700 افراد مقدمہ چلائے بغیر قید ہیں‘ اٹارنی جنرل ۔۔۔۔ ایجنسیاں غیر قانونی حراست پر جوابدہ ہیں : چیف جسٹس
اسلام آباد (اے ایف پی+ نمائندہ نوائے وقت+ نیٹ نیوز+ بی بی سی) اٹارنی جنرل عرفان قادر نے سپریم کورٹ میں پہلی بار یہ انکشاف کیا ہے کہ دہشت گردی کیخلاف حالیہ جنگ کے دوران 700 افراد مقدمہ چلائے بغیر غیرمعینہ عرصہ سے سکیورٹی ایجنسیوں کے زیرتحویل ہیں۔ ان لوگوں کو قبائلی علاقوں سے گرفتار کیا گیا تھا۔ ان افراد کو قبائلی علاقے میں فوجی آپریشن کے خاتمہ تک نہیں چھوڑا جا سکتا۔ انہوں نے ےہ بتانے سے انکار کیا کہ یہ کتنے عرصہ سے قید ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپریشن کے خاتمہ کے بعد ہی انہیں متعلقہ حکام کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔ عدالت ان 7 مشتبہ افراد کے حوالے سے کیسز کی سمجاعت کر رہی ہے جنہیں 2007ءمیں پکڑا گیا تھا۔ یہ ساتوں افراد راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کے باہر سے لاپتہ ہونے والے گیارہ افراد میں سے ہیں۔ ان میں سے دو سگے بھائیوں سمیت 4 کا انتقال ہو گیا تھا۔ حکومت نے پارہ چنار میں خفیہ اداروں کے حراستی مرکز میں قید ان 7 افراد پر ایف سی آر کے تحت مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ آئی ایس آئی حکام کی جانب سے اڈیالہ جیل سے اٹھائے جانے والے 11 قیدیوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے لاپتہ قیدیوں کے معاملہ کا مشاورت سے حل نکالنے کیلئے عدالت سے مہلت کی استدعا، چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ معاملے کا خود ہی کوئی حل نکالیں، اگر ہم نے ازخود نوٹس لے کر قیدیوں کی رہائی کا حکم دیا تو اس کے دوررس اثرات مرتب ہونگے، ایجنسیاں شہریوں کو غیرقانونی طور پر حراست میں رکھنے پر جوابدہ ہیں، یہ بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ ہے۔ مقدمہ کی سماعت 28 جنوری تک ملتوی کر دی گئی۔ سیکرٹری فاٹا ناصر جمال نے کہا کہ قیدیوں سے ناجائز اسلحہ اور دستی بم برآمد ہوئے ہیں۔ ملزموں کے وکیل طارق اسد کا کہنا تھا کہ اگر قیدی ان کی حراست میں ہیں سو اسلحہ کہاں سے آیا؟ چیف جٹس کی سربراہی میں جسٹس گلزار احمد اور جسٹس شیخ عظمت سعید پر مشتمل تین رکنی بنچ نے لاپتہ کیس کی سماعت کی تو سیکرٹری فاٹا نے رپورٹ پیش کی تاہم فاضل عدالت نے اس پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سب سے ایک ہی چیز کی برآمدگی ظاہر کی گئی ہے جو ناقابل اعتبار بات ہے۔ ہم نے ان قیدیوں کو ہر 120 دن بعد حراست میں رکھنے کے احکامات کی تفصیل مانگی تھی جو مہیا نہیں کی گئی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملزموں کا ٹرائل ایف سی آر کی دفعہ گیارہ کے تحت ہو گا۔ یہ قبائلی علاقے سے پکڑے گئے تھے، ان پر فوجی قافلے پر حملے کا الزام تھا، عدالت حکم دے تو ان کا ٹرائل فوری شروع ہو سکتا ہے، انہیں اسی قانون کے تحت تحویل میں رکھا گیا ہے کیونکہ وہاں پر جنگ کی صورتحال ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم کیوں حکم دیں، آپ خود کارروائی کریں، جس قانون کے تحت انہیں تحویل میں رکھا گیا ہے اس کی آئینی حیثیت ہی چیلنج ہو چکی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس قانون کے تحت 700 افراد حراست میں ہیں، عدالت ان سب کا ازخود نوٹس لے کر اس قانون کا فیصلہ کرے۔ اگر عدالت ان کی رہائی کا حکم جاری کرے تو عمل کرینگے جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ ہم پر چھوڑنے کی بجائے خود کوئی راستہ نکال کر آ جاتے۔ اگر ہم نے درخواست منظور کر کے رہائی کا حکم دیا تو اس کے دوررس اثرات مرتب ہونگے۔ انہوں نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ اس پہلو پر غور کرنے کے بعد ہی کوئی موقف اختیار کریں۔ اٹارجی جنرل نے بتایا کہ زیرحراست قیدیوں کے خلاف ثبوت مل گئے ہیں، ایک ماہ کا وقت دیا جائے تاکہ ان کے خلاف کیسز کو آگے بڑھایا جا سکے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے ان قیدیوں کو پندرہ ماہ تک کس قانون کے تحت قید میں رکھا ہے؟ آج کے دن تک آپ کے پاس ان افراد کو حراست میں رکھنے کی کوئی اتھارٹی نہیں تھی۔ ایجنسیاں غیرقانونی طور پر کسی کو حراست میں رکھنے پر جوابدہ ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئی ایس آئی نے لکھ کر دیا ہے کہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں جس پر سیکرٹری فاٹا ناصر جمال نے کہا کہ قیدیوں سے ناجائز اسلحہ اور دستی بم برآمد ہوئے ہیں۔ ملزموں کے وکیل طارق اسد نے کہا کہ اگر قیدی ان کی حراست میں ہیں تو اسلحہ کہاں سے آ گیا ہے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں۔ یہ بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ ہے۔ لاپتہ قیدیوں کے کیس میں فیصلہ آیا تو نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ یہ فیصلہ صرف کاغذ کا ٹکڑا نہیں ہو گا، آپ شکر کریں کہ ملک میں جمہوریت ہے اور آپ کی تقرری بھی جمہوری دور میں ہوئی ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت فیصلہ دے اور قیدیوں کو چھوڑ دے، اسے پوری قوم بھگتے گی۔ بعدازاں اٹارنی جنرل نے مقدمے کا جائزہ لینے اور مشاورت کیلئے ایک ہفتے کی مہلت مانگی جس پر سماعت 28 جنوری تک ملتوی کر دی گئی۔