عدالتی حکم کے باوجود حراستی مراکز کے قیدی رہا ہوئے نہ مقدمات چلائے گئے: اکانومسٹ

لندن (نیوز ڈیسک) پولیس اور انٹیلی جنس اہلکاروں نے نومبر 2007ءکی رات اسلام آباد کے نواحی علاقے میں پرنٹنگ پریس کے مالک 36 سالہ مظہر الحق کے گھر پر چھاپہ مار کر حراست میں لیا، یہ شخص اس وقت سے حراست میں ہے۔ برطانوی جریدے اکانومسٹ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق اگرچہ اس شخص پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کے مختلف مبہم الزامات عائد کئے گئے ہیں لیکن کسی بھی الزام میں اسکے خلاف کوئی مقدمہ چلا نہ سزا سنائی گئی۔ جریدہ لکھتا ہے کہ مئی 2010ءمیں ایک عدالت نے اس شخص اور دس دیگر افراد کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل سے رہا کرنے کا حکم دیا لیکن انٹیلی جنس اہلکار جیل گئے اور ان تمام افراد کو ساتھ لے گئے۔ جریدے کے مطابق گزشتہ ماہ کے آخر میں سپریم کورٹ میں دوران سماعت حکام نے یہ بات تسلیم کی کہ 700 مشتبہ عسکریت پسندوں کو بغیر مقدمہ چلائے حراستی مراکز میں رکھا گیا ہے۔ ان میں اڈیالہ جیل کے قیدی مظہر الحق اور دیگر بھی ہیں۔ یہ اختیارات 2011ءمیں منظور کئے گئے ایک قانون کے تحت دیئے گئے۔ ہیں جو فورسز کو مشتبہ افراد کو غیرمعینہ مدت تک زیرحراست رکھنے اور انہیں پھانسی تک دینے کی اجازت دیتا ہے۔ جریدہ لکھتا ہے کہ ایک سال قبل سپریم کورٹ نے اڈیالہ جیل سے حراست میں لئے گئے افراد کو پیش کرنے کا حکم دیا تھا، ان میں سے چار غیر واضح حالات میں مر چکے ہیں جبکہ مظہر الحق سمیت دیگر سات افراد کو انتہائی قابل رحم حالت میں عدالت کے سامنے پیش کیا گیا۔ یہ افراد نیم فاقہ زدہ تھے اور بمشکل چلنے اور بات کرنے کے قابل تھے۔ عدالتی کارروائی کے پیش نظر حکام ان افراد کیخلاف الزامات مسلسل تبدیل کرتے رہے۔ جنوری میں چیف جسٹس افتخار چودھری نے حکم دیا کہ ان افراد پر مقدمہ چلایا جائے، انہیں غیر معینہ مدت تک غیرقانونی حراست میں نہیں رکھا جا سکتا۔ تین بچوں کا باپ مظہر الحق اسلام آباد کی لال مسجد کیلئے کتابیں شائع کرتا تھا۔ اسکے باپ کا اصرار ہے کہ اس کا بیٹا کبھی دہشت گردی میں ملوث نہیں رہا۔ جریدے کے مطابق ایک وکیل شیر محمد 2011ءکے اس قانون کو غیر آئینی سمجھتے ہیں عدالت میں چیلنج کر رہے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ قانون فورسز کیلئے قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں سے نمٹنے کیلئے بنایا گیا ہے۔ یہ قانون فوج کو ملک کے کسی بھی حصے سے مشتبہ افراد کو حراست میں لینے کی اجازت دیتا ہے اور اس کے تحت ایک سپاہی کی گواہی پر مشتبہ شخص کو موت سمیت ہر قسم کی سزا دی جا سکتی ہے۔ جریدہ لکھتا ہے کہ نجی طور پر فوجی افسران یہ شکایت کرتے ہیں کہ عدالتیں دہشت گردوں کو سزا نہیں دیتیں اور انتہا پسندی پر ان کے رویہ میں نرومی پائی جاتی ہے۔ گزشتہ سال قبائلی علاقوں کے نزدیک واقع پشاور ہائیکورٹ نے حراستی مراکز میں قید ایک ہزار سے زائد افراد کی رہائی کا حکم دیا تھا۔ وکیل شیر محمد خان نے یقین ظاہر کیا ہے کہ حراستی مراکز میں 2 ہزار سے 3 ہزار افراد تک قید ہیں۔