• news

لاپتہ افراد کا دکھ برداشت نہیں ہوتا‘ لوگ بازیاب نہ ہوئے تو تمام حراستی مراکز کے انچارج طلب کرینگے : سپریم کورٹ

لاپتہ افراد کا دکھ برداشت نہیں ہوتا‘ لوگ بازیاب نہ ہوئے تو تمام حراستی مراکز کے انچارج طلب کرینگے : سپریم کورٹ

اسلام آباد (آن لائن + آئی این پی) سپریم کورٹ نے ملک بھر کے حراستی مراکز، ان کے کمانڈنٹ اور وہاں زیر حراست لاپتہ افراد کی فہرست اٹارنی جنرل آفس سے چوبیس گھنٹوں میں طلب کر لی ہے، آمنہ مسعود جنجوعہ کے شوہر مسعود جنجوعہ کی بازیابی کا معاملہ آج تک ملتوی کرتے ہوئے ڈاکٹر عمران منیر اور دیگر افراد کے بیانات کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ طلب کی ہے، ایڈووکیٹ جنرل خیبر پی کے کو ذاتی طور پر پیش ہونے کا حکم دیا ہے ۔ تین رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ آئین و قانون کی عملداری کیلئے سب اکٹھے ہوکر جدوجہد کریں لاپتہ افراد کا دکھ اب برداشت نہیں ہوتا لوگ بازیاب نہ ہوئے اور اصل حقائق نہ ملے تو تمام حراستی مراکز کے انچارجوں کو طلب کرینگے اور حکم جاری کرینگے، جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ اٹارنی جنرل آفس لاپتہ افراد کے معاملے کو دس سال چلانا چاہتا ہے، لوگوں کو ریلیف دینے کے لیے جہاں تک ہوسکا اقدامات کرینگے۔ سماعت شروع ہوئی تو ایس پی ہارون نے عدالت کو بتایا کہ مسعود جنجوعہ کے حوالے سے ڈاکٹر عمران منیر نے بیان دیا تھا اس حوالے سے پتہ چلا ہے کہ وہ کولمبو میں یو این ایچ سی آر کے دفتر کے ساتھ منسلک ہے جلد ان کا بیان حاصل کر لیں گے عدالت نے کہا کہ جب سی پی او راولپنڈی راﺅ اقبال عمران منیر کا بیان لے چکے ہیں تو ان کے بیان کی روشنی میں مزید کام کریں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ جب کسی حساس ادارے کا پتہ چل جاتا ہے کہ فلاں شخص کے معاملے میں فلاں ایجنسی ملوث ہے تو آپ کارروائی کیوں نہیں کرتے یہ سنجیدہ معاملات ہیں تو آپ کو کیا کرنا چاہئے یا حکومت کو کیا کرنا چاہیے یہ تو ہم بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں، ہمیں نہ بتایا جائے جس کو نہیں پتہ ان کو بھی پتہ چل جانا چاہئے مظفر سمیت دونوں معاملات کے حوالے سے ڈپٹی اٹارنی جنرل علی زئی ہمیں آگاہ کریں ایم آئی کے سابق افسر ایوب جس کا تعلق پلندری کے علاقے سے ہے سے پوچھ گچھ کے لئے پولیس کو کہا تھا مگر ابھی تک نہیں ہوا علی زئی نے کہا کہ اس طرح کے بہت سے مقدمات ہیں آمنہ مسعود جنجوعہ نے اپنے شوہر کے حوالے سے بہت سی درخواستیں دے رکھی ہیں ان کو اکٹھا کر دیا جائے اس پر جسٹس جواد نے کہا کہ آپ کی درخواستیں ہم نمٹاتے جاتے ہیں کیونکہ اس کی وجہ سے ہم کنفیوز ہوتے ہیں، عدالت نے حکمنامہ میں کہا کہ مسعود جنجوعہ کیس کی سماعت آج تک ملتوی اور مظفر کے حوالے سے وفاق اپنی رپورٹ آج منگل تک عدالت میں پیش کرے۔ علی زئی نے کہا کہ آپ نے طے کرنا ہے کہ کمشن کی رائے کے بعد آپ کیا سماعت کرینگے یا نہیں جسٹس جواد نے کہا کہ ہم ان چکروں میں نہیں پڑینگے ہم نے لاپتہ افراد کو ہر صورت بازیاب کرانا ہے، جسٹس جواد نے علی زئی سے کہا کہ آپ ہمیں بتائیں اٹارنی جنرل نے کیا لائحہ عمل بنایا ہے ؟ کیا کوئی قانون سازی کی جا رہی ہے کوئی ایمنسٹی سکیم بنائی جا رہی ہے کیا کسی کے خلاف کارروائی کی جائے گی یہ حکومت کا کام ہے کہ ہمیں بتائے کہ اس نے کیا کرنا ہے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل علی زئی سے عدالت نے رپورٹ طلب کی جس پر علی زئی نے بتایا کہ کمیشن سے کہا گیا تھا کہ فہرست دی جائے جن کو حراستی مراکز میں رکھا گیا تھا جس پر فہرست آگئی ہے اس پر دستخط تک نہیں اس پر عدالت نے کہا کہ آپ نے کمشن سے کچھ نہیں مانگا آپ کے پاس وزارت دفاع ہے حساس اداروں کے سربراہ موجود ہیں جسٹس جواد نے کہا کہ ہم ان سے کچھ نہیں کہیں گے ہمیں اٹارنی جنرل آفس فہرست فراہم کرے 84 افراد کا معاملہ ہے سیکرٹری دفاع کو