دنیا میں اس وقت سب سے بڑا بحران معاشی‘ عسکری/ جنگی یا توانائی کا بحران نہیں ہے۔ بلکہ اصل بحران قیادت کا بحران ہے۔ دنیا بھر کی قیادتوں کے پروفائل دیکھ لیجئے۔ شاندار لباس‘ خوبصورت جثوں اور رعب داب والی ڈگریوں‘ زبان آوری کے مظاہروں کے پس پردہ کہیں اخلاقی سکینڈل اور کہیں مالی سکینڈل‘ جھوٹ‘ فریب اور دجل کے ہتھیاروں سے لیس ایک دوسرے کو مات دینے پر کمربستہ! اوباما‘ رومنی صدارتی مباحثوں کے آخری ادوار میں‘ دنیا کی قیادت حاصل کرنے کیلئے یہ کانٹے دار مقابلہ کیا عزائم لئے ہوئے ہے؟ منصب کیلئے پانی کی طرح بہایا جانے والا پیسہ‘ سیاسی جوڑ توڑ‘ پس پردہ نادیدہ ہاتھ جو اصلاً اس کرسی پر بیٹھنے والے کا انتخاب کرتے ہیں۔ سب زوروں پر ہے۔ اوباما‘ نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق وہائٹ ہا¶س میں ہر منگل کو دنیا بھر میں قتل کیلئے نامزد گیاںکرتا ہے۔ اہداف قتل طے کئے جاتے ہیں فرعون دوراں کے ہاتھوں‘ ماورائے عدالت قتل‘ ہدفی قتل (ٹارگٹ کلنگ) اور بھتہ مافیا (پوری مسلم دنیا کے وسائل سے غاصبانہ استفادہ) کا سرغنہ گویا وہائٹ ہا¶س میں ہے۔ حکم یہ ہے کہ تمام مارے جانے والے افراد دہشت گرد قرار دئیے جائیں۔ ایک لیبل کافی ہے کسی سے زندگی چھیننے کے لئے! مٹ رومنی‘ صدارتی امیدوار کی حیثیت سے ڈرون حملے جاری رکھنے (یعنی ماورائے عدالت‘ خلاف قانون موت برسائے) کی یقین دہانی کروا رہا ہے۔ امریکی ووٹر یہ اطمینان رکھے کہ مسلمانوں کا خون بہانے میں رومنی اوباما سے کم نہ ہو گا! ڈرون کا استعمال صرف مسلم خطہ ہائے زمین کیلئے ہے۔ پاکستان یمن اور صومالیہ‘ اسرائیلی‘ بھارتی یا برما کے دہشت گردوں کو ڈرون میلی آنکھ سے نہ دیکھے گا جو نہتے شہریوں کو مسلمان ہونے کے جرم میں اندھا دھند تہہ تیغ کرتے ہیں۔ عالمی ضمیر اتنا بے حس کیونکر ہو گیا۔؟ دور دور تک موت کا سناٹا ضمیروں پر طاری ہے۔ یہ ہے اصل بحران ۔ آدمی کو بھی میسر نہیں انسان ہونا! آلات ضمیر .... آنکھ‘ کان اور دل امریکی‘ یورپی میڈیا کے تابع ہو چکے ہیں۔ تھا جونا خوب بتدریج وہی خوب ہوا کہ غلامی میں بدل جاتے ہیں قوموں کے ضمیر! جس جنگ کی دلیل میں اتر کر امریکہ یورپ بدترین معاشی بحران کا شکار ہوا۔ امریکہ ریکارڈ توڑ قرض (160 کھرب ڈالر) میں غرق ہوا۔ ہر امریکی شہری 50 ہزار ڈالر کا مقروض ٹھہرا۔ اس عفریت کے پنجوں سے امریکہ اور دنیا کو آزاد کرنے‘ تباہ حال معیشتوں‘ نہتے خون پر بند باندھنے کی بجائے آنے والا صدر۔۔ دودھ اور شہد کی جگہ خون کی نہریں بہا دینے کے وعدے پر آئے۔؟
