ہمارے موجودہ نظامِ تعلیم کا بانی کون؟
لارڈ میکالے لکھتا ہے کہ وہ میری آج تک کسی ایسے مستشرق سے ملاقات نہیں ہوئی جو اس بات کا دعویدار ہو کہ عربی اور سنسکرت شاعری کو یورپین شاعری کے مقابلے میں کھڑا کیا جا سکتا ہے لیکن جب ہم ان تخلیقات کے دائرے سے باہر نکل کر جن کا محور محض تخیل ہے ان علوم کی طرف نگاہ دوڑاتے ہیں جو حقائق پر مبنی ہیں جن میں تجربہ و مشاہدہ بطور اساس کام کرتے ہیں تو اس وقت یورپ کی فضلیت مسلم ہوجاتی ہے۔ایک صفحے کے بعد لارڈ میکالے لکھتا ہے کہ:
” اب حل طلب مسئلہ صرف یہ رہ جاتا ہے کہ جب ہمیں ایک زبان کی تعلیم دینے کا اختیار حاصل ہے تو کیا پھربھی ہم ان زبانوں کی تعلیم دیں گے جن کی مسلمہ طور پر کسی موضوع سے متعلق بھی کوئی ایسی قابل قدر کتاب نہیں ملتی جسے ہماری زبان کے مقابلے میں پیش کیا جا سکتا ہو؟ جب ہم یورپین علوم پڑھانے کے معاملے میں بالکل آزاد ہیں تو کیا پھر بھی ہم ان علوم کی تعلیم دیں گے جو یورپین علوم سے جہاں کہیں مختلف ہیں وہاں ان کی لغویات مسلمہ طور پر نمایاں ہے ۔جب ایک صحیح فلسفہ اور تاریخ کی سر پرستی رکھنے کی قدرت رکھتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ہم سرکاری دولت کے صرف سے وہ طبی اصول پڑھائیں جن کو دیکھ کر انگلستان کانعل بندبھی خفت محسوس کرتا ہے وہ علم ہیئت جس پر انگریزی سکولوں کی بچیاں بھی خندہ زن ہوں گی وہ علم تاریخ جو تیس تیس فٹ لمبے قد کے بادشاہوں کے تذکرے سے بھرا پڑا ہے جنہوں نے تیس تیس ہزار سال تک حکمرانی اور فرمانروائی کی وہ جغرافیہ جو شٍیرے، راب اور مکھن کے سمندروں کے بیانات پر مشتمل ہے (صفحہ 52 تا 54) آگے لکھتا ہے کہ
”ہم اس بات سے بہت زیادہ احتزاز کرتے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے کہ ان مسیحی مشتریوں کی سرکاری طور پر پشت پناہی کی جائے جو اہل ملک کو عیسائی بنانے میں مصروف ہیں۔ جب عیسائیت کے بارے میں ہمارا طرز عمل یہ ہے تو کیا یہ مناسب ہوگا کہ ہم حکومت کے خزانے سے رشوت دے کرلوگوں کو اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ اپنی نئی نسل کو اس قسم کی تعلیم دلوائیں جس کے ذریعے سے انسان یہ جان سکے کہ گدھے کو چھُونے کے بعد آدمی کس طرح پاک ہو سکتا ہے ۔ پاوید کے کن اشلوکوں سے بکرا مار دینے کا کفارہ ادا کیا جا سکتا ہے۔ (ص 66,67) عربی مدارس سے شدید نفرت اور اس کے اسباب کا بیان اس طرح فرمایا جاتا ہے ”عربی اورسنسکرت کالجوں پر اس وقت جو کچھ خرچ ہو رہاہے وہ نہ صرف صداقت کی حق تلفی ہے بلکہ سرکاری خزانے سے غلط کاروں کی پرورش کی جا رہی ہے۔ جن میں نہ صرف مجبور و بے بس بیروزگار پناہ لیتے ہیں بلکہ ان کے اندر ایسے متعصب اور تنگ نظر لوگوں کو بھی پرورش کیا جا رہا ہے جو اپنے تعصبات اور مفادات کی بناءپر ہر نئی تعلیمی اسکیم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں (صفحہ 63)
