317لاپتہ افراد زندہ ہیں یا مردہ کچھ پتہ نہیں: بی بی سی
اسلام آباد (بی بی سی اردو) سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر سے 6 سو سے زائد افراد ابھی تک جبری طور پر گمشدہ ہیں جن کے زندہ یا مردہ ہونے کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ ان افراد کے بارے میں قانون نافذ کرنے والے اور سکیورٹی اداروں نے بھی یہ نہیں بتایا کہ آیا یہ افراد ا±ن کی تحویل میں ہیں یا نہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صوبہ خیبر پی کے سے 279 افراد لاپتہ ہیں۔ سب سے زیادہ افراد سوات، دیر، پشاور اور مردان کے علاقوں سے لاپتہ ہوئے، جبکہ آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب سے 148 افراد گ±ذشتہ ڈیڑھ سال سے لاپتہ ہیں۔ ان افراد کا تعلق بہاولپور، بھکر اور میانوالی سے ہے۔ جبری طور پر گمشدہ افراد کے بارے میں وزارتِ داخلہ میں بنائے گئے کمشن نے سپریم کورٹ میں رپورٹ پیش کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ملک بھر سے 633 افراد ابھی تک لاپتہ ہیں جبکہ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ایک ہزار سے زائد لاپتہ افراد سے متعلق درخواستیں کمشن کو موصول ہوئی تھیں جبکہ 2010ءکے بعد سے کمشن نے 316 افراد کو بازیاب کروایا۔ تاہم اس رپورٹ میں اس بات کا ذکر نہیں کیا گیا کہ ان افراد کو خفیہ اداروں کی تحویل سے آزاد کروایا گیا ہے یا پھر انہیں عقوبت خانوں سے۔ کمشن کی رپورٹ کے مطابق رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان سے اب لاپتہ افراد کی تعداد 48 رہ گئی ہے۔ صوبہ سندھ کے ابھی تک ایک سو افراد لاپتہ ہیں۔ وفاقی دارالحکومت سے 36 افراد لاپتہ ہوئے تھے جن میں سے 12 کو بازیاب کروا لیا گیا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق وفاق کے زیرِانتظام قبائلی علاقوں سے 38 افراد کی جبری گمشدگی کے مقدمات سامنے آئے تھے۔