لاپتہ افراد کیس : جلد احکامات جاری کرنے کی استدعا منظور‘ کوئی بھی قانون سے بالا نہیں : سپریم کورٹ

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ آن لائن) سپریم کورٹ میں لاپتہ افراد سے متعلق کیس کی سماعت میں عدالت نے لاپتہ فرد مسعود جنجوعہ کی اہلیہ آمنہ مسعود کی جانب سے کیس میں جلد احکامات جاری کرنے سے متعلق استدعا منظور کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ فاضل عدالت ان کی تمام متفرق درخواستوں کا چیمبر میں جائزہ لینے کے بعد آئندہ سماعت پر حکم جاری کریگی۔ جسٹس خلجی عارف حسین کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان پر مشتمل دو رکنی بنچ نے سماعت کی تو درخواست گزار آمنہ مسعود اور ڈپٹی اٹارنی جنرل دل محمد علی زئی پیش ہوئے۔ دل محمد علی زئی نے عدالت کے استفسار پر بتایا کہ آمنہ مسعود نے حافظ نامی ایک گواہ سے پولیس کا رابطہ کروانا تھا لیکن تاحال رابطہ نہیں کروایا گیا جبکہ آمنہ مسعود نے کہاکہ انہوں نے پچھلی سماعت پر بھی بتایا تھا کہ حافظ گواہی دینے کو تیار نہیں ہے اس لئے پولیس ان ذمہ دار افسران سے تحقیقات کرے جن کے نام میں نے اپنی متفرق درخواست میں لکھے ہیں اور ان افسران کے حوالے سے بازیاب ہونیوالے ایک اور لاپتہ عمران منیر نے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کو بھی مکمل تفصیلات بتائی تھیں۔ انہوں نے کہاکہ ان کے خاوند کو لاپتہ ہوئے 8سال گزر گئے ہیں اور انہوں نے اپنی متفرق درخواستوں میں چند افسران کو نامزد کیا ہے اور پولیس ان پر ہاتھ ڈالنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے اس لئے عدالت ہی اس حوالے سے حکم جاری کرے جس پر فاضل عدالت نے انہیں ہدایت کی کہ وہ اپنی تمام متفرق درخواستوں کا نمبر عدالتی معاون کو لکھوائیں، چیمبر میں جائزہ لینے کے بعد عدالت اس حوالے سے آئندہ سماعت پر حکم جاری کرے گی۔ آن لائن کے مطابقجسٹس خلجی عارف حسین نے ریمارکس دیئے کہ مسعود جنجوعہ کے حوالے سے ٹھوس شواہد موجود ہیں پولیس کو کارروائی کرنا چاہیے تھی جبکہ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگر کوئی بریگیڈئر دو سطروں کے بیان لکھ کر بھجوادے تو کیا ان کو شامل تفتیش نہیں کیا جا سکتا کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے، پولیس کو تمام گواہوں کے بیانات کا جائزہ لینا چاہئے تھا۔ آمنہ مسعود جنجوعہ نے پولیس پر الزام لگایا ہے کہ ان کے خاوند کے معاملے کو غلط رخ دیا جا رہا ہے آئی ایس آئی کے موجودہ اور ماضی کے افسران ان کے خاوند کے حوالے سے کافی کچھ جانتے ہیں عمران منیر کا بیان نہیں لیا جارہا ہے وہ گواہوں کی فہرست پولیس کے حوالے کرکے گواہوں کی زندگیوں کو خطرے میں نہیں ڈال سکتا ہے۔