ان اقتباسات سے یہ بات کسی بھی درجے میں ڈھکی چھپی نہیں رہ جاتی کہ اس نظام تعلیم کے ذریعے سے انگریزوں کا مقصد کیا تھا؟ اور وہ اس نظام تعلیم کے ذریعے سے کس قسم کی نسل تیار کرنا چاہتے تھے۔
مختصر یہ کہ مسئلہ صرف ایک گھنٹے میں ”مذہبی تعلیم“ دینے کا نہیں بلکہ اس پورے نظام تعلیم کو یکسر بدلنے کا ہے جس نے ہم سے ہماری قومی خودداری، ہمارا ملی شعور اور ہمارے ماضی کا سارا تہذیبی اثاثہ چھین کر ہمیں تادمِ زیست مغرب کا غلام بنانے کی سازش کی تھی۔ یورپ کے کسی اچھے کتب خانے کی محض ایک الماری ہندوستان اور عرب کے سارے ادبی سرمایہ پر بھاری ہے۔“ ”عربی زبان میں کسی موضوع سے متعلق بھی کوئی ایسی قابل قدر کتاب نہیں ملتی جسے انگریزی زبان کے مقابلے میں پیش کیا جا سکتا ہو۔“ ”مشرقی علوم یورپین علوم سے جہاں کہیں مختلف ہیں وہاں ان کی لغویت مسلمہ طور پر نمایاں ہے“ ” طب مشرق کے اصول دیکھ کر انگلستان کا نعل بند بھی خفت محسوس کرتا ہے“ ”عربی زبان کا دامن ہر قسم کی مفید معلومات سے خالی ہے“ ” اور وہ ہیئت تک اوہام کو جنم دیتی ہے۔“ ”مشرق کی تاریخ اور فلسفہ جھوٹا ہے اور باطل مذہب کی تائید کے لئے وضع کیا گیا ہے۔“
اس کے علاوہ انگریز کے ذہن میں کبھی ایک لمحے کے لئے بھی یہ بات نہیں رہی کہ ہندوستان اور بالخصوص مسلمانوں میں نئے علوم کے اعلیٰ درجے کے ماہرین پیدا کئے جائیں۔ یہ نظام صرف ایسے سرکاری ملازم پیدا کرنے کے لئے بنایا گیا تھا جو بقول میکالے ”ہمارے اور ان کروڑوں انسانوں کے مابین ترجمانی کے فرائض انجام دے سکے جن پر ہم حکمران ہیں۔ اس لئے یہا ں سائنس اور ٹیکنالوجی کا معیار ہمیشہ سے انتہائی پست رکھا گیا ہے لہٰذا اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے نظام تعلیم سے ایسے افراد تیار ہوں جو کھلے ذہن کے ساتھ دنیا کا ہر مفید علم و فن حاصل کریں، مغرب کی اندھی تقلید کرنے کے بجائے ان علوم و فنون میں اجتہادی بصیرت پیدا کریں اور ذہنی غلامی کے بندھن توڑ کر اپنی زندگی کے راستے اسلامی اصولوں کی روشنی میں خود متعین کریں تو ہمیں تمام جدید علوم کے کے نصاب و نظام کو ازسر نو مدون کرنا ہوگا اور ان تمام علوم سے مادہ پرستانہ تصورات کو نکال کر ان میں مسلمانوں کے افکار، مسلمان ذہنیت اور اسلامی طرزِ فکر کو سمونا پڑے گا اس کے بغیر ایک آزاد مسلمان قوم کی تشکیل مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔
ہمارے نئے نظام تعلیم کے ذریعے سے یہ بات ہمارے ہر پڑھے لکھے شخص کے دماغ اور قلب و روح میں سما جانی چاہیے کہ ایک تعلیم یافتہ انسان کا مقصدِ زندگی اپنے لئے بہتروسائل معاش حاصل کر کے ہر گز پورا نہیں ہوتا بلکہ اس کا اصل مقصد اپنے علم، اپنے فن، اپنی ذہانت اور اپنی صلاحیت کے ذریعے سے خود اپنے نظریات، اخلاق و کردار کو بہتر بنانا اور ملک و ملت کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانا ہے۔ معاش کا حصول تعلیم کا ثانوی مقصد تو ہو سکتا ہے لیکن اس کا اولین مقصد محرک اور نصب العین نہیں۔