ایک وہ دور تھا جب کپڑے جسمانی اعضاء کو چھپانے کے لئے استعمال ہوتے تھے شاید اس لئے اس عمل کو ستر پوشی کہا جاتا تھا اورآج ایک وہ دور ہے جب کپڑے جسمانی اعضا کی ہیت اور تراش خراش کو مزید واضع کرنے اور جسم کی نمائش کے لیئے پہنے جاتے ہیں۔ یہ بات بھی اْنہی ادوار کی ہے جب گھر کے بڑے بوڑھے اس بات کا بڑا دھیان رکھتے تھے کہ گھر کے افراد کے درمیان ہونے والی چھوٹی موٹی تْوں تکرار محلے کے دوسرے افراد کے کانوں تک نہ پہنچ جائے کیونکہ اس طرح ان کے خیال میں وہ گھرانہ پورے محلے میں بدنام ہو جاتا تھا جسکی کوئی کمزوری دوسرے افراد کے ہاتھ لگ جاتی تھی۔ اْنہی دنوں کی بات ہے پْرانے لاہور کے اندرون شہر میں ایک مخصوص برداری جس سے راقم کا بھی تعلق ہے صرف اس لئے اپنی ایک مخصوص پہچان بنا بیٹھی کہ انکے اہل خانہ اکثر اوقات ایک دوسرے کے خلاف اپنے اختلافات کا اظہار چار دیواری کے اندر کی بجائے باہر کھلے عام طعنوں کی صورت میں کرتے تھے جسکی وجہ سے ایک جنگ کا سماں پیدا ہو جاتا تھا حالانکہ انکے مقابل کئی دوسری برادریاں ایسی تھیں جنکے درمیان طبلِ جنگ کی نوعیت اور شدت اس سے زیادہ ہوتی تھی لیکن وہ گھر کے اندر ہوتی تھی۔ سیانے کہتے ہیں وقت کے ساتھ خیالات اور اطوار بدلتے رہتے ہیں۔ یہ مقولہ آج حقیقت کا روپ دھار گیا لیکن اسکے برعکس راقم آج جب اپنے ملک کی سیاست اور اس میں ملوث سیاسی اداکاروں کے ایکشن اور لب و لہجہ پر غور کرتا ہے تو پھر سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کیا عام شہری کے مقابلے میں ہمارے سیاستدانوں نے واقع ہی وقت سے کچھ نہیں سیکھا۔ یقین جانئیے اس ملک کی سیاست میں نہ کبھی ایسی زبان سْننے کو ملی تھی اور نہ ایسا عمل دیکھنے کو ملا تھا جیسا آج دیکھنے اور سْننے کو مل رہا ہے۔ پاکستان کی اکہتر سالہ تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب یہ نہ کہا گیا ہو کہ ملک اس وقت بہت بڑے سیاسی بحران سے گزر رہا ہے، ملکی معیشت دیوالیہ ہو چکی ہے، سابقہ حکومت خزانہ خالی چھوڑ کر گئی ہے وغیرہ وغیرہ۔
قارئین آپ کی دلچسپی کے لئے راقم یہاں چند اعداد و شمار پیش کرنا چاہے گا جو اس نے انٹر نیٹ سے اْٹھائے ہیں امریکن حکومت کے مجموعی قومی قرضہ جات 21.48 ٹریلین ، چائینہ 5.2 ٹریلین ، برطانیہ 1.78 ٹریلین، انڈیا 1.8 ٹریلین اور پاکستان 79.2 بلین امریکن ڈالر کے لگ بھگ ہیں۔ ان اعداد و شمار کو دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ دنیا کی کوئی معیشت قرضوں کے بغیر نہیں چلتی۔ دیکھنے کی دراصل بات کیا ہے کہ آپ ان قرضہ جات کو خرچ کس طرح کرتے ہیں۔ اقتصادیات کی جانکاری رکھنے والے بخوبی علم رکھتے ہیں کہ جب ان قرضہ جات کو غریب عوام کی اکثریت پر خرچ کیا جاتا ہے تو اس سے معاشی عدم مساوات کم ہوتی ہے اور جب اسے ایک مخصوص مراعاتی طبقے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے سماجی تفریق مزید گہری ہو جاتی ہے۔ ہونا تو اصولی طور پر یہچاہئے کہ مختلف فورموں پر ایسے مذاکرے منعقد ہونے چاہیں جہاں سب لوگوں کو یہ مواقع ملیں کہ وہ آ کر عوام کو بتائیں کہ انکی حکومتوں میں یہ قرضہ جات کن منصوبوں پر خرچ ہوئے اور ان منصوبوں کی عوام کے لئے کیا افادیت تھی اور آنے والے بتائیں کہ مستقبل کے حوالے سے انکے کیا منصوبے ہیں اسطرح جانے والوں کا بہترین احتساب ہو سکتا ہے اور آنے والوں کے لئے قبل از وقت تنبیہ لیکن ہماری بدقسمتی کہ ہم شام سات سے دس بجے تک ہر چینل پر بس ایک دوسرے کے کپڑے اتارنے میں لگے ہوئے ہیں اور دنیا کو یہ تاثر دینے میں لگے ہوئے ہیں کہ ہم سے زیادہ دنیا میں کوئی کرپٹ نہیں۔ ہم چند لوگوں کے کالے کرتوتوں کی سیاہی پوری قوم کے منہ پر ملنے پر تْلے ہوئے ہیں۔۔ کہتے ہیں جنگوں میں اگر سپاہیوں کو کہیں سے یہ شائبہ بھی ہو جائے کہ گولہ بارود ختم ہونے کو ہے تو وہ جیت کے قریب جنگ بھی ہار جاتے ہیں اور جب انہیں یہ ڈھارس ملے کہ ابھی مزید کمک پہنچنے والی ہے تو وہ دست بدستہ لڑائی بھی لڑ کر جیت لیتے ہیں۔ لہٰذا اس تناظر میں موجودہ حکومت سے بھی یہی گزارش کی جا سکتی ہے کہ یہ پھڑ لو پھڑ لو کی بجائے قوم کو اصل مسئلہ بتایا جائے کہ اگلے چھ مہینوں کے لئے اگر وہ اپنے امپورٹ بل کو اگر کنٹرول کر لیتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم مالی دشواری پر قابو نہ پا سکیں۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ قوم کو بتایا جائے کہ اس نے اپنی زندگی کے کن کن شعبوں میں سادگی لانی ہے کس طرح ملکی اشیاء پر انحصار کو بڑھانا ہے اور بیجا تصرف کو کنٹرول کرنا ہے۔ یقین جانئے آج میرے ملک کے اردگرد خاص کر مشرق وسطی کے حوالے سے جو تغیرات وقوع پذیر ہو رہے ہیں اور جو صف بندیاں ہونے جا رہی ہیں انہیں دیکھ کر ایک ایسا پْل صراط نظر آ رہا ہے جسے عبور کرنے کے لئے قیادت کی طرف سے ان فلمی انداز کی بھڑکوں اور الزام تراشیوں کی بجائے بڑی ہی دانشمندی، عقل، تدبر، بردباری، قومی ہم آہنگی اور یکجہتی کی ضرورت شدت سے محسوس ہو رہی ہے کیونکہ اس سے زیادہ نازک وقت شائد ہی ملک پر آیا ہو۔اللہ میرے اور آپ کے وطن کی حفاظت فرمائے۔ آمین
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024