جمعرات‘ 2‘ ربیع الاوّل1441ھ ‘ 31 ؍ اکتوبر 2019 ء
لاہور دنیا کا دوسرا آلودہ ترین شہر، دہلی پہلے نمبر پر رہا ۔
افسوس ہم ایک بار پھر عالمی نمبر ون بننے کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے۔ ہمارا ازلی دشمن بھارت ہمیں چکمہ دے کر یا مات دے کر یہ اعزاز ہم سے چھین لے گیا۔ اس سے بھی بڑھ کر حیرت کی بات تو یہ ہے کہ لاہور کو گندگی میں اتنا اعلیٰ مقام کیسے حاصل ہو گیا۔ ابھی سال ڈیڑھ سال پہلے تو لوگ لاہور کی صفائی کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے۔ یہ ایک سال میں کیسا انقلاب آ گیا۔ نہ لاہور میں شمشان گھاٹ ہیں نہ یہاں گائے بھینس اور دیگر مردار جانور نئی دہلی کی طرح سڑکوں پر گندگی پھیلاتے ہیں جو آلودگی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ نہ اتنے کارخانے ہیں جتنے دہلی کے اردگرد ہیں۔ پھر بھی ’’یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا‘‘۔ ہمیں تو اس رپورٹ پر شک ہوتا مگر جب ہم لاہور میں اندھا دھند غلیظ دھواں اگلتی ٹرانسپورٹ۔ ہزاروں چھوٹے بڑے گلی محلوں میں قائم کارخانوں فیکٹریوں کو دیکھتے ہیں جو ماحولیاتی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہی ہوتی ہیں۔ چمڑے، پلاسٹک اور ربڑ کو یا کچرے کو کھلے عام جلانے کے مناظر سے ہمارا پالا پڑتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ آلودگی میں ہم دوسرے نمبر پر کیوں ہیں۔ سبزے سے ہمیں چڑ ہے۔ درخت ہم نے کاٹ ڈالے ہیں۔ پارکوں اور گرین لائن پر ہم قبضہ کر کے تازہ ہوا کے حصول کے تمام ذرائع ختم کر دیتے ہیں تو پھر آلودگی تو پھیلے گی۔ بیماریاں تو ڈیرے جمانے میں کامیاب رہیں گی۔ دنیا بھر میں ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کی بھرپور کوشش ہو رہی ہے اور ایک ہم ہیں کہ ہر کوشش ناکام بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔
٭٭٭٭
ملک بھر میں بجلی چوری کی روک تھام کی مہم تیز۔ 6 ہزار افراد گرفتار ۔
خدا کرے یہ مہم کامیاب و کامران رہے۔ ورنہ اس سے قبل بھی ایسی کئی مہمیں بجلی چوروں، گیس چوروں اور ٹیکس چوروں کے خلاف چلیں مگر ان کا انجام کیا ہوا اس کا پتہ خود مہم چلانے والوں کو بھی نہیں۔ اب جس ارسطو ر ثانی نے یہ مہم چلانے کا شوشہ چھوڑا ہے۔ اس کی ذہانت پر تو کسی قسم کے شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہتی۔ سردی کے موسم میں بجلی کا استعمال ویسے ہی کم ہوتا ہے۔ بجلی چور شرفا اس موسم میں زیاد ہ تردد نہیں کرتے پورا بل جمع کرا دیتے۔ اصل مزہ تو تب آتا جب گرمیوں میں یہ مہم چلتی اور گھروں میں چارچار اے سی چلانے والے اس کی زد میں آتے جنہیں خود لیسکو جنہیں بعض لوگ ابھی تک واپڈا والے ہی کہتے ہیں کی ملی بھگت سے دن رات اے سی چلنے کے باوجود 4 تا 5 ہزار بل آتا ہے پر ہاتھ ڈالا جاتا۔ موسم گرما میں غریب ایک یا دو پنکھے چلانے والا تو 3 ہزار بل ملنے پر جب 4 اے سی والوں کا 5 ہزار کا بل دیکھتا ہے تو صرف بددعائیں دے کر دل ٹھنڈا کرتا ہے۔ اب بھی اگر یہ مہم ایمانداری سے چلتی ہے تو پھر بڑے بڑے لاکھوں کے ڈیفالٹرز کو پہلے زیر دام لائیں جو ملکی خزانے اور محکمہ بجلی کو لوٹ رہے ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی ان کی مدد کرنے والے محکمہ کے ملازمین کی بھی گردنیں ناپیں۔ یہ بے چارے ہزار یا پندرہ سو والوں پر ہی سارا زور نہ لگائیں۔ ان سے کیا نکلنا ہے۔ بڑے بڑے عادی ، بجلی چور صارفین کے گھروں، فیکٹریوں پر دکانوں پر چھاپے مار یں کسی سے رعایت نہ کریں تو مزہ آئے گا۔
