2014ء دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کا بدقسمت سال تھا۔ دنیا بھر کے دہشت گرد شمالی وزیرستان کو مضبوط قلعہ بنا چکے تھے۔ وہاں پر اسلحہ اور خودکش جیکٹ بنانے کی فیکٹریاں تعمیر کر رکھی تھیں اور دہشت گردوں کو عسکری تربیت دی جاتی تھی۔ دہشت گرد پاکستان کے حساس مقامات کو نشانہ بنانے لگے تھے۔ ایٹمی ریاست ایک اعتبار سے دہشت گردوں کی یرغمال بن چکی تھی۔ پاکستان کے عوام شدید خوف و ہراس میں مبتلا تھے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات میں مصروف تھی اور دہشت گردوں کے خلاف عسکری کارروائی کرنے سے خوفزدہ تھی۔ پاک فوج نے جنرل راحیل شریف کی قیادت میں جون 2014ء میں آپریشن ضرب عضب کے نام سے شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کاآغاز کیا۔ اس آپریشن کے دوران فضائیہ کے بمبار طیاروں کو استعمال کیا گیا۔ آپریشن ضرب عضب کامیاب ہوا۔ دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کر دیا گیا۔ دہشت گرد شمالی وزیرستان سے فرار ہو گئے۔ پاک فوج نے جمہوری سویلین حکومت کے وقار کیلئے اعلان کیا کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن حکومت کی منظوری سے کیا گیا۔ آپریشن ضرب عضب کے دوران لاکھوں قبائلی عوام بے گھر ہوئے۔ ان کو المناک مصائب کا سامنا کرنا پڑا مگر وہ پاکستان کے ساتھ کھڑے رہے اور ملک دشمن عناصرکے آلہ کار نہ بنے۔ جنرل راحیل شریف کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ نے نہ صرف آپریشن ضرب عضب کو مکمل کیا بلکہ پورے پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خاتمے کیلئے آپریشن ردالفساد کا آغاز کیا۔
پاک فوج‘ پولیس‘ خفیہ ایجنسیوں اور عوام نے بے مثال قربانیاں دیکر انسانوں کو قتل کرنے والے دہشت گردوں پر قابو پا لیا ہے۔ ریاست کا دوسرا بڑا مسئلہ معاشی دہشت گردی کا ہے۔ پاکستان کے بااثر افراد قومی دولت لوٹ کر ملک سے باہر لے جاتے ہیں۔ ریاست معاشی عدم استحکام کا شکار ہونے لگتی ہے جسے دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے عالمی مالیاتی اداروں سے ان کو کڑی شرائط پر قرضے لینے پڑتے ہیں۔ معاشی دہشت گردوں کی منی لانڈرنگ سے پاکستان کے عوام متاثر ہوتے ہیں جن کو ٹیکسوں کا بھاری بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے اور مہنگائی کی وجہ سے ان کی زندگیاں اذیتناک ہو جاتی ہیں۔ پاکستان کے مقتدر ریاستی ادارے اور پاکستان دوست عوام اتفاق رائے کر چکے ہیں کہ معاشی دہشت گردوں سے لوٹی ہوئی دولت واپس لئے بغیر اور انہیں عبرتناک مثال بنائے بغیر پاکستان اپنے پائوں پر کھڑا نہیں ہو سکتا۔ احتساب کا ادارہ نیب گزشتہ دو تین سالوں سے فعال ہو چکا ہے۔ میگا کرپشن میں ملوث قومی لٹیرے اس کی زد میں ہیں جو سیاسی اور پارلیمانی طاقت استعمال کرکے احتساب سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کی تازہ مثال یہ ہے کہ اومنی گروپ نے شوگر ملوں سے گیارہ ارب روپے کی شوگر غائب کر دی ہے سندھ میں اگر آصف زرداری اقتدار میں نہ ہوتے تو یہ ’’واردات‘‘ ممکن نہ ہوتی۔ جب پنجاب اور وفاق میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی اس کی قیادت احتساب سے بچنے کے لیے سیاسی اور پارلیمانی طاقت استعمال کرتی رہی اور ریاستی اداروں نے نیب اور عدلیہ سے تعاون نہ کیا اب یہی حربہ آصف زرداری سندھ میں استعمال کر رہے ہیں۔ مگر اب پاکستان کا سیاسی منظر نامہ تبدیل ہو چکاہے۔ پاکستان کی باگ ڈور عمران خان کے ہاتھ میں آ چکی ہے۔
پاکستان کے سیاسی سپہ سالار عمران خان نے ’’ضرب کرپشن‘‘ کا اعلان کر دیا ہے توقع ہے کہ پچاس بڑے معاشی دہشت گردوں کو احتساب کے شکنجے میں لایا جائے گا ۔ حکومت کے ترجمان فواد چودھری نے کہا ہے کہ اگر تحریک انصاف کی حکومت احتساب نہیں کر سکتی تو اسے اقتدار میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے اپنی جماعت کے کرپٹ افراد کو بھی ’’احتساب نیٹ‘‘ میں لانے کا فیصلہ کر لیا ہے تاکہ اپوزیشن کو ’’سیاسی انتقام‘‘ کے نعرے کے پیچھے چھپنے کا موقع نہ ملے۔ کرپشن کا زہر اوپر سے نیچے اور دائیں سے بائیں پھیل چکا ہے۔ ریاست کا سیاسی، سماجی اور حکومتی ڈھانچہ شفاف احتساب کے لیے سازگار نہیں ہے۔ قانونی و عدالتی نظام کرپٹ افراد کو احتساب سے بچنے کے راستے فراہم کرتا ہے۔ آصف زرداری گیارہ سال پابند سلاسل رہے ان سے ایک پائی وصول نہ کی جا سکی۔ قومی خزانے کے کروڑوں روپے ان کے مقدمات پر خرچ ہو گئے اور وہ ڈرائی کلین ہو کر ریاست کے صدر بن گئے۔ دوسری مثال یوسف رضا گیلانی کی ہے جو پانچ سال قید رہے۔ ان سے لوٹی ہوئی دولت واپس نہ لی جا سکی اور وہ پاکستان کے وزیراعظم بن گئے۔ احتسابی تاریخ کی روشنی میں ’’ضرب کرپشن‘‘ کی کامیابی کے امکانات بہت کم ہیں۔ عمران خان کے پاس آئین میں ترمیم کے لیے پارلیمانی قوت نہیں ہے وہ خصوصی احتسابی قوانین کا آرڈی ننس جاری کر سکتے ہیں مگر اسے عدالتوں میں چیلنج کر دیا جائے گا۔ معاشی دہشت گرد جانتے ہیں کہ ریاستی قوانین ان کے مخالف نہیں بلکہ معاون ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ احتساب سے خوف زدہ نہیں ہیں۔ اگر چین کی طرح پاکستان میں بھی کرپشن کی سزا موت ہوتی اور ایک درجن بڑے کرپٹ عناصر سولی پر لٹکائے جا چکے ہوتے تو پاکستان میں کرپشن کا لیول تشویشناک نہ ہوتا۔
عمران خان کی نیت نیک ہے، اہلیت ابھی انہوں نے ثابت کرنی ہے۔نامور امریکی مصنف سٹیفن کوہن نے اپنی کتاب میں لکھا کہ پاکستان کی سیاست میں تھری ایز کا عمل دخل بہت زیادہ ہے۔ اللہ، امریکہ اور آرمی۔ عمران خان کوان تینوںمیں سے اللہ کی خوشنودی اور آرمی کا تعاون حاصل ہے جبکہ امریکہ کا پاکستان میں عمل دخل کم ہوا ہے۔ پاکستانی سیاست کے ایک کھلاڑی الطاف حسین مائنس ہو چکے ہیں میاں نواز شریف تاحیات نااہل قرار دئیے جا چکے ہیں جبکہ آصف زرداری ایک بار پھر منی لانڈرنگ کیس میں پھنس چکے ہیں اس لئے عمران خان اپوزیشن کو کمزور سمجھتے ہیں۔ البتہ عمران خان کو شریف اور زرداری باقیات کی مزاحمت کا سامنا ہے جو ہر شعبے، محکمے اور ادارے میں موجود ہیں۔ ان حالات میں ان کا ’’ضرب کرپشن‘‘ نتیجہ خیز کیسے ہو سکے گا۔ کیا وہ لوٹی ہوئی دولت واپس لے سکیں گے اور کرپشن کے لئے سزائے موت کا قانون منظور کرا سکیں گے۔ عمران خان کفایت شعاری، ناجائز اور غیر قانونی قبضوں کا خاتمہ، وزیراعظم سیکرٹریٹ میں شکایات سیل کا قیام قابل ستائش اقدامات ہیں جو ہر حکمران اٹھاتا رہا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت اگر معاشی استحکام کے ساتھ آبادی میں اضافے، پرائمری تعلیم اور مثالی نسل کی تشکیل اور خود مختار و مستحکم مقامی حکومتوں کو اپنی ترجیح بنائے تو اس کے دور حکومت کو تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ جاننے کا حق ذمے دار، شفاف اور جواب دہ حکومت کے لئے بنیادی اہمیت کا حق ہے جس پر پوری توجہ نہیں دی گئی۔ پنجاب انفارمیشن کمشن نے محبوب قادر شاہ کی اہل اور سرگرم قیادت میں حکومتوں کو شفاف اور فعال بنانے کے لئے جدوجہد کا آغاز کیا ہے۔ یہ کمشن عوام کی رہنمائی اور اعانت کرے گا تاکہ وہ آئین اور قوانین کے مطابق جاننے اور معلومات تک رسائی کا حق مؤثر طور پر استعمال کر سکیں۔ محترمہ رمیزہ نظامی کی سرپرستی میں حمید نظامی پریس انسٹی ٹیوٹ کا ادارہ قومی مسائل سے آگاہی کے سلسلے میں حکومتی اداروں سے کہیں زیادہ کام کر رہا ہے اس کے ڈی جی دانشور اور صحافی ابصار عبدالعلی ہیں۔ دونوں تنظیموں نے اشتراک سے ’’معلومات تک رسائی برائے ذمے دار حکومت‘‘ کے موضوع پر ہر لحاظ سے معیاری فکری نشست کا اہتمام کیا جس میں وکلائ، صحافیوں اور ریٹائرڈ سول سرونٹس نے بھاری تعداد میں شرکت کی۔ محبوب قادر شاہ، ابصار عبدالعلی، جسٹس (ر) شیخ احمد فاروق، الماس جوندہ، حسن اقبال، سعید اختر انصاری اور راقم نے اظہار خیال کیا۔ مقررین نے ذمے دار حکمرانی کے لئے جاننے کے حق کو کلیدی اصول قرار دیا اور کہا کہ اگر عوام بیدار ہو جائیں اور اپنا حق استعمال کریں تو گڈ گورننس کا خواب پورا ہو سکتا ہے۔ پنجاب انفارمیشن کمشن کے افسروں نے پختہ عزم کا اظہار کیا کہ کمشن عوام کو باشعور بنانے اور ان کی مشکلات دور کرنے کے لئے معیاری اور مثالی کارکردگی کا مظاہرہ کرے گا۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024