خواتین ڈے

رامائن میں راون کے شکنجے سے نکل کر سیتا جب رام کے پاس پہنچتی ہے تو اس کو اگنی پریکھشا دینی پڑتی ہے ۔آگ سے گذر کر اس نے اپنی پاکیزگی کو ثابت کیا تو وہ سیتا کہلائی۔ مذہب عیسائیت ہو یا یہودیت ،اسلام ہو یا ہندوازم ، پرانے زمانے کے مذہبی اور سماجی قصوں میں عورت کو عجیب عجیب ناموں سے یاد کیا جاتاتھا ۔ اسکے چلتروں کے قصے داستانِ الف لیلی جیسی پرانی کہانیو ں کا موضوع ہوتے۔ ڈپٹی نذیر احمد نے معراتہ العروس لکھ کربیسویں صدی کی عورت کیلئے بھی اعلی کردار کا ایک کینڈا تیار کیا جس میں fit ہونے کیلئے عورتوں نے جان کی بازی لگا دی ۔ آدمیوں کے معیار کچھ یوں بن گئے شباب بھی ہو او ر حجاب بھی ۔دین بھی ہو اور دنیا بھی ۔کھانا پکائے اور اپنے ہاتھ سے کھلائے ۔مینجمنٹ اور فنانشلplanner بھی ہو مگر گھر داری کو سنبھالنے تک ۔اور کمال ہے اس ناول کا کہ آج کی تاریخ تک ہماری عورت جتنا مرضی پڑھ لکھ گئی ہے اسی ناول کے گرد گھوم رہی ہے ۔ تعریف کے دو بول سننے کیلئے ، گھر کے مردوں جن میں باپ ، بھائی ، شوہر اور پھر بیٹے شامل ہوجاتے ہیں اپنی زندگی کو جلا کے راکھ کر لیتی ہے ۔ آج بھی عورت کو اپنا آپ ثابت کرنے کیلئے مختلف قسم کی آگ سے گذرنا پڑتا ہے ۔ آج بھی وہ اپنے سے کم پڑھے لکھے آدمی ، یا کم ذہین آدمی کو یہ چیلنج دینے کا نہیں سوچ سکتی کہ آج تمھارا دن ہے ، آج تم مجھ پر اپنی ذہانت ، اپنی شرافت ، اپنی پاکیزگی اور اپنا ہنر ثابت کرو ۔ دیکھنے کو ہمیں عورت زندگی کے ہر میدان میں نظر آرہی ہے ۔ سائنس ، ٹیکنالوجی ، آرٹس ، ہسٹری ، تعلیم ، لٹریچر ،ہر جگہ جھنڈے گاڑے ، مگر نفسیاتی طور پر ابھی مرد سے کئی قدم پیچھے ۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ عورت نے اتنی ترقی کے باوجود آج بھی اپنے آپ کو انسان نہیں سمجھا ۔ میں یہ نہیں کہہ رہی کہ اسے مردوں نے انسان نہیں سمجھا کیوں کہ میرا یقین یہ ہے کہ تبدیلی کا آغاز آپ کی اپنی ذات ہوتی ہے ۔ ان پڑھ عورت اپنے آپ کو ایک مختلف اور ادنیٰ مخلوق سمجھے تو یہ صدیوں کا سفر ہے جو اس تک پہنچا ہے مگر ایک پڑھی لکھی عورت اگر اپنے آپ کو ڈپٹی صاحب کے مراتہ العروس کو ہی پیمانہ بنائے اس میں قید رکھے گی تو وہ کبھی ایک عام انسان کی طرح اپنے حقوق کی بات نہیں کر سکے گی اور گاڑی چلانے کا وہ اعتمادجو مرد کو پیدائش کے ساتھ ہی مل جاتا ہے ۔ عورت اپنے لئے اس دنیا میں زبردستی پیدا ہی کرتی رہے گی یہ اعتماد ایک نیچرل عمل کا حصہ کبھی نہیں بن سکے گا۔ لکھنے والی عورت کی کہانی کا موضوع صرف عورت کے اوپر ہونے والا ظلم ہی نہیں ہونا چاہیئے ۔لکھنے والی عورت کو مظلوم عورت کو مظلوم انسان کی فہرست میں رکھ کر اپنے اندر اتنی وسعت پیدا کرنی ہے کہ وہ دنیا میں ہونے والی انسانیت کے اوپر ناانصافی کے خلاف بات کر سکے ۔ مغربی ممالک میں جب عورتوں کوایک آزاد فرد کی طرح زندگی گذارتے دیکھتے ہیں تو یہ آزادی انہیں پلیٹ میں سجی سجائی نہیں ملی ۔اس کے پیچھے ایک طویل جد و جہد ہے ۔ عورت کو یہ حقوق تب ہی ملنے شروع ہوگئے جب پورے نظام میں تبدیلی آنی شروع ہوئی ، جب تعلیم عام ہوئی اور سب انسانوں کو ایک سے حقوق ملنے لگے ۔ پاکستان کی عورت کوآزادی اس وقت ملے گی جب وہاں عام انسانوں کو حقوق ملنے شروع ہوجائیں گے ۔ پہلے وہاں پر طبقاتی فرق ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔ یوں نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی ہے تو وہ بھی راج کرے اور اسی بیٹی کا بیٹا ہے تو وہ بھی راج کرے ۔ اللہ دتے کی بیٹی ہے تو کھانے کو روٹی اور پہننے کو کپڑا تک نہ ملے ۔8 مارچ کا دن اس عزم کے ساتھ منانا ہوگا کہ پاکستان کی عورت دنیا میں جہاں بھی ہے اپنے آپ کو پہلے خود انسان سمجھ کر اپنی عزت کرے ۔ تعلیم سے نخرہ اور بناوٹ نہیں بلکہ اپنے اندر اصلی اعتماد پیدا کرے ،اس اعتماد کے ساتھ پھر چاہے اپنی گھر ہستی چلائے یا باہر نکل کر جاب کرے ،وہ کامیاب بھی ہوگی اور معاشرہ میں ایک صحت مند انسان کا کرداربھی ادا کر سکے گی ۔ بے تحاشاطبقاتی فرق نے لوگوں کو ذہنی مریض بنا کر رکھ دیا ہے ۔ناانصافی کا شعور اور اس کے خلاف پر زور آواز اٹھانا ، خالص سیکولر تعلیم کے حصول اور اسے پھیلانے کے لئے کمر بستہ ہوجانا یہ ہے ہماری ضرورت ۔ اس میں عورتوں کے مسائل بھی حل ہوجائیں گے ۔ ورنہ پاکستان جیسے معاشرے میں بلکہ وہاں سے اٹھ کر یہاں کینڈا جیسے گھٹن سے پاک و صاف معاشرے میں بھی ہمارے پڑھے لکھے لبرل مردو خواتین اس۔۔ دولے شاہ دے چوہے۔۔ والا کردار ادا کرنے لگتے ہیں جس کے سر سے صدیوں سے پہنی ہوئی لوہے کی ٹوپی کوئی اچانک اتار دے۔