اتوار ،24 ربیع الاول 1443ھ31 اکتوبر 2021ء
سری نگر سے شارجہ جانے والے بھارتی طیارے نے پاکستانی حدود استعمال کی :سول ایوی ایشن
کیوں کی۔ کس کے کہنا پر کی۔ بھارتی طیارے کو یہ اجازت کیوںدی گئی۔ کیا حکمران بھول رہے ہیں کہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ دہلی، ممبئی، کولکتہ نہیں جہاں سے اڑان بھرنے والے طیارے عالمی قوانین کے مطابق پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرتے ہیں۔ اب سول ایوی ایشن کی تصدیق کے بعد عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیںکہ سری نگر سے اڑانے والے اس طیارہ کو ایسا کرنے کیوں دیا گیا۔ اس طرح تو کیا یہ سمجھا جائے کہ سری نگر ایئرپورٹ کو بھی بھارتی ہوائی اڈہ تسلیم کرلیا گیا ہے۔ مقبوضہ جموں کشمیر کو بھی 2019 کے جبری ادغام کے بعد بھارتی علاقہ تسلیم کرلیا گیا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اس طیارے کو پاکستانی حدود میں گھستے ہی نیچے کیوں نہیں اتارا گیا یا واپس جانے کا الٹی میٹم کیوں نہیں دیا گیا؟ اس بھارتی ایئر بس میں 320 مسافر سوار تھے۔ اب اجازت دینے والے کہہ رہے ہیں کہ بھارت کی درخواست پر اسے گزرنے کی اجازت دی گئی۔ یہ عذر گناہ بدتر از گناہ والی بات ہے۔ اب اس کا مطلب صاف یہی نکلتا ہے کہ سری نگر سے اڑان بھرنے والے طیارے اب پنڈی، لاہور، ملتان، کراچی سے اڑتے پھرتے دبئی، شارجہ، ریاض بھی جایا کریں گے اور ہم انہیں دیکھ دیکھ کر شرمندہ ہوتے رہیں گے۔ ہم کشمیریوں کو اس کا کیا جواب دیں گے۔کیا بھارت نے کبھی کسی پاکستانی طیارے کو سری نگر اور جموں سے پرواز کی اجازت دی ہے یا وہ کبھی دے گا۔
٭٭٭٭٭
نومنتخب وزیراعلیٰ بلوچستان کو بلڈپریشر کی شکایت
ابھی تو قدوس بزنجو نے اقتدار کے ایوان میں صرف قدم ہی رکھا تھا کہ ان کا فشار خون بلند ہوگیا۔ ابھی تو موصوف جوان ہیں ، گرمی جذبات اور گرمی گفتار سے اگر ابھی سے فشار خون بلند ہونے لگا تو آگے چل کر مشکل پیش آسکتی ہے اس لئے انہیں دل اور دماغ کو ٹھنڈا رکھنا ہوگا۔ آگے اپوزیشن ہی سے نہیں خود ان کو اپنے دوست احباب سے بھی کافی کچھ سننا اور سہناپڑے گا۔ سب کو راضی خوشی ساتھ رکھنا پڑے گا۔ ان حالات میں تو بقول جوش
’’اس تہلکہ میں چاہئے فوق البشر کا دل‘‘
اس لئے وہ اپنے ڈاکٹروں سے مشورہ کرکے سکون و اطمینان کی راہ پر چلیں۔ مخالفتیں ہوتی رہتی ہیں، اقتدار آتا جاتا ہے، بس ایک کام کریں پھر دیکھیں آپ کا دل دماغ حتیٰ کہ روح تک کیسے سرشار رہتی ہے اور مطمئن ہوتی ہے۔ وہ کام ہے بلوچستان کے پسماندہ، غربت ، بیروزگاری کے مارے درماندگی اور مفلوک الحال کا شکار مظلوم لوگوں کی مدد کریں۔ ان کی پرمژدہ زندگی میں خوشیوں کے رنگ بھر دیں، انہیں احساس دلائیں کہ اب آنے والا ان کا اپنا فرزند ہے۔ بلوچستان کا ہی بیٹا ہے پھر دیکھیں لوگ کس طرح انہیں ان کے والد کی طرح عزت کی نگاہ سے دیکھیں گے، پیار دیں گے، وہ خود کو بلوچستان کا وزیراعلیٰ نہیں خادم اعلیٰ بن کر دکھائیںاور امر ہوجائیں۔
٭٭٭٭٭
