چیئرمین قومی احتساب بیورو ( نیب) جسٹس (ر)جاوید اقبال نے کہا ہے کہ اگر احتساب کرنا ہے تو یہ بلاامتیاز ہو گا ۔ مجھے نیب افسران سے زیادہ نیب کے مستقبل اور نیب سے زیادہ پاکستان کے مستقبل عزیز ہے اور یہی ہماری پالیسی ہے جس کا میں نے کئی مرتبہ ذکر کیا ہے کہ نیب کاہر اہلکار چپڑاسی لے کر چیئرمین تک اس کی کوئی جماعتی وابستگی نہیں ، اس کا کسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں اور اگر اس کا کوئی تعلق ہے تو وہ صرف اور صرف پاکستان کے ساتھ ہے، حکومتیں آتی ہیں اور جاتی ہیں۔ ہمارا کام کسی حکومت کو عدم استحکام کا شکار کرنا نہیں ہے، لیکن ہمارا کام یہ بھی نہیں ہے کہ جہاں ملک کا مفاد سامنے آئے تو ہم کسی اور کے مفاد کو ترجیح دیں، ہم نے اگر ترجیح دینی ہے تو صرف اور صرف پاکستان کے ساتھ وابستگی ، پاکستان کے مفادات کو دیکھنا اور ریاست کے مفادات کو دیکھنا کیونکہ حکومت اور ریاست میں فرق ہے، ریاست اور حکومت الک الگ چیزیں ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو پاکستان تاقیامت دنیا کے نقشہ پر موجود رہے گا۔ سفارش بالکل قابل قبول نہیں ، ماضی میں جن لوگوں کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا تھا وہ آج یا نیب کی حوالات میں ہیں یا جیلوں میں ہیں یا مختلف عدالتوں میں کھڑے اپنی ضمانت کی درخواستوں کی پیروی کر رہے ہیں۔میں نے تمام ڈی جیز کو ہدایت کی ہے اگر آپ پر کوئی دبائو ہو یا دھمکی ہو تو آپ کہیں ہمیں چیئرمین نیب کی ہدایت ہے، ہر سفارش اور ہر اپروچ نیب کے گیٹ کے باہر ختم ہو جانی چاہئے۔ کسی دبائو میں آنے کی ضرورت نہیں اور کسی سفارش کو قبول کرنے کی ضرورت نہیں، آپ نے صرف قانون کے مطابق کام کرنا ہے۔ان خیالات کا اظہار چیئرمین نیب جسٹس (ر)جاوید اقبال نے سکھر میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ا نہوں نے کہا کہ ماضی بھول جانے کے لئے نہیں ہوتا بلکہ ماضی اس لئے ہوتا ہے کہ ماضی میں جو غلطیاں ہوئی ہیں وہ حال میں سرزد نہ ہوں اور ان کو دوبارہ نہ دہرائیں، نیب نے گزشتہ دوسالوں میں تقریباً600سے زائد ریفرنسز دائر کئے جاچکے ہیںجبکہ اس وقت تک جو کل ریفرنسز دائر ہو چکے ہیں ان کی تعداد 1235ہے اور اس میں 900ارب روپے کی رقم ملوث ہے۔ ہم پوری طرح کوشاں ہیں کہ جلد ازجلد ان مقدمات کا فیصلہ ہو اور 900ارب روپے کی خطیر رقم قومی خزانہ میں جمع کروائی جائے اور یہ رقم جمع کروانا اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس وقت ہماری مالی حالت بہت زیادہ خوبصورت اور بہتر نہیں ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ بنیادی بات یہ ہے کہ میں نے ڈی جی نیب سے کہا کہ میں نیب کے تفتیشی افسروں اور دیگر افسران سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ جن مقدمات کو ڈیل کرتے ہیں وہ وائٹ کالر کرائم ہے اور یہ جرم 100فیصد دستاویزی ثبوتوں پر منحصر ہے، آپ کا کام ان ثبوتوں کو ترتیب وار اکٹھا کر نا ہے اور اس کے بعد مناسب طریقہ سے عدالت میں جمع کروا دیتے ہیں اور تقریباً90فیصد کیس حتمی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ جسٹس (ر)جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ یہ بڑے شدومد سے کہا جاتا ہے کہ نیب مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچا ہی نہیں رہی، نیب کا منطقی انجام اس وقت ختم ہو جاتا ہے جب ایک شکایت انکوائری، تحقیقات میں اور تحقیقات ریفرنس میں اور ریفرنس عدالت میں دائر ہوجاتا ہے ۔ نیب کی جانب سے کیس کو عدالت میں دائر کرنے کے بعد یہ کیس کا منطقی انجام ہے، قانون میں تو یہ ہے کہ ان کیسوں کا فیصلہ 30 دن میں ہونا چاہئے ، میں تقریباً 35سال تک ڈسٹرکٹ اینڈسیشن جج سے لے کر قائمقام چیف جسٹس آف پاکستان تک رہا ، جج صاحبان کی تعداد بہت کم ہے اور ہر دور میں اربا ب اختیار سے یہ گذارش کی جاتی رہی ہے کہ ججز کی تعداد میں اضافہ کریں اور میں پھر متعلقہ اصحاب اور ارباب اقتدار سے عرض کروں گا کہ ججز کی تعداد میں اضافہ کریں یہ اضافہ ہوگا تو ان ریفرنسز کا فیصلہ ہو گا اور فیصلہ ہو گا تو یہ 900 ارب روپے کی رقم برآمد ہو گی اور اس کے بعد حکومت کے خزانہ میں جمع کروائی جائے گی،میں اس لزام کی شدومد سے تردید کرتا ہوں کہ نیب کی جانب سے کسی قسم کا تساہل ہے، ریفرنس دائر ہو جانے کے بعد نیب کا کوئی کردار باقی نہیں رہتا، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نیب تو مقدمات کو بہت زیادہ لمبا کھینچتی ہے ، اس میں بہت زیادہ عرصہ لگ جاتا ہے ، نیب کا تو کوئی احتساب کرنے والا نہیں ، نیب کا احتساب تو پہلے دن سے شروع ہوجاتا ہے جب ہم کسی کو گرفتارکرتے ہیں،تمام نیب بشمول میرے ہمارے پاس کسی کو 24گھنٹے سے زیادہ زیر حراست رکھنے کا اختیار نہیں ، ہم کیس کو گرفتار کرتے ہیں تو 24گھنٹوں کے اندر ریمانڈ کے لئے عدالت میں پیش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالتیں مکمل سکروٹنی کے بعد اور یہ دیکھنے کے بعد بادی النظر میں کیس بن رہا ہے کہ نہیں پھر ریمانڈ دیتی ہیں۔ اس کے بعد ہائی کورٹس موجود ہیں اور سپریم کورٹ موجود ہے اور قدم، قدم پر نیب کا احتساب ہے لہذا یہ کہنا کہ نیب بے لگام ہو گیا ہے اور نیب کا احتساب نہیں ہو رہا یہ باالکل ایک منفی تاثر ہے اور اس کو میں رد کرتا ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ بطور چیئرمین میں ہر بات برداشت کرسکتا ہوں لیکن تساہل اور بددیانتی برداشت نہیں کروں گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے چندتفتیشی افسران ایسے ہیں جن کو تفتیش کی اے بی سی کا پتہ نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کسی چیز کا نہ جاننا یا علم نہ ہونا یہ بری بات نہیں ہے لیکن اپنے آپ کو درست نہ کرنا اور سیکھنا نہ ، پھر کتابیں نہ پڑھنا ، پھر ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کو نہ دیکھنا اورعدالت کے سامنے بلینک حالت میں پیش ہو جانا اور تفتیش اس انداز سے کرنا کہ یا تو جان بوچھ کر اس میں خامیاں چھوڑ دی جائیں اور تساہل کرنا کہ جو اہم ترین چیزیں رپورٹ میں شامل ہونی چاہیں وہ شامل نہیں ہوتیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تفتیشی افسر کے بعد کیس آفیسر آتے ہیں، ڈیسک آفیسر آتے ہیں اس کے بعد متعلقہ ڈائریکٹر آتے ہیں اور میں ایکشن ڈائریکٹر صاحبان سے شروع کروں گا۔ ان کا کہنا تھا کہ تساہل اور بددیانتی بالکل قابل قبول نہیں ہے۔ جن لوگوں کے مقدمات آپ کے پاس ہیں ان سے کم از کم ملیں بلکہ ان سے ملنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا سکھر ریجن سے بددیانتی کی چند شکایات موجود ہیں جن پر میں پہلے خود تحقیقات کر رہاہوں اور اگر میں مطمعن ہوا کہ اس پر کیس بن رہا ہے تو پھر میں مکمل انکوائری اور قانون کے مطابق جو بھی ہو گا میں کروں گا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک مجھے رہنے دیا گیا ، جب تک میں کام کر رہا ہوں ، نیب میں ہوں بددیانتی کے ساتھ کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ سفارش با لکل قابل قبول نہیں ہے، ماضی میں جن لوگوں کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا تھا وہ آج یا نیب کی حوالات میں ہیں یا جیلوں میں ہیں یا مختلف عدالتوں میں کھڑے اپنی ضمانت کی درخواستوں کی پیروی کر رہے ہیں۔ آج سے پہلے یہ کب ہوا تھا مجھے کوئی ایسا کیس بتا دیں جس میں وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ ملوث ہوں، سابقہ کئی وزاء اعلیٰ نیب کے کیسز کا سامنا کررہے ہیں۔ میں اپنے دو سالوں کا ذمہ دار ہوں ، میں نے کبھی کسی کے چہرے کو نہیں دیکھا اور میں نے دیکھا تو صرف کیس کو دیکھا اور اگر بادی النظر میں کیس بنتا ہے تو کسی قسم کے ڈر، خوف، دبائو، دھمکی، کسی قسم کے کمپرومائز یا کسی قسم کا لالچ ان ساری چیزوں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی کے پیچھے اگر ہمالیہ بھی کھڑا ہے تو میرے لئے اس کی کوئی پرواہ نہیں اور اگر کیس بنا تو کیس چلے گا بھی اور اس کا ختتام بھی ہو گا اور ایسے لوگوں کو جو نیب کے نام پر دھبہ ہیں میں اس بات کی اجازت نہیں دوں گا کہ وہ نیب میں اپنا کام جاری رکھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ چند تفتیشی افسروں میں انٹیلیکچوئل بددیانتی کا عنصر بھی شامل ہو چکا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے دائیں طرف جانا ہے تو آپ بائیں طرف جارہے ہیں اور آپ راستہ اس طریقہ سے نکالتے ہیں کہ عام آدمی کو پتہ ہی نہ چلے کہ آپ نے بددیانتی کہاں کی ہے، یہ سلسلہ بھی قابل قبول نہیں ہو گا۔ جسٹس (ر)جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ تفتیشی افسران کی رپورٹ پر ریفرنس کا بھی دارومدار ہے اور سزا کا بھی دارومدار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں سزا کی شرح خاصہ بہتر تھا اور اب میں نے محسوس کیا ہے ہماری سزاکی شرح کچھ کم ہو گئی ہے اس میں کچھ ٹیکنیکل جسٹس بھی شامل ہے تاہم اس میں ہماری کچھ نااہلی بھی شامل ہے اور اپنی نااہلی کا اعتراف کرنا کہ ہاں ہم پوری محنت نہیں کرسکے اس کو تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس شکائت کا فوری طور پر ازالہ ہونا چاہیئے کہ نیب کے دفتر میں کسی سائل کو کوئی تکلیف نہیں ہونی چاہیئے۔ ان کا کہنا تھا کہ تھانہ کلچر کا کوئی جواز نیب کے آئی او کے دفتر نہیں ہونا چاہیئے۔ غیر ضروری سکتی، تھانہ کلچر، بدتمیزی، گالی گلوچ ، ماردھاڑ یہ مجھے بالکل پسند نہیں ہے اور ہم نے ہتھکڑی کا کلچر ختم کیا ہے ہتھکڑی لگانے کی کسی کوضرورت نہیں ہے، اگر آپ لوگوں کی عزت نفس کا خیال رکھیں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کی عزت میں اضافہ کرے گا۔میں آئی اوز سے گزارش کروں گا کہ وہ لوگوں کے ساتھ اپنے رویہ کو بہتر بنائیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024