بلائیں، ان کے جواب مانگیں جسٹس خلجی نے کہا کہ آپ نے میٹنگ میں طے کیا تھا کہ فہرست آپ کو مل جائے گی علی زئی نے کہا کہ ابھی بہت سی چیزیں طے ہونا باقی ہیں ابھی صرف فہرست بنائی جاتی ہے جسٹس خلجی نے کہا کہ آپ کا دس سالہ پروگرام ہے صرف یہ طے ہوا ہے کہ کس کس نے عدالت میں کتنے کتنے مقدمات چل رہے ہیں جسٹس جواد نے کہا کہ اگر حراستی مراکز میں موجود لوگوں کی فہرست نہیں مل رہی کیا یہ مشکل کام ہے یہ ایک گھنٹے سے زیادہ کا کام نہیں دو مراکز آپ کے سامنے ہیں ان کی فہرست تو دیکھ لیں معاملات واضح ہو جائینگے یہ ایک زیادہ مشکل کام نہیں ہے علی زئی نے کہا کہ آپ تاریخ مقرر کر دیں اس حوالے سے جواب داخل کر دینگے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ دو تاریخ کو آرڈر جاری کیا تھا تین کو آپ فہرست دے دیتے آپ نے حراستی مراکز سے کچھ پوچھا ہے چھ ند گزر گئے تاریخیں ڈلوانے کا سلسلہ اب بند ہونا چاہئے آپ کے پاس اب تک تمام حراستی مراکز کی تفصیلات جاری کی جا رہی تھیں مشکل کیا ہے اس بارے میں جاننا چاہتے ہیں کون حائل ہو رہا ہے ہمیں بتایا جائے ہم سے وہ کام نہ کرایا جائے جو آپ نے کرنا ہے جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ جب حراستی مراکز میں رجسٹر موجود ہیں ان سے معلومات لے کر آپ نے عدالت کو دینا ہے بس اتنی سی بات ہے لاپتہ شخص امداد حسین لکی مروت کے حراستی مرکز میں ہیں ملاقات نہیں کرائی جا رہی۔ امداد حسین کی بہن نرگس نے بتایا کہ ایک سال ہو گیا ملاقات نہیں ہوئی اڈیالہ جیل سے اٹھایا گیا فصیح اللہ کی طرح اس کو بھی غائب کیا گیا عدالت کو بتایا گیا کہ اختر ملک لکی مروت کے حراستی مرکز میں ہے 72 لوگوں کے لئے آپ کو چندہ دے سکتے ہیں مگر ان آٹھ افراد کے لئے آپ کو چوبیس گھنٹے دے سکتے ہیں آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا کہ یہ سب لکی مروت میں ہیں جسٹس خلجی نے کہا کہ ابھی ان کی تصدیق نہیں کی جا رہی۔ جسٹس جواد نے کہا کہ لوگوں کو تکالیف ہیں چٹھیاں لکھ سکتے ہیں ان کے لیے ہر چیز کی اجازت ہے مگر کپڑے اورکھانے کی اشیا تک نہیں پہنچنے دی جا رہیں۔ علی زئی سے کہا کہ ہم تمام حراستی مراکز کے کمانڈنٹ کو طلب کرلیتے ہیں وہ فہرست دے دینگے ہمیں تمام تر تفصیلات دی جائیں کہ کتنے حراستی مراکز ہیں ان میں کتنے لوگ موجود ہیں ہم سے لاپتہ افراد کے ساتھ ہونے والا یہ برتاﺅ برداشت نہیں کر سکتے ہم آرڈر جاری کرینگے عدالت نے زہرہ بی بی کی درخواست کی بھی سماعت کی فضل ربی کیس کی ہم عدالت نے سماعت کی خاتون نے بتایا کہ کرنل چیمہ اور محمد علی شیخ دونوں افراد مسلسل دس سال سے مجھے کہہ رہے ہیں کہ تین بچوں کو پالنا میرے لئے بہت مشکل ہے میرے شوہر کو نہیں بتا رہے ہیں سو سال بھی گزر جائے ان کو گھر نہیں ملے گا ان کو سمجھائیں اس پر جسٹس جواد نے کہا کہ ہمارا کام سمجھانا نہیں فیصلے کرنا ہے اگلے ہفتے اس کیس کو سماعت کے لئے لگا رہے ہیں ہائی کورٹ میں جس نے آپ کا مقدمہ لڑا تھا اس کو بلا کر لائیں ثمینہ خان ایڈووکیٹ ہمیں تمام حقائق بتائیں، کرنل چیمہ کو بولنے کی اجازت نہیں دینگے۔ بعدازاں عدالت نے فضل ربی کیس کی سماعت سترہ جولائی تک ملتوی کر دی۔ سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کیس کی سماعت کے موقع پر حراستی مراکز کا تمام ریکارڈ آج طلب کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی احکامات کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو حکم جاری کر دیں گے، بنچ نے کہا کہ لاپتہ افراد مقدمات میں تاریخ پر تاریخ نہیں دے سکتے، عدالت کو بتایا جائے کہ حراستی مراکز کی تفصیلات فراہم کر نے کے لئے کیا 10 سالہ منصوبہ تشکیل دیا جا رہا ہے؟ 84 افراد حراستی مراکز میں موجود ہیں ان افراد کی لسٹ فراہم کر نے کے لئے مزید وقت نہیں دیا جا سکتا، قانون سازی کر نی ہے یا کچھ اور عدالت کو بتایا جائے وگرنہ حکم جاری کریں گے۔
لاپتہ کیس

ای پیپر-دی نیشن