بادی النظر میں کچھ ایجنسیاں لاپتہ افراد کے معاملات میں ملوث ہیں : سپریم کورٹ
اسلام آباد (آن لائن) ملک بھر سے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے اپنے دفتر میں لاپتہ افراد سیل قائم کردیا اور فاضل جج سپریم کورٹ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے آخری حد تک جائیں گے۔ سات روز کے اندر اندر لاپتہ افراد کے حوالے سے تمام مقدمات کی فہرست بنا کر ان کی مختلف کیٹیگریز بنائیں گے جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے لکی مروت میں قائم حراستی مرکز میں لاپتہ شخص ذاکر اللہ سے انکے اہلخانہ کی ملاقات نہ کرانے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ ذاکر اللہ سے انکے اہلخانہ کی ملاقات کرائی جائے بصورت دیگر حراستی مرکز کے انچارج کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، بادی النظر میں کچھ ایجنسیاں لاپتہ افراد کے معاملات میں ملوث ہیں جبکہ جسٹس خلجی عارف حسین نے ریمارکس دئیے کہ حراستی مراکز میں گوانتاناموبے کی طرح لوگوں کو رکھا گیا ہے کیس بھی درج نہیں کئے جاتے اور لوگ سالوں سال سے وہاں قید ہیں، بہت ہو گیا اب یہ لوگ بازیاب ہونے چاہئیں۔ دوران سماعت جسٹس جواد ایس خواجہ نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ ایک خاتون عابدہ ملک کا خاوند ہجرت کر کے پاکستان آیا وہ اٹھا لیا گیا ہو سکتا ہے کہ کوئی ایجنسی ملوث ہو، ہم نے تنگ آ کر مقدمہ درج کرانے کا حکم دیا تھا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ لکی مروت کوئی آسان جگہ نہیں ہے اور ذاکر اللہ کو نہیں ملنے دیا گیا۔ ذاکر اللہ کا والد مقرب خان اپنے بیٹے کو دیکھے بغیر مر گیا اس کی ماں آوپہ بی بی مرنے کے قریب ہے اگر یہ شہری ہیں تو پھر ان کے خلاف شہری قوانین کے تحت کارروائی ہونی چاہئے۔ مقدمات کی ایک منظم فہرست بنانی چاہئے ان معاملات کے حل کئے جانے کی اشد ضرورت ہے۔ منیر اے ملک نے کہا کہ مجھے تمام لاپتہ افراد کے مقدمات کی تمام فہرست دی جائے اس کی کیٹیگریز بنائی جائے گی حالات کا جائزہ لیا جائیگا کہ کیوں ان کو اٹھایا گیا۔ عدالت مثبت مداخلت کر کے ممکن ہے کہ ان کی رہائی کرا سکے۔ علاوہ ازیں علی اصغر بنگلزئی لاپتہ شخص کیس میں پولیس حکام پیش ہوئے۔ عدالت نے علی اصغر کے حوالے سے بھی اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ اس معاملے کو بھی دیکھ لیں۔ ایک ریٹائر بریگیڈیئر کیسے غائب ہو سکتا ہے حالانکہ وہ پنشن بھی وصول کر رہا ہے جن لوگوں کے حوالے سے ٹھوس شواہد موجود ہیں ان کے حوالے سے تو کام ہونا چاہئے۔