، دینی ، صحافتی اور سیاسی وسماجی شخصیات شرکت کریں گی۔