چیف الیکشن کمشنر فخرو بھائی کی غیرجانبداری؟
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے اپنے فیصل آباد کے دورہ پر بہت دلچسپ باتیں کیں۔ انہوں نے کہا کہ فخروبھائی صرف وہ باتیں کریں، جن پر پورا اتر سکیں۔ چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم کی غیرجانبداری اور قانونی معاملات کو ہینڈل کرنے کی بے پناہ صلاحیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ اگر ملک کے چیف الیکشن کمشنر نہ ہوتے تو اس وقت ان کو ملک کا نگران وزیراعظم بنائے جانے پراتفاق ہو چکا ہوتا۔ اس وقت حکومت اور اپوزیشن فخروبھائی کے الیکشن آفس کو بچانے کے لئے جس طرح اکٹھی نظر آ رہی ہیں اور جس طرح جماعت اسلامی کے امیر منور حسن سے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن تک فخروبھائی کی دیانتداری اور غیرجانبداری کے لئے رطب السان ہیں اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ان دونوں میں کسی ایسی شخصیت پر بھی سمجھوتہ ہو سکتا ہے جو فخروبھائی کی طرح ہر سیاسی جماعت کے لئے قابل قبول ہو اور اگر وہ کسی جماعت کے لئے اپنے بڑھاپے کی وجہ سے قابل قبول نہیں ہیں تو اس جماعت کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ فخروبھائی کو الیکشن کرانا ہیں، کہیں کشتی نہیں لڑنی۔ بعض سیاسی حلقوں کے فخروبھائی پر یہ تحفظات موجود ہیں کہ وہ بلند بانگ دعوے تو ضرور کرتے ہیں لیکن اپنے ان بلندوبانگ دعو¶ں کے مطابق عمل نہیں کرا پائے۔ اسکاواضح ثبوت نئے سال میں پنجاب اور سندھ میں منعقد ہونے والے ضمنی انتخابات ہیں یا پھر یہ کہ انہوں نے بار بار چاہا کہ حکمران پیپلزپارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں سمیت پنجاب کی برسراقتدار پارٹی مسلم لیگ(ن) ایک طرف ترقیاتی کاموں کے نام پر سرکاری فنڈز کے ضیاع میں لگی ہوئی ہیں اور دوسری طرف یہ جماعتیں ارفع و اعلیٰ اصولوں کے برعکس اپنے اپنے لیڈروں کی ”تصاویر“ چھپوانے سے باز نہیں آئیں۔ الیکشن آفس کی طرف سے بار بار یہ کہا گیا کہ کوئی حکومت اپنی اپنی حکومتی کامیابیوں کا سہرا اپنے پارٹی لیڈروں کے سر نہ باندھے۔ فخرالدین جی ابراہیم کی طرف سے یہ متعدد مرتبہ کہا گیا لیکن ان کے واویلا کے باوجود وفاقی اور پنجاب کی صوبائی حکومتوں کے لئے زرداری اور نوازشریف کی تصاویر اور ان کے ناموں کے پوٹریٹ شائع ہونے سے نہیں روک سکے۔ فخرالدین جی ابراہیم کہتے ہیں کہ آئین کے آرٹیکل 62، 63 پر عمل یقینی بنایا جائے گا۔ ان پر جعلی ڈگریوں پر پیچھے ہٹنے کا تاثر غلط ہے۔ عدالتی احکامات پر عمل ہو گا اور تصدیق ہر صورت کروائی جائے گی۔ انہوںنے سینٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے 249لوگوں کواپنی تصدیق شدہ ڈگریاں بھیجنے کی چٹھی ارسال کی تھی۔ 249 میں سے 27ارکان کی طرف سے اپنے کاغذات نامزدگی کے ساتھ لگائی گئی تعلیمی اسناد اور ڈگریوں کا تصدیق شدہ ورشن الیکشن آفس کو موصول ہوا ہے۔ باقی سب نے چیف الیکشن کمشنر کے خط کو کچھ زیادہ اہمیت نہیں دی اور کسی نے اہمیت دی تو وہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خاں ہیں کہ انہیں فخروبھائی تو چیف الیکشن افسر کے لئے بہت زیادہ پسند ہیں لیکن چیف الیکشن کمشنر کے طور پر بیٹھے شخص سے ڈگریوں کی تصدیق کی ادا بالکل پسند نہیں آئی اور انہیں لگا کہ جیسے چیف الیکشن کمیشن نے ان کی توہین کر دی ہے۔ وہ سراپا احتجاج بن گئے۔ چیف الیکشن کمشنر کی اس ادا پر سیخ پا ہو گئے حتیٰ کہ انہوں نے سوچا کہ اس سلسلہ میں کوئی نیا قانون بننا چاہیے کہ نئے الیکشن کے لئے ڈگریوں کا پرانا ریکارڈ نہ دیکھا جائے۔ دراصل ڈگریوں کا سلسلہ جنرل پرویزمشرف نے 2002ءکے الیکشن میں نوابزادہ نصیراللہ خان کو قومی اسمبلی سے باہر کرنے کے لئے کیا تھا کہ اس قانون کے تحت جو گریجویٹ نہیں تھا وہ اسمبلی میں نہیں پہنچ سکتاتھا۔ نوابزادہ نصراللہ خان اسمبلی سے باہر رہ گئے۔ غلام مصطفےٰ کھر اور ایوب گوہر جیسے نامی گرامی سیاست دان قومی اسمبلی میں ان نہیں ہو سکے کیونکہ یہ اور بہت سے دوسرے گریجوایشن کی شرط پوری نہیں کرتے تھے۔ بھلا ہو زرداری کا۔ پیپلزپارٹی اقتدار میں آئی تو انہوں نے مشرف سے یہ کہہ کر اسمبلیوں کے ارکان کے گریجوایٹ ہونے کا معاملہ اٹھا دیا کہ وہ سینٹ کے رکن بننا چاہتے ہیں۔ مشرف ایوان صدر میں رہنے کے لئے کچھ بھی کر سکتے تھے۔ حتیٰ کہ اگر آصف علی زرداری سینٹ کے چیئرمین بننا چاہتے تو وہ اس کے لئے بھی تیار تھے۔ انہوں نے شاید زندگی بھر یہ نہیں سوچا تھا کہ ارکان پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبر منتخب ہونے کے لئے گریجویشن کی شرط ہٹانے کی خواہش کرنے والا آصف علی زڑداری فی الحقیقت ایوان صدر میں آنا چاہتا ہے۔ آصف علی زرداری یہی چاہتے تھے لیکن انہوں نے مشرف کو وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے ذریعے پیغام یہی پہنچایا تھا کہ وہ سینٹ کا الیکشن لڑنا چاہتے ہیں اور صدر مشرف نے اپنے اٹارنی جنرل ملک قیوم کے ذریعے ڈوگر عدالت میں ارکان اسمبلی منتخب ہونے کے لئے گریجوایٹ ہونے کی شرط کے کیس میں پیش ہو کر ملک کے سب سے بڑے سرکاری وکیل کی حیثیت سے یہ بیان داخل کرا دیا کہ حکومت کو ارکان پارلیمنٹ یا ارکان صوبائی اسمبلی کے گریجوایٹ ہونے پر کوئی اصرار نہیں ہے۔ زرداری کے لئے کھلنے والے دروازے سے بہت سے لوگوں کو اسمبلیوں کی سیاست میں ”ان“ ہونے کا موقع ملا جیسے مسلم لیگ(ن) کے سردار ذوالفقار علی کھوسہ پنجاب اسمبلی کے رکن بن گئے۔ اگر وہ پہلے سے پنجاب اسمبلی میں ہوتے تو مسلم لیگ(ن) دوست محمد کھوسہ کو ڈنگ ٹپا¶ وزیراعلیٰ پنجاب ہرگز منتخب نہ کراتی۔ ذوالفقار علی کھوسہ وزیراعلیٰ پنجاب بن جاتے۔فخروبھائی نے قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خاں کی طرف سے ڈگریوں کی تصدیق کے حوالے سے لکھے گئے خط پر ان کا ردعمل سامنے آنے پر ان سے ٹیلی فون پر رابطہ کرکے بظاہر معذرت کر لی لیکن وہ اس پر اب بھی تلے بیٹھے ہیں کہ وہ 2008ءمیں سینٹ، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کا الیکشن لڑنے والوں سے ان کی ڈگریوں کی تصدیق ضرور مانگیں گے کیونکہ یہ سپریم کورٹ کا آرڈر ہے۔ اب فخروبھائی نے ارکان پارلیمنٹ اور ارکان صوبائی اسمبلی کو یہ کہہ دیا ہے کہ ان کے لئے ڈیڈلائن موجود نہیں ہے وہ اگلے پندرہ دنوں میں اپنی ڈگریوں کی چیف الیکشن کمشنر کو تصدیق بھجوا سکتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے اسی حوالے سے کہا ہے کہ فخروبھائی وہی دعوے کریں جن پر عملدرآمد کرا سکیں۔ انہیں بہت کچھ کہنے کی نہیں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اب ایم کیو ایم یہ سوال اٹھا رہی ہے کہ آیا اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار علی خاں کے تمام سرٹیفکیٹ اور تمام اسناد اصلی ہیں۔ ان کے ساتھ جعل سازی کا کوئی معاملہ تو نہیں ہے۔ چیف الیکشن کمشنر پرعزم ہیں کہ وہ آرٹیکل 62، 63 پر عمل یقینی بنائیں گے۔ لگتا ہے کہ وہ یہ سب کچھ کر گزریں گے اور شاید وہ ملک میں نگران سیٹ اپ کے قیام کے منتظر ہیں۔ جعلی ڈگریوں پر پارلیمنٹ کا حصہ بننے والے وہ سینکڑوں ارکان کو گزشتہ پانچ سال تک دھوکہ دینے کے جرم میں اور بہت سوں کے خون کا معائنہ کرانے کے بعد ان میں سے شراب کے رسیا افراد کو، قرضے لینے اور معاف کرانے والوں کو اور سیاست میںدھوکے اور فریب کو شعار بنانے والوں کو الیکشن سے باہر کرکے وہ خود کو غیرجانبدار اور دیانتدار چیف الیکشن کمشنر ثابت کریں گے۔