طیبہ ضیاء چیمہ ...........
بحالی عدلیہ کی جدوجہدکے دوران اعتزاز احسن کی ٹون پرویز مشرف کے خلاف نہایت سخت اور دو ٹوک رہی۔انتخابات ہوئے۔اعتزاز احسن کی پارٹی حکومت میں آگئی اورانہیں منزل ملنے کی قوی امید بندھی لیکن۔۔۔جب اپنا بھی دکھ دے تو بندہ تڑپ اٹھتا ہے کہ You too ? ۔بی بی کا وعدہ وفا نہ ہونے پر کارکنوں کو دھچکا لگا اور اعتزاز کو اپنی حکومت کے خلاف بھی دوٹوک رویہ اختیار کرنا پڑا اسکے باوجود ان پر زرداری کے ساتھ خفیہ معاہدوں اور ملاقاتوں کے الزامات لگتے رہے ۔ انکی جدوجہد کٹھن ہوتی چلی گئی مگر وہ اپنی پارٹی کے ساتھ مسلسل چمٹے رہے ۔زرداری صاحب اپنے اس ضدی کارکن سے بیزار تھے حتیٰ کہ پارٹی میں اسکی رکنیت معطل کر دی مگر یہ ضدی کارکن دونوں کشتیوں پر سوار رہا۔دو کشتیوں کا سوار کبھی منزل تک نہیں پہنچ پایا مگر تحریک اور پورے پاکستان نے اسکی کشتی کو سہارہ دئیے رکھا۔ پیپلز پارٹی کے مخالفین نے بھی اس ضدی کارکن کی حوصلہ افزائی جاری رکھی اورکشتی منزل تک پہنچ گئی۔ ان ہونی ہو گئی۔اس دو سالہ سفر کے دوران’’گومشرف گو‘‘ جبکہ جمہوریت آنے کے بعد ’’عدلیہ بحال کرو‘‘ کے نعرے لگتے رہے جبکہ’’گو زرداری گو ‘‘ کے نعرے سختی سے منع تھا۔ اسکی وجہ سے ایک نیا مسئلہ شرع ہو گیا کہ اعتزاز احسن اندر سے زرداری کے ساتھ’’ رلا‘‘ ہوا ہے۔ چیف جسٹس کی موجودگی میں گجرات میں ایک جلسے کے دوران جب صدر زرداری کے خلاف نعرے لگائے گئے تو اعتزاز احسن خاموش کھڑے پنڈال کوتکتے رہے ۔ وکلاء نعرے لگا کر جب تھک گئے تو اعتزاز احسن نے کہا کہ میں یہ دیکھ رہا تھا کہ آپ لوگ کتنی دیر تک نعرے لگا سکتے ہیں ۔آصف علی زرداری صرف میرا نہیں پورے پاکستان کا صدر ہے۔جمہوری حکمران ہے۔منتخب صدر ہے۔ہماری لڑائی جمہوری صدر کے خلاف نہیں اور نہ ہی ہم جمہوری حکومت کو گرانے کے لئے نکلے ہیں،ہم محترمہ کا وعدہ ’’میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے گھر پر جھنڈا لہرائونگی‘‘ کو پورا کرانے کے لئے گھروں سے نکلے ہیں۔جب تک بی بی کی خواہش پوری نہیں ہو جاتی ہم گھروں کو نہیں جائیں گے ۔ ’گو مشرف اور گو زرداری‘ میں فرق سمجھیں ۔اعتزاز احسن خود کو پیپلز پارٹی کا کارکن کہتے ہیں جبکہ آصف علی زرداری کو انکی قدر نہیں ہے۔ زرداری کو شاید ادراک نہیں کہ اعتزاز احسن مقبولیت کے اس مقام پر ہیں جہاں زرداری کا گزر تک نہیں۔ زرداری صاحب نے پیپلز پارٹی کو اس حد تک بدنام کر دیا ہے کہ اقتدار میں آنے کی فی الحال توقع نہیں رہی البتہ اعتزاز احسن کو آگے کیا جائے تو پارٹی کو نئی زندگی ملنے کا امکان ہے۔