افغان کرکٹ ٹیم اور شائقین نے پرانا قومی پرچم لہرایا
اب معلوم نہیں افغان حکومت اس بارے میں کیا موقف اختیار کرتی ہے۔ طالبان کے نئے قومی پرچم کو ابھی تک افغانستان میں وہ مقبولیت حاصل نہیں ہوئی جو قومی پرچم کی ہوتی ہے۔ افغان عوام ابھی تک اپنے پرانے قومی پرچم کو ہی سینے سے لگائے اسے اپنی شناخت قرار دے رہے ہیں۔ یہی کچھ دبئی اور شارجہ میں دیکھنے میں آیا ہے جہاں افغان کرکٹ کے شائقین اپنی قومی ٹیم کے ہر میچ میں افغانستان کا سابقہ قومی پرچم ہی اٹھائے نظر آئے۔ ایک پرچم بھی نیا نہیں تھا‘ صرف یہی نہیں جب میچ سے قبل افغان کھلاڑی اپنا قومی ترانہ پڑھ رہے تھے تو ان کے سامنے بھی یہی پرچم تھا۔ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے زبردست بحث چل رہی ہے کہ کیا نئی حکومت نے ترانہ بھی بدل دیا ہے یا وہی رہے گا۔ اب افغان کرکٹ ٹیم کا کیا بنے گا ‘کہیں انہیں افغانستان واپس جاکر نئی حکومت کی طرف سے سخت سزا اور کرکٹ پر پابندی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ حالانکہ افغان کرکٹ ٹیم میں جان ہے‘ وہ اچھا کھیل سکتی ہے۔ اگر حکومت ان کی سپورٹ کرے تو عالمی کرکٹ میں افغان کرکٹ ٹیم بھی نام کما سکتی ہے۔ فی الحال تو دیکھتے ہیں کہ افغان کرکٹروں کا واپسی پر پھولوں سے استقبال ہوتا ہے‘ یا پتھر ہاتھ میں لئے لوگ ان پر سنگباری کرتے ہیں ۔فی الحال تو
ایک پتھر جو دست یار میں ہے
پھول بننے کے انتظار میں ہے
ٹی ٹوئنٹی کا یہ میلہ جاری ہے ،اس کے بعد دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔
٭٭٭٭٭
جب سے شادی ہوئی مریم کو وزیراعظم دیکھ رہا ہوں: کیپٹن (ر) صفدر
یہ کون سی نئی بات ہے یا نیا خواب ہے۔ ہر شادی شدہ شریف آدمی شادی کے ساتھ ہی بیگم کو اپنے گھر اور دل کی وزیراعظم کے طور پر ہی دیکھتا ہے۔ ہر گھر میں شوہر کی حیثیت بطور صدر اور بیگم کی وزیراعظم کی ہی ہوتی ہے۔ جو لوگ اس ذریں فارمولے پر عمل نہیں کرتے اور ڈکٹیٹر بننے کی کوشش کرتے ہیں‘ ان کے گھروں میں آئے روز تختہ الٹنے کی وارداتیں ہوتی ہیں ۔جو کبھی ناکام سازش اور کبھی کامیاب بغاوت بن کر سامنے آتی ہے۔ ہم کس کھیت کی مولی، مغل بادشاہ جہانگیر جیسا شہنشاہ تک بڑے فخر سے یہ کہتا تھا کہ ’’میں نے ایک پیالہ شراب اور ایک پائو بھر گوشت (ہم ایک کلو بھی کہہ سکتے ہیں) کے عوض سلطنت ملکہ نورجہاں کے سپرد کردی ہے۔‘‘اسے یہ کہتے ہوئے کوئی عار نہیں تو مریم نواز کے شوہر صفدر کو یہ اعتراف کرتے ہوئے لاج کیوں آئے۔ ہاں البتہ فرق یہ ہے کہ انہوں نے یہ بیان سیاسی انداز میں دیا ہے کہ وہ تو شادی سے ہی مریم کو وزیراعظم دیکھ رہے ہیں‘ بننے یا نہ بننے کی بات انہوں نے نہیں کی کیونکہ شاید وہ جانتے ہیں کہ وزیراعظم بننے کی راہ میں جو مصائب جھیلنا پڑتے ہیں ان کیلئے بینظیر بھٹو جیسا حوصلہ، صبر اور برداشت چاہئے جو شاید ان کی بیگم میں موجود نہیں اس لئے فی الحال وہ خواب و خیال میں ہی مریم کو وزیراعظم دیکھ رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