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب‘ تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری! اور یہ کہ۔۔ چہرہ روشن اندرون چنگیز سے تاریک تر! اس چہرے سے ایمانی فراست کے نور سے دیکھنے والے اقبالؒ نے جو نقاب الٹے تھے آج وہ حرف بہ حرف درست ثابت ہو رہا ہے۔ پاکستان کو رشک امریکہ بنا دینے کا شوق رکھنے والوں نے بڑے پاپڑ بیلے ۔ تاہم افغانوں نے امریکہ کو رشک پاکستان بنا ڈالا۔ یعنی ہم شروع سے یہ پڑھتے آئے تھے کہ ہمارے بچوں کے بھی بال قرضوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ اب امریکی بچوں کو بھی یہ اعزاز حاصل ہو گیا کہ ان کے بال بھی قرضوں میں جکڑے گئے! رزق اور امن تو جڑواں بھائی ہیں۔ امن ہو گا تو رزق ملے گا۔ بدامنی اور خوف تو بھوک پیاس ختم کر دیتے ہیں سامنے رکھا رزق بے معنی ہو جاتا ہے۔ لیکن کیا ظلم ہے کہ دنیا کی چودھراہٹ ان ہاتھوں میں ہے جن کی قیادتوں کا رزق جنگ اور خوف مسلط کرنے سے وابستہ ہے! یہ ہے اصل بدی کا محور جس سے دنیا بھر کے انسانوں کو نجات دلانے کی ضرورت ہے۔ ان جنگوں نے امریکہ یورپ کے عوام کونفسیاتی مریض بنا ڈالا ہے۔ ان پر خوف طاری کرکے جنگوں کا تسلسل جاری ہے۔ جنگی بجٹ حاصل کرکے انہیں بے روزگاری‘ صنعتوں‘ مالیاتی اداروں کی تباہی اور دائمی احساس عدم تحفظ میں جھونک دیا گیا ہے۔ عالمی قیادتیں اور مغربی میڈیا (اسی کے تابع باقی دنیا کا میڈیا) اس منظر نامے کے ذمہ دار ہیں۔ لوگوں نے اپنے کان‘ آنکھیں اور دل دماغ میڈیا کے ہاتھ گروی رکھے ہوئے ہیں۔ عالمی نشریاتی اداروں کے صدق وصفا کا ایسا ڈھول پیٹا گیا ہے کہ....
لگائی ہے لو جب سے امریکیوں سے
سُنن کی جگہ سی این این دیکھتے ہیں
بلامبالغہ خبروں‘ تجزیوں کی درستگی کا معیار جانچنے کیلئے بی بی سی‘ سی این این‘ رائٹر کا حوالہ کافی ہوتا ہے۔ باوجودیکہ یہی میڈیا عراق پر جھوٹے پروپیگنڈے کے نتیجے میں ایک پورے ملک کی تباہی بربادی اور بہنے والے بے محابا خون کا ذمہ دار تھا۔ امریکی فوج کے انگوٹھے تلے دبے پھنسے صحافی (Embedded Journalist) تھے جو سیاسی پالیسیوں کے تابع خبروں کو مخصوص رنگ دینے پر مجبور تھے۔ فلوجہ پر امریکی ظلم و بربریت کی داستانیں کبھی نہ کھلتیں اگر اِکا دُکا وہ صحافی جن کے ضمیر کو خون کی الٹیاں لگیں اور انہوں نے چوری چھپے موبائل شدہ فلمیں جاری کر دیں۔ یہی حال ابو غریب کا ہوا۔ مظالم‘ بربریت اور سفاکی کی حدیں پار کر گئے تو دو چار کی چیخ و پکار نے حقائق پر سے پردہ اٹھایا۔ جسے 8 سال ڈرون میزائلوں کی برسات کے بعد اقوام متحدہ نے انگڑائی لی کہ جنیوا میں خصوصی یونٹ قائم کیا جائے گا۔ حملے کرنے والے ملک کی جواب دہی ہو گی اور حملے جنگی جرائم میں شامل ہونے چاہئیں یعنی مستقبل بعید اور ہونا چاہئے کہ پیرائے میں اب بھی بات ہو رہی ہے تاکہ دنیا میں کسی ضمیر کی سسکی‘ آہ‘ کراہ جو اب کہیں کہیں سر اٹھا رہی ہے اسے تھپک دیا جائے۔ بین ایمرسن (نمائندہ اقوام متحدہ) نے دنیا میں بین کرتے دکھیاروں کو لالی پاپ دی ہے تاہم بین (Ban) کرنے کے امکانات دور دور کہیں نہیں ہیں۔ دنیا بھر کے انسانوں کو ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ اس ایک فیصد طبقے کے ہاتھ رہن رکھے کان‘ آنکھیں اور دل آزاد کرائیں خواہ وہ سیاسی شعبدہ کار ہوں یا ان کے تابع میڈیا باوجودیکہ عراقی جھوٹ کے بعد بی بی سی کا تازہ ترین ہوش ربا سکینڈل ان کے اخلاقی معیارات پر رواں تبصرہ ہے مگر کیا کیجئے کہ تمام تر میڈیائی سکینڈل کے باوجود۔ سب اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے پر ہی تلے رہتے ہیں! جمی ساول چہرے پر مقبولیت کی آب و تاب سجائے کئی دہائیاں سحر طاری کرنے کے بعد 84 سال کی عمر میں جب مرا تو Spell ٹوٹا اور پھر سڑاندھ بھرے کالے کرتوتوں کا ایک سیلاب امنڈ آیا جو بی بی سی کی بلڈنگ میں پس پردہ جاری رہے۔ اعلیٰ ترین سرکاری اعزازات سے نوازا جانے والا ساول خیراتی ہسپتالوں کے ذہنی مریضوں پر بھی حرص و ہوس آزماتا رہا۔ سینکڑوں واقعات، گھنا¶نی داستانیں ”خبر دیتی تھیں جن کو بجلیاں وہ بے خبر نکلے“ یہ تجاہل عارفانہ بتا رہا ہے کہ بی بی سی اتنی بی بی نہ تھی! مستند تھا جن کا فرمایا ہوا۔ ہمیں تو پہلے ہی ہدایت کی گئی ہے کہ فاسق خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو، لیکن دنیا کا چلن یہ بن چکا ہے کہ تحقیق سے پہلے خبر پھوڑنے اور خبر چھوڑنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے لہٰذا پہلے نشریاتی ادارے ان کے بعد تمام اینکرز‘ ان کے پیچھے سیاستدانوں کی منڈلیاں‘ این جی اوز حتیٰ کہ تعلیمی ادارے ایک دیوانی دوڑ میں سب مبتلا کر دیئے جاتے ہیں۔
حق سچ بے لاگ‘ معروضی ہونے کی دعویدار دنیا عجب ہے کہ جھوٹ کھل جانے پر معذرت کرنا بھی ضروری نہیں جانتی۔ بی بی سی کے اس سکینڈل کے بعد مشتری ہوشیار باش کا نعرہ تو لگانا پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ بار بار قرآن میں جس نعمت کا تذکرہ کرتا ہے اور اس کی جوابدہی کی بنا پر احساس ذمہ داری کی تربیت دیتا ہے وہ یہی آلات ضمیر میں کان آنکھ اور دل۔۔ ان تین کی درستگی پر ضمیر کی صحت قوت کا مدار ہے‘ جس میں قوموں کی زندگی ہے۔ دل بیدار فاروقیؓ دل بیدار کراریؓ!ملالہ کے نقش قدم پر ایک اور صاحب رعایت خان نے اپنی بیٹی حنا خان کے ہمراہ پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ حنا خان نے مالا کنڈ میں طالبان کے خلاف آواز اٹھائی تھی اس لئے اسے طالبان نے دھمکیاں دی ہیں گھر پر لال نشان لگا دیا ہے۔ وزیر داخلہ نے فوراً حکام کو تحفظ فراہم کرنے کا حکم دیا۔
ملالہ پر ظلم کے بعد اب ایک اور بچی کو دھمکی ملنا کیا اُس کے باپ کے این جی او میں نوکری کرنے سے منسلک ہے؟ میڈیا اور عوام دونوں کو اپنے کان اور آنکھیں کھلی رکھنے اور آزادانہ سوچ اپنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024