تذکرہ 2 نمبر ڈگریوں کا !!

  ایک بیٹی کا خط‘ لکھتی ہیں ”انکل میں اس سال میٹرک کے امتحان میں اسلئے شامل نہیں ہو سکی کیونکہ میرے والد صاحب فوت چکے ہیں۔ میری ماں لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہے۔ فیس کچھ اس طرح زیادہ تھی کہ گوجرانوالہ بورڈ نے میٹرک کا امتحان دینے والے ہر طالب علم کیلئے یہ لازمی کر دیا ہے کہ وہ امتحانی فیس کے علاوہ 500/- روپے سند کے حصول کیلئے بھی ساتھ ہی دے گا۔“ یہ تھا ہماری ایک بیٹی کا خط۔ایک طرف یہ بے بسی کہ ایک بیٹی محض پانچ سو روپے نہ ہونے کے باعث امتحان نہ دے سکی دوسری طرف جب پارلیمنٹ کا رکن بننے کیلئے بی اے کی ڈگری کو لازمی قرار دیا گیا توہمارے سیاست دانوں میں سے بہت سے ارکان نے راتوں رات جعلی ڈگریاں حاصل کرلیں۔ اب چونکہ الیکشن ہونے کو ہیں اب پھر ڈگریوں کی چیکنگ کا عمل جاری ہے مگر ابھی تک 250 سے زیادہ ارکان اپنی ڈگریاں چیک کرانے کو تیار ہی نہیں ہیں۔ جیسا کہ ن لیگ کے ایک معزز رکن جناب چودھری نثار صاحب نے بھی اسے اپنی توہین سمجھ کر ڈگری چیک کرانے سے انکار کر دیا۔ بہرحال ہماری رائے میں جو رکن بھی ڈگری چیک کرانے پر الیکشن کمشن سے سیخ پا ہوتا ہے یا اسے اپنی توہین سمجھتا ہے تو ا کی ڈگری کے دو نمبر ہونے میں شک کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔ کچھ ایسی ڈگریوں کا بھی ذکر کرنا ضروری ہے جنہیں H.E.C نے تو اصل قرار دے دیا ہے مگر وہ ”اندر“ سے جعلی ہیں۔ وہ ایسے کہ امیدوار کی جگہ امتحان کسی اور نے دیا اور فارم پر تصویر بھی دوسرے کی لگا دی گئی۔ کتنی بدقسمتی ہے کہ جس ملک میں چپڑاسی بھرتی ہونے یا کلرک بننے کیلئے تحریری امتحان بھی پاس کرنے پڑتے ہیں۔مگر پارلیمنٹ کا رکن بننے کیلئے نہ کوئی چیکنگ بلکہ جعلی ڈگری سے بھی کام چل جاتا ہے۔ پھر جعلی ڈگریوں کی بدولت جب جمشید دستی جیسے ”باعزت“ حکمران سامنے آئیں گے تو بانی¿ پاکستان کے نام سے منسوب کالج کے نام کو بدلنا تو درکنار ایسے افراد کل کو وطن عزیز کا نام بھی بدل سکتے ہیں۔ عرصہ دراز سے ”قانون اندھا ہوتا ہے“ کی اصطلاح استعمال ہوتی رہی ہے مگر اب ایسا نہیں ہے۔ اگر قانون اندھا ہو تو کبھی نہ کبھی تو اس کے ہاتھ کسی وڈیرے‘ جاگیردار یا کرپٹ حکمران طبقے کے گریبانوں تک بھی پہنچیں مگر آپ نے دیکھا ہو گا کہ قانون کی ایک نہیں کئی آنکھیں ہوتی ہیں اور ہر ایک کو اس کی حیثیت کے مطابق قانون دیکھتا اور اس سے سلوک کرتا ہے۔ تھانوں میں اس کا عملی مظاہرہ ہر روز ہوتا ہے۔ جعلی ڈگریوں کی بنا پر جو عہدہ حاصل ہوتا ہے جو تنخواہ یا مراعات ملتی ہیں کیا وہ سب حرام نہیں ہیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جب 2 نمبر ڈگری ہولڈر ٹاک شوز میں آتے ہیں تو انہیں ذرا بھی شرمندگی کا احساس نہیں ہوتا اور کرپشن میں لت پت ہونے کے باوجود یہ راگ الاپتے ہیں کہ اگر میں کرپٹ ہوں تو ثبوت لائیں۔ ان کو شاید علم ہی نہیں کہ یہاں ثبوت کی ضرورت پڑتی ہے۔ شہادتیں بھی جھوٹی دے دی جاتی ہیں۔ عدالتوں‘ تھانوں میں قرآن کی جھوٹی قسموں سے وقتی فائدے بھی حاصل کر لئے جاتے ہیں۔ اب الیکشن کمشن کو اس پر سختی سے عملدرآمد کرانا ہو گا اور جو بھی سیاستدان چاہے کسی بھی پارٹی سے ہو بے شک صدر‘ وزیراعظم ہی کیوں نہ ہو سب کی ڈگریاں چیک کرے اور جو بھی جعلی ثابت ہو اسے الیکشن میں قطعاً شامل نہ ہونے دیا جائے۔ اگر الیکشن کمشن اس مشن میں کامیاب نہیں ہوتا اور پھر جعلی ڈگری ہولڈر ہی الیکشن میں شامل ہوتے ہیں تو ملکی سیاست کا تو جو حال ہو گا سو ہو گا مگر پھر الیکشن کمشن کا ادارہ بھی اپنا وقار کھو بیٹھے گا۔ ہم پورے وثوق سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر موجودہ اسمبلیوں میں ”جعل ساز“ نہ ہوتے باکردار‘ باوقار اور محب وطن افراد ہوتے تو نہ ہی ملکی اداروں کی تباہی ہوتی نہ کرپشن میں ہمیں بین الاقوامی سطح پر کوئی نمایاں ”اعزاز“ حاصل ہوتااور نہ ہی آج وطن عزیز ”تاریکیوں“ کی لپیٹ میں ہوتا۔ ان لوگوں نے اپنے منظور نظر افراد کی خاطر راتوں رات آئینی ترامیم کیں۔ عدلیہ کے فیصلوں پر عمل کرنا تو درکنار ان کا مذاق اڑانے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ وزیراعلیٰ پنجاب جو کہ بلاشبہ تعلیم کے میدان میں انقلابی تبدیلیاں لا رہے ہیں۔ بورڈ کی طرف سے جو 500 روپے بچوں سے ناجائز وصول کئے گئے ہیں اس کا انہیں فوراً نوٹس لینا چاہئے اور یہ بچوں کو واپس دلائے جائیں۔ کبھی فارم ب کی آڑ میں نادرا والے 500 وصول کرتے ہیں کبھی بورڈ والے اس سند کیلئے بچوں سے 500 بٹورتے ہیں جس کا امتحان ابھی ہوا ہی نہیں۔ دوسری طرف جعلی ڈگریوں والے حکومتی ایوانوں میں شاہانہ زندگیاں بسر کر رہے ہیں۔یہ لمحہ فکریہ ہے!