اعتزاز احسن نیویارک میں حکومت کے قیام اور جمہوریت کی بحالی کا بھاشن دے رہے تھے کہ میں نے کہا کہ جب سے آپکی پارٹی برسر اقتدار آئی ہے خود کش دھماکوں میںشدت آ رہی ہے ۔گذشتہ برس2008 میں قریبََا 61 خود کش دھماکے ہوئے جبکہ رواں سال اکتوبر تک ان دس مہینوں میں چھوٹے بڑے 417 دھماکے ہو چکے ہیں ۔اس حکومت نے ملک کوخودکش دھماکوں میں شدت کے سوا کیادیا ہے ؟ مزید تین سال رہی تو خاکم بدہن اگلے سال دھماکوں میں دوگنا اضافہ ہونے کا خدشہ ہے ۔اعتزاز احسن اپنے موقف پر قائم رہے اور کہا کہ حکومت تبدیل کرنے سے خود کش دھماکے ختم نہیں ہو جائیں گے۔جمہوریت کو میعاد پوری کرنے دیں ۔۔۔اور مثال دیتے ہوئے بولے کہ پاکستان میں انسانوں اور جانوروں کے فضلے اور غلاظت آبادیوں کے اطراف بہتے دریائوں اور ندیوں میںپھینک دئے جاتے ہیں چونکہ پانی مسلسل بہتا رہتا ہے لہذا تمام غلاظت خود بخود صاف ہوتی چلی جاتی ہے اور پاکستان کے لوگ انہی دریائوں اور ندیوں سے پانی پیتے ہیں۔جمہوریت کی بھی یہی صورت ہے۔چلتی رہے تو خود بخود صاف شفاف ہوتی چلی جائے گی ۔جمہوریت جیسی بھی ہو اسے چلتے رہنا چاہئے۔موجودہ حکومت منتخب حکومت ہے۔یہ کسی ایک پارٹی کی نہیں بلکہ پورے پاکستان کی حکومت ہے ۔کچھ لوگ جمہوری حکومت کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ڈوگر پریس کانفرنس جیسی سازشیں کی جارہی ہیں مگر ہم ان سازشوں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔عبدالحمید ڈوگر نے پریس کانفرنس کرکے عدلیہ کا وقار مجروح کیا ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری بیوی بچوں سمیت پانچ ماہ نظر بند رہے مگر بحالی عدلیہ کی دو سالہ تحریک کے دوران انہوں نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوںکا ایک بار بھی تذکرہ نہیں کیا۔اندرون اوربیرون ملک بے شمار جلسوں اور تقریبات سے خطاب کیا مگر پریس کانفرنس تو درکنار ایک بیان تک نہیں دیا۔ افتخار محمد چودھری صاحب کو کہا جاتا رہاکہ وہ سیاست کرر ہے ہیں۔ ڈوگر صاحب پر ابھی کو ئی مشکل وقت نہیں آیا اور پریس کانفرنسیں شروع کر دی ہیں۔کون سیاست کر رہاہے؟جمہوری نظام کے خلاف بُنی جانے والی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے مڈ ٹرم الیکشن سے بچا جائے۔ مجھے مڈ ٹرم الیکشن کا خدشہ نظر نہیں آرہا ۔پیپلز پارٹی میری پارٹی ہے ۔اپنی الگ پارٹی بنانے کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔وکلاء تحریک میں مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔کسی نہ کسی جماعت سے وابستہ ہیں لہذا وکلاء کی الگ سیاسی پارٹی کا بھی امکان نہیں ہے۔بلا شبہ پاکستان کٹھن دور سے گزر رہا ہے مگر پاکستان، افغانستان یا عراق نہیں ہے۔ پاکستان ایک مضبوط ریاست ہے۔ خودکش دھماکے اسے کمزور نہیں کر سکتے ۔ اسکا مقابلہ کرنے کے لئے قوم میں اتحاد کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ امریکہ کی ہے یا کہ پاکستان کی، جیسی بحث اور اختلاف سے اب آگے دیکھنا چاہئے۔ اس جنگ میں امریکی نہیں ہمارے لوگ مر رہے ہیں۔ پاکستان میں آگ لگا کر مشرف امریکہ بھاگ آئے ہیں۔ میں پرویز مشرف کو چیلنج کرتا ہوں کہ اگر وہ خود کو کمانڈو کہتے ہیں تو میرے ساتھ پاکستان چلیں ۔ان کے خلاف آرٹیکل 6 کا مقدمہ بنتا ہے مگر میںذاتی اور اصولی طور پر مشرف کی سزائے موت کے خلاف ہوں۔میں سمجھتا ہوں کہ مشرف کا ٹرائل ہونا چاہئے۔انہیں اپنی صفائی کا پورا حق ملنا چاہئے اور پھر اسکے مطابق انکا فیصلہ کیا جائے۔مشرف کو پاکستان جا کر اپنے مقدمات کا سامنا کرنا چاہیے لیکن مجھے یقین ہے کہ مشرف اب کبھی پاکستان نہیں جائیں گے ۔اعتزاز احسن نے اپنی پارٹی کے کارکنان کے لئے تعریفی کلمات کہے ۔ واشنگٹن،باسٹن اور نیویارک میں خطابات کے دوران اعتزاز احسن کی اپنی پارٹی کے ساتھ قلبی وابستگی جھوم جھوم کر جھلک رہی تھی۔ ایک کشتی پر دو پیر رکھے طویل اور مشکل ترین سفر لگن،خلوص اور جذبے کے بغیر نا ممکن تھا ۔دنیا میں جہاں جاتے ہیں لوگ انکی عزت کرتے ہیں البتہ آصف علی زرداری کو اعتزاز احسن کی صلاحیتوں اور قابلیت کا ادراک نہیں ۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ پیپلز پارٹی کے اندر ٹوٹ پھوٹ ہو چکی ہے اورجیالے ان سے بد ظن ہو رہے ہیں زرداری صاحب اعتزاز احسن جیسے قیمتی کارکن کی صلاحیتوں سے مستفید نہیں ہونا چاہتے ۔اعتزاز احسن کی مقبولیت سے خوفزدہ ہیں ۔جو شخص اپنی زندگی کے مشکل ترین دور میں بھی اپنی پارٹی چھوڑنے کو تیار نہیں تھا زرداری صاحب کو اس سے خوفزدہ نہیں بلکہ اس پر فخر کرنا چاہئے۔اعتزاز احسن سیاستدان ہی نہیں شہرت یافتہ دانشور بھی ہیں ۔ انکے مخالفین بھی انکا احترام کرتے ہیں۔
بحالی عدلیہ کی جدوجہدکے دوران اعتزاز احسن کی ٹون پرویز مشرف کے خلاف نہایت سخت اور دو ٹوک رہی۔انتخابات ہوئے۔اعتزاز احسن کی پارٹی حکومت میں آگئی اورانہیں منزل ملنے کی قوی امید بندھی لیکن۔۔۔جب اپنا بھی دکھ دے تو بندہ تڑپ اٹھتا ہے کہ You too ? ۔بی بی کا وعدہ وفا نہ ہونے پر کارکنوں کو دھچکا لگا اور اعتزاز کو اپنی حکومت کے خلاف بھی دوٹوک رویہ اختیار کرنا پڑا اسکے باوجود ان پر زرداری کے ساتھ خفیہ معاہدوں اور ملاقاتوں کے الزامات لگتے رہے ۔ انکی جدوجہد کٹھن ہوتی چلی گئی مگر وہ اپنی پارٹی کے ساتھ مسلسل چمٹے رہے ۔زرداری صاحب اپنے اس ضدی کارکن سے بیزار تھے حتیٰ کہ پارٹی میں اسکی رکنیت معطل کر دی مگر یہ ضدی کارکن دونوں کشتیوں پر سوار رہا۔دو کشتیوں کا سوار کبھی منزل تک نہیں پہنچ پایا مگر تحریک اور پورے پاکستان نے اسکی کشتی کو سہارہ دئیے رکھا۔ پیپلز پارٹی کے مخالفین نے بھی اس ضدی کارکن کی حوصلہ افزائی جاری رکھی اورکشتی منزل تک پہنچ گئی۔ ان ہونی ہو گئی۔اس دو سالہ سفر کے دوران’’گومشرف گو‘‘ جبکہ جمہوریت آنے کے بعد ’’عدلیہ بحال کرو‘‘ کے نعرے لگتے رہے جبکہ’’گو زرداری گو ‘‘ کے نعرے سختی سے منع تھا۔ اسکی وجہ سے ایک نیا مسئلہ شرع ہو گیا کہ اعتزاز احسن اندر سے زرداری کے ساتھ’’ رلا‘‘ ہوا ہے۔ چیف جسٹس کی موجودگی میں گجرات میں ایک جلسے کے دوران جب صدر زرداری کے خلاف نعرے لگائے گئے تو اعتزاز احسن خاموش کھڑے پنڈال کوتکتے رہے ۔ وکلاء نعرے لگا کر جب تھک گئے تو اعتزاز احسن نے کہا کہ میں یہ دیکھ رہا تھا کہ آپ لوگ کتنی دیر تک نعرے لگا سکتے ہیں ۔آصف علی زرداری صرف میرا نہیں پورے پاکستان کا صدر ہے۔جمہوری حکمران ہے۔منتخب صدر ہے۔ہماری لڑائی جمہوری صدر کے خلاف نہیں اور نہ ہی ہم جمہوری حکومت کو گرانے کے لئے نکلے ہیں،ہم محترمہ کا وعدہ ’’میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے گھر پر جھنڈا لہرائونگی‘‘ کو پورا کرانے کے لئے گھروں سے نکلے ہیں۔جب تک بی بی کی خواہش پوری نہیں ہو جاتی ہم گھروں کو نہیں جائیں گے ۔ ’گو مشرف اور گو زرداری‘ میں فرق سمجھیں ۔اعتزاز احسن خود کو پیپلز پارٹی کا کارکن کہتے ہیں جبکہ آصف علی زرداری کو انکی قدر نہیں ہے۔ زرداری کو شاید ادراک نہیں کہ اعتزاز احسن مقبولیت کے اس مقام پر ہیں جہاں زرداری کا گزر تک نہیں۔ زرداری صاحب نے پیپلز پارٹی کو اس حد تک بدنام کر دیا ہے کہ اقتدار میں آنے کی فی الحال توقع نہیں رہی البتہ اعتزاز احسن کو آگے کیا جائے تو پارٹی کو نئی زندگی ملنے کا امکان ہے۔
اعتزاز احسن نیویارک میں حکومت کے قیام اور جمہوریت کی بحالی کا بھاشن دے رہے تھے کہ میں نے کہا کہ جب سے آپکی پارٹی برسر اقتدار آئی ہے خود کش دھماکوں میںشدت آ رہی ہے ۔گذشتہ برس2008 میں قریبََا 61 خود کش دھماکے ہوئے جبکہ رواں سال اکتوبر تک ان دس مہینوں میں چھوٹے بڑے 417 دھماکے ہو چکے ہیں ۔اس حکومت نے ملک کوخودکش دھماکوں میں شدت کے سوا کیادیا ہے ؟ مزید تین سال رہی تو خاکم بدہن اگلے سال دھماکوں میں دوگنا اضافہ ہونے کا خدشہ ہے ۔اعتزاز احسن اپنے موقف پر قائم رہے اور کہا کہ حکومت تبدیل کرنے سے خود کش دھماکے ختم نہیں ہو جائیں گے۔جمہوریت کو میعاد پوری کرنے دیں ۔۔۔اور مثال دیتے ہوئے بولے کہ پاکستان میں انسانوں اور جانوروں کے فضلے اور غلاظت آبادیوں کے اطراف بہتے دریائوں اور ندیوں میںپھینک دئے جاتے ہیں چونکہ پانی مسلسل بہتا رہتا ہے لہذا تمام غلاظت خود بخود صاف ہوتی چلی جاتی ہے اور پاکستان کے لوگ انہی دریائوں اور ندیوں سے پانی پیتے ہیں۔جمہوریت کی بھی یہی صورت ہے۔چلتی رہے تو خود بخود صاف شفاف ہوتی چلی جائے گی ۔جمہوریت جیسی بھی ہو اسے چلتے رہنا چاہئے۔موجودہ حکومت منتخب حکومت ہے۔یہ کسی ایک پارٹی کی نہیں بلکہ پورے پاکستان کی حکومت ہے ۔کچھ لوگ جمہوری حکومت کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ڈوگر پریس کانفرنس جیسی سازشیں کی جارہی ہیں مگر ہم ان سازشوں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔عبدالحمید ڈوگر نے پریس کانفرنس کرکے عدلیہ کا وقار مجروح کیا ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری بیوی بچوں سمیت پانچ ماہ نظر بند رہے مگر بحالی عدلیہ کی دو سالہ تحریک کے دوران انہوں نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوںکا ایک بار بھی تذکرہ نہیں کیا۔اندرون اوربیرون ملک بے شمار جلسوں اور تقریبات سے خطاب کیا مگر پریس کانفرنس تو درکنار ایک بیان تک نہیں دیا۔ افتخار محمد چودھری صاحب کو کہا جاتا رہاکہ وہ سیاست کرر ہے ہیں۔ ڈوگر صاحب پر ابھی کو ئی مشکل وقت نہیں آیا اور پریس کانفرنسیں شروع کر دی ہیں۔کون سیاست کر رہاہے؟جمہوری نظام کے خلاف بُنی جانے والی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے مڈ ٹرم الیکشن سے بچا جائے۔ مجھے مڈ ٹرم الیکشن کا خدشہ نظر نہیں آرہا ۔پیپلز پارٹی میری پارٹی ہے ۔اپنی الگ پارٹی بنانے کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔وکلاء تحریک میں مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔کسی نہ کسی جماعت سے وابستہ ہیں لہذا وکلاء کی الگ سیاسی پارٹی کا بھی امکان نہیں ہے۔بلا شبہ پاکستان کٹھن دور سے گزر رہا ہے مگر پاکستان، افغانستان یا عراق نہیں ہے۔ پاکستان ایک مضبوط ریاست ہے۔ خودکش دھماکے اسے کمزور نہیں کر سکتے ۔ اسکا مقابلہ کرنے کے لئے قوم میں اتحاد کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ امریکہ کی ہے یا کہ پاکستان کی، جیسی بحث اور اختلاف سے اب آگے دیکھنا چاہئے۔ اس جنگ میں امریکی نہیں ہمارے لوگ مر رہے ہیں۔ پاکستان میں آگ لگا کر مشرف امریکہ بھاگ آئے ہیں۔ میں پرویز مشرف کو چیلنج کرتا ہوں کہ اگر وہ خود کو کمانڈو کہتے ہیں تو میرے ساتھ پاکستان چلیں ۔ان کے خلاف آرٹیکل 6 کا مقدمہ بنتا ہے مگر میںذاتی اور اصولی طور پر مشرف کی سزائے موت کے خلاف ہوں۔میں سمجھتا ہوں کہ مشرف کا ٹرائل ہونا چاہئے۔انہیں اپنی صفائی کا پورا حق ملنا چاہئے اور پھر اسکے مطابق انکا فیصلہ کیا جائے۔مشرف کو پاکستان جا کر اپنے مقدمات کا سامنا کرنا چاہیے لیکن مجھے یقین ہے کہ مشرف اب کبھی پاکستان نہیں جائیں گے ۔اعتزاز احسن نے اپنی پارٹی کے کارکنان کے لئے تعریفی کلمات کہے ۔ واشنگٹن،باسٹن اور نیویارک میں خطابات کے دوران اعتزاز احسن کی اپنی پارٹی کے ساتھ قلبی وابستگی جھوم جھوم کر جھلک رہی تھی۔ ایک کشتی پر دو پیر رکھے طویل اور مشکل ترین سفر لگن،خلوص اور جذبے کے بغیر نا ممکن تھا ۔دنیا میں جہاں جاتے ہیں لوگ انکی عزت کرتے ہیں البتہ آصف علی زرداری کو اعتزاز احسن کی صلاحیتوں اور قابلیت کا ادراک نہیں ۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ پیپلز پارٹی کے اندر ٹوٹ پھوٹ ہو چکی ہے اورجیالے ان سے بد ظن ہو رہے ہیں زرداری صاحب اعتزاز احسن جیسے قیمتی کارکن کی صلاحیتوں سے مستفید نہیں ہونا چاہتے ۔اعتزاز احسن کی مقبولیت سے خوفزدہ ہیں ۔جو شخص اپنی زندگی کے مشکل ترین دور میں بھی اپنی پارٹی چھوڑنے کو تیار نہیں تھا زرداری صاحب کو اس سے خوفزدہ نہیں بلکہ اس پر فخر کرنا چاہئے۔اعتزاز احسن سیاستدان ہی نہیں شہرت یافتہ دانشور بھی ہیں ۔ انکے مخالفین بھی انکا احترام کرتے ہیں۔