٭٭٭٭
اسلام آباد آزادی مارچ کے متصل مارکیٹ میں آتشزدگی۔ 350 سٹالز خاکستر ۔
گرچہ یہ حادثہ اتفاقی ہے۔ ایسی مارکیٹوں میں جو خورد رو پودوں کی طرح جا بجا خالی پلاٹوں میں اُگ آتی ہیں ۔ حفاظتی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے آگ لگے تو سینکڑوں سٹالز چشم زدن میں خاکستر ہو جاتے ہیں۔ مگر بات یہ ہے کہ یہاں سے متصل گرائونڈ میں آج مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ آ کر قیام پذیر ہو گا۔ اب ایسا واقعہ اتفاقی ہی کیوں نہ ہو۔ لوگ تو باتیں کریں گے۔ کہتے ہیں کھڑکیاں دروازے بند ہو سکتے ہیں مگر زبانیں بند نہیں ہو سکتیں۔ ویسے بھی ہماری سیاسی تاریخ میں اپوزیشن کے جلسہ گاہ میں پانی چھوڑ دینا۔ بجلی کا کرنٹ دوڑا دینا۔سانپ چھوڑنا کوئی زیادہ پرانی بات نہیں۔ اب لوگوں کا کیا ’’زبان خلق تو کہنے کو فسانے مانگے‘‘ سو اس پر بھی لوگ طرح طرح کی باتیں بنائیں گے۔ ویسے یہ بھی ہو سکتا ہے یہ کسی کی شرارت بھی ہو تاکہ لوگوں میں اشتعال پھیلے یا خوف و ہراس پیدا ہو۔ ابھی تک تو یہ مارچ پرامن انداز میں اسلام آباد تک آیا ہے۔ یہاں بھی پرامن حالات ہی رہیں تو لوگ شکر ادا کریں گے۔ کیونکہ ابھی تک مارچ میں کسی نے سابقہ مارچوں کی طرح کفن ساتھ لانے قبریں کھدوانے کی باتیں نہیں کی ہیں۔ رہی بات تختہ الٹنے کی تو وہ سیاسی مخالف اپنی تقریر میں آئے روز حکومت کا تختہ الٹنے کی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ اس پر لوگ زیادہ توجہ نہیں دیتے۔
٭٭٭٭
تھر میں بیٹے کی میت گھر لے جانے کے لیے ماں بھیک مانگنے پر مجبور ۔
یہ سانحہ چشم عالم نے اس سرزمین پر دیکھا جسے صوفیا کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ جہاں شاہ لطیف اور سچل سرمست کا کلام روحوں کو گرماتا ہے جو ساری زندگی اونچ نیچ امارت اور غربت کے بندھنوں ، انسانوں کی غلامی اور معاشی عدم مساوات کیخلاف لوگوں کا ضمیر جگاتے رہے مگر افسوس اسی سرزمین پر کبھی کتے کے کاٹنے کی ویکسین نہ ہونے پر بچہ ماں کی گود میں تڑپ تڑپ کر جان دیتا ہے۔ کبھی ایمبولنس نہ ہونے پر ورثا موٹر سائیکل پر نعش لے جاتے ہیں اور اب ایک غریب دکھیاری ماں اپنے بچے کی نعش مٹھی کے ہسپتال سے گھر لے جانے کے لیے بھیک مانگ رہی ہے کیونکہ ہسپتال کے ایم ایس نے یہ کہہ کرکہ تیل نہیں‘ ایمبولینس دینے سے انکار کر دیاتھا۔ اب معلوم نہیں اس دردناک واقعہ کا ہمارے حکمرانوں پر کیا اثر ہوتا ہے۔ …؎
آپ کہتے ہیں تو زنجیر ہلا دیتے ہیں
ورنہ شاہوں سے کسی عدل کی امید نہیں
صرف سندھ ہی نہیں ملک کے باقی دور دراز علاقوں میں بھی ایسے کئی واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جو میڈیا پر بھی آتے ہیں۔ کہیں سے کوئی داد رسی کی صدا سنائی نہیں دیتی۔ معلوم نہیں ہمارے حکمران اور سرکاری افسران اتنے سنگدل کیوں ہو گئے ہیں۔ دولت مندوں میں بڑے دل والے کیوں ختم ہو گئے ہیں اور ایک ماں کو بھیک کیوں مانگنا پڑی ہے۔ اس کا جواب ہے کسی صاحب دل کے پاس؟ جو صاحب اولاد بھی ہو۔
٭٭٭